پبجی اور فری فائر


پبجی (PUBG) مطلب PlayerUnknown ’s Battlegrounds یعنی نامعلوم کھلاڑیوں کا میدان جنگ، یہ ایک آن لائن ملٹی پلیئر گیم ہے جسے جنوبی کوریا کے ویڈیو گیم کمپنی ”بلیو ہول“ کے زیر نگرانی PUBG کارپوریشن نے تیار کیا ہے۔ اس گیم میں بیک وقت ایک سو تک کھلاڑی پیراشوٹ کے ذریعے ایک جزیرے میں اتر کر ہتھیار حاصل کرنے کے لئے مقابلہ کرتے ہیں تاکہ خود کو بچاتے ہوئے دوسروں کو قتل کر سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محفوظ رقبہ کم ہوتا جاتا ہے اور مقابلہ سخت سے سخت تر کی جانب بڑھتا جاتا ہے۔ سب سے آخر میں بچ جانے والا ٹیم یا کھلاڑی راؤنڈ کا فاتح قرار دیا جاتا ہے۔

یہ دنیا کے مقبول ترین گیمز میں شمار کیا جانا والا گیم ہے۔ 2019 ء میں اس کے ساٹھ ملین کاپی فروخت کیے گئے اور چھ سو ملین مرتبہ موبائل پر اس گیم کو ڈاؤن لوڈ کیا گیا۔ بہترین ملٹی پلیئر گیم ایوارڈ اپنے نام کرنے کے ساتھ اس کو کئی مرتبہ ”سال کے سب سے بہترین گیم“ کے ایوارڈ کے لئے بھی نامزد کیا چکا ہے۔ کئی ممالک میں اس گیم پر اس بناء پر پابندی عائد ہے کہ یہ نوجوان کھلاڑیوں کے لئے مبینہ طور پر نقصان دہ ہے اور یہ کھیل ان کو عادی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

فری فائر : Free Fire

یہ بھی PUBG کی طرح ایک آن لائن ملٹی پلیئر گیم ہے جسے 111 ڈاٹس سٹوڈیو نے بنایا ہے اور گیرینا نے اینڈرائڈ اور ios کے لئے شائع کیا ہوا ہے۔ یہ پلے اسٹور سے 2019 ء میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کیا جانا والا گیم ہے۔ یہ بھی ویڈیو گیم کی دنیا میں کئی ایوارڈز اپنے نام کر چکا ہے۔ اس کو شائع کرنے والی کمپنی ”گیرینا“ اب اس کی ایڈوانس ورژن پر کم کر رہی ہے جسے فری فائر میکس کا نام دیا جائے گا۔

یہ دونوں گیمز مرد اور عورت، چھوٹوں اور بڑوں سب میں یکساں مقبول ہیں۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے زیادہ تر لوگ ان کے عادی بن چکے ہیں۔ یہ بھی ایک منفرد قسم کے نشے کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ ان گیمز کے عادی بچوں کو ان کے کھیلنے سے منع کرنے کے بعد خود کشی کرنے پر اترتے ہیں۔ ان کے شوقین حضرات پورا پورا دن اور پوری پوری رات ان کو کھیلتے رہتے ہیں اور اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے پر کوئی پچھتاوا تک نہیں رہتا ان کو بلکہ ان گیمز کو کھیلتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔

خاص کر بچوں کے لئے یہ انتہائی خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔ ایک وسیع میدان میں کھیل کود کرنے کی بجائے ایک کمرے میں مقید ہوتے ہیں، ان کا قیمتی وقت ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے صحت پر کافی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سکرین ٹائم کی زیادتی کی وجہ سے ان کے بینائی کو کافی خطرہ لاحق ہے۔ یہ بچوں میں شدت پسندی کے باعث بھی بن چکے ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک کی حکومتیں اور والدین ان گیمز کے آگے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ آخر اس کا انجام کیا ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments