نا مردی کے جوتے


زندگی نام کی فاحشہ کے مُنہ کو خون لگا ہے

یہ بھینٹ چاہتی ہے

ایک کنواری کنہیا کی بھینٹ

یہی تو صدیوں کی رِیت ہے

قحط پڑا ہے

اناج کے دیوتا آنکھیں لال ہیں

بارش کا دیوتا روٹھ گیا ہے

باڑھ نے تباہی پھیلائی ہے

دریا اُتر نہیں رہا ہے

سورج قہر ڈھا رہا ہے

سارے دیوتا ناراض ہیں

اور

سب کنواریوں کی بھینٹ چاہتے ہیں

وقت کیلنڈر کے پنے تیزی سے اُلٹنے لگا

انسان نے درزی سے

دیوتا کا لباس سِلا کے پہنا

اور قمیض میں کنوار پن کی جیبیں رکھوائیں

اور

اب بستر کی شِکنوں میں

کنوار پن کا خون نہیں

تو

کنہیا انسان نہیں

جھوٹا برتن ہے

اسے ایک چھناکے سے توڑ دو

مرد، مرد ہے یا نامرد ہے

مگر

قبیلہ دیوار پہ چڑھا

خون بھری سفید چادر دیکھنا چاہتا ہے

اور

وہ نامردی کے جوتے پہنے

ساری رات ٹہلتا رہا

کہ

عزت کو بھینٹ کی طلب ہے

صبح کا سورج

گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی گونج میں طلوع ہوا

بے زبان جانور نے لال کفن پہنا

زندگی نام کی فاحشہ کے چہرے پر

آسودگی بھری مسکراہٹ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments