بینکوں میں کسٹمر سروسز کا گرتا ہوا معیار


چند دن قبل میں ایک بینک میں اپنا نیا اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے گیا۔ کوئی دس صفحے کا اکاؤنٹ اوپننگ فارم اور اس کے ساتھ ایک پلندہ کاغذات کا پر کرنے کے لئے دیا گیا۔ میں نے اکاؤنٹ اوپننگ فارم اور اس کے ساتھ منسلکہ فارم پر کر کے متعلقہ افیسر کو دیے اور اسے سیونگ اکاونٹ کھولنے کو کہا۔ بائیومیٹرک اور دوسرے سارے ضروری کاغذات بینک میں دے کر میں گھر آ گیا۔ اگلے دن کچھ اور کاغذات پر دستخط کروائے اور پھر تیسرے چوتھے دن کچھ اور کاغذات پر دستخط کروائے گئے۔ دس دن بعد فون پر میسج آیا کہ آپ کا بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ کھل گیا ہے۔ میں نے بینک فون کر کے پوچھا کہ میں نے تو سیونگ اکاؤنٹ کھلوایا تھا توآپ نے کرنٹ اکاؤنٹ کیوں کھولا ہے۔ ان کے پاس کوئی اس کا جواب نہیں تھا۔

میرا بیٹا بیرون ملک سے ہمارے خرچہ کے لئے پیسے بھیجتا ہے۔ ایک دن میں ایک بڑے بینک کی برانچ میں یہ رقم لینے گیا تو انہوں نے کہا، کہ ہمارا سسٹم خراب ہے، آپ ہماری بڑی برانچ سے لے لیں۔ ۔ ان کی بڑی برانچ میں گیا۔ آدھا گھنٹہ لائن میں لگنے کے بعد کیشئر صاحب نے کہا کہ آج ہمارے پاس کیش ختم ہو گئی ہے آپ کل آئیں۔ پھر تین دن بعد رقم وصول ہوئی۔ بیرون ملک سے بھیجی گئی رقوم وصول کرنے کے لئے چکر لگوائے جا تے ہیں۔ میں ایک ریٹائرڈ آدمی ہوں تو کیا بینک میں سینئر سٹیزن کے لئے علیحدہ کاؤنٹر نہیں بن سکتا۔

میں ایک کمرشل بینک کی برانچ میں اپنے نواسے کی سکول کی فیس جمع کروانے جاتا تھا۔ ہمیشہ ان سے پانچ روپے واپس نہ کرنے پر تکرار ہوتی تھی۔ ایک دفعہ کیشئر نے کہا بابا جی، پانچ روپے کا کیا کریں گے۔ ہمارے پاس چینج نہیں ہے۔ اب ان بچوں کو کون سمجھائے کہ بات پانچ روپے کی نہیں ہے، بات اصول کی ہے۔ بینک کے پاس اگر چینج نہیں ہو گا تو کس کے پاس ہو گا۔ میرا مشاہدہ ہے کہ یوٹیلٹی بل جمع کروانے اور بیرون ملک سے بھیجی گئی رقوم وصول کرنے والوں کے ساتھ بینکوں میں بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بینکوں سے پینشن وصول کرنے والے بزرگ شہریوں کے ساتھ بھی بینک والوں کا رویہ بہت برا ہوتا ہے۔ اس طرح کے بہت سے واقعات روزانہ نظر سے گزرتے ہیں جن کی بنا پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ پچھلے چند سالوں میں بینکوں میں کسٹمر سروسز کے معیار میں نمایاں کمی آئی ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ تو نئے بھرتی ہونے والے سٹاف کی باقاعدہ ٹریننگ نہ ہونا ہے۔ نئے افسر بھرتی کر کے بیس دن کی ٹریننگ کے بعد ان کو کاؤنٹر پر بٹھا دیا جاتا ہے ۔ ان کو نہ تو ابھی بینکنگ کی الف بے آتی ہے اور نہ ہی کسٹمر سروس کا پتہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں بینک اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے ہیں۔

پاکستان میں سٹیٹ بنک تمام کمرشل بینکوں کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ سٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کردہ مختلف ریگولیشن پر بہت سے بینکوں کی زیادہ تر برانچوں میں عمل نہیں کیا جاتا۔ جس کی بڑی وجہ متعلقہ سٹاف کا تربیت یافتہ نہ ہونا ہے۔

سٹیٹ بینک کے BPRD Cir۔ 21 جاری کردہ 13 اگست 2002 کے مطابق ہر بینک پر لازم ہے کہ وہ اپنے ایسے اکاؤنٹ ہولڈر جن کے فعال Active اکاونٹ میں دس ہزار یا اس سے زیادہ رقم ہو، اس کو سال میں دو دفعہ یعنی 30 جون اور 31 دسمبر کو اکاؤنٹ کی سٹیٹمنٹ بغیر کسی معاوضے کے بھیجے گا۔ بینک اپنی اس ذمہ داری سے کبھی عہدہ برا نہیں ہوتے۔ شاید ہی کسی اکاؤنٹ ہولڈر کو باقاعدگی سے ان کے اکاؤنٹ کی سٹیٹمنٹ ملتی ہو۔ لوگ شکائتیں کر کر کے تھک جاتے ہیں لیکن کوئی نہیں سنتا۔ مجھے خود کافی عرصہ سے میرے اکاؤنٹ کی سٹیٹمنٹ نہیں ملی۔

سٹیٹ بینک کے ہی 9 / 2011 BPRD Cir۔ کی سیکشن A۔ II کے رو سے بینک اکاؤنٹ کھولنے پر بینک کو اپنے اکاؤنٹ ہولڈر کو دستخط شدہ اکاؤنٹ اوپننگ فارم کی ایک کاپی دینا چا ہیے۔ لیکن اس پر عمل صرف دس فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔ اکثر بینک برانچیں کسٹمر کو کاپی فراہم نہیں کرتیں۔ مجھے تو آج تک کسی برانچ نے فارم کی کاپی نہیں دی۔ عموماً کسٹمر سیدھے سادھے ہوتے ہیں اور بینکر انھیں ان کے اکاؤنٹ اور انویسٹمنٹ کے بارے میں صیح معلومات فراہم نہیں کرتے۔

سٹیٹ بینک نے 4 / 2014 CCD Cir۔ کے تحت سارے کمرشل بینکوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے کسٹمر کے ساتھ تعلق کو ایمانداری اور منصفانہ طریقے سے نبھائیں اور ان کے مفادات کو بھی مد نظر رکھا کریں۔ بینکوں کا کسٹمر کے ساتھ منصفانہ تعلق ہی ان کابینکوں کے اوپر اعتماد اور تسلی بخش اطمینان ہو گاجو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے لئے بینکوں کو ہدایت کی گئی تھی وہ اپنے تمام سٹاف کے لئے FTC ( Fair treatment to Customer ) کی تربیت کا بندوبست کریں۔ بہت سارے بینکوں نے اپنے سٹاف کے لئے ٹریننگ کا تو بندوبست کیا لیکن اس کے بینک میں عملی نفاذ کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔ صرف سٹیٹ بینک کو ٹریننگ مکمل کرنے کی تصدیق دے دی اور کام ختم۔

بینکوں میں FTC نافذ کرنے کا فیصلہ بینکوں میں بینکا انشورنس کی فریب اور غلط اعداد و شمار کی بنیاد پر فروخت پر عوامی شکایات کی وجہ سے کیا گیا۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ بینکوں کا فیلڈ سٹاف کسٹمر کے مفادات کا خیال نہیں رکھتا ہے یہ سٹاف اپنے ٹارگٹ پورے کرنے کے لیے اور اپنے بونس کے لالچ میں کسٹمرکو متعلقہ بچت کی سکیم اور دوسرے پراڈکٹ کے بارے میں پوری طرح آگاہی نہیں دیتے۔ ان کے علم میں لائے بغیر ان سے ایسے کاغذات پر دستخط کرا لئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بعد میں وہ بینک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔ اس کو عام الفاظ میں دھوکہ دہی کہہ سکتے ہیں۔ اسی لئے سٹیٹ بینک نے بینکوں میں FTC کے نفاذپر زور دیا۔

بینکوں کے لئے لازم ہے کہ وہ بچت کھاتوں Saving Deposit Scheme پر نفع میں کمی و بیشی ہونے پر اپنے سارے کسٹمر کو اس کی اطلاع بذریعہ خط دیں یا اخبار کے ذریعے مطلع کریں لیکن کوئی بھی بینک اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتا۔ ماضی قریب میں بینک سٹاف نے غلط اعداد و شمار اور منافع کی رقم بہت بڑھا چڑھا کربیان کر کے اپنے کھاتہ داروں سے بینکا انشورنس اور فنڈ منیجر میں اربوں کی سرمایہ کاری کروائی۔ کھاتہ داروں نے بھی بینک سٹاف پر اعتماد کرتے ہوئے اور زیادہ منافع کے لالچ میں ان دونوں سکیموں میں انویسٹمنٹ کر دی۔

اب فنڈ منیجر کی میچورٹی آ چکی ہے جس میں کھاتہ دار وں کو منافع تو نہیں ملا البتہ اپنی اصل رقم کا ایک بڑا حصہ گنوا بیٹھے ہیں۔ اس سال بینکا انشورنس کی انویسٹمنٹ کی میعاد بھی پوری ہونا شروع ہو گئی ہے۔ جن لوگوں کو دس سال بعد تین گناہ زیادہ رقم دینے کا وعدہ کیا گیا تھا ان کو بمشکل اپنی اصل رقم ہی واپس مل رہی ہے جس سے لوگ بہت زیادہ پریشان ہو رہے ہیں۔ ان کا بینکاری نظام پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ اس صورت حال کا مارکیٹ میں پھیلے نوسرباز فائدہ اٹھا کر زیادہ منافع کا جھانسہ دے کر لوگوں کو ان کی اصل رقم سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں پاکستانی بینکنگ سسٹم بڑی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں پاکستان کے بینکنگ کے نظام میں بہت بہتری آئی ہے اور بہت سی نئی سہولیات گاہکوں کے لئے فرا ہم کی گئی ہیں۔ برانچوں کے بنیادی ڈھانچوں اور اندرونی ماحول میں مثبت تبدیلی کے علاوہ برانچوں کی اندرونی تزئیں وآرائش کی گئی ہے۔ ہر برانچ میں اے ٹی ایم کی تنصیب۔ کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز۔ کنزیومر لون جس میں گھر۔ گاڑی کے لئے قرضہ جات کے علاوہ نیٹ بینکنگ۔ آن لائن بینکنگ۔ ای کامرس اور جدید بینکنگ کی دوسری سہولیت فراہم کی گئی ہیں۔ یہ ساری سہولیات فراہم کرنے کا مقصد گاہکوں کا اطمینان حاصل کرنے کی طرف اچھے اقدام تھے جس سے کسٹمر سروس میں بہت بہتری آئی ہے۔

کسٹمر سروس اور زیادہ بہتر بنانے کے لئے بینکوں کوچاہیے کہ وہ اپنے سٹاف کی ضروری راہنمائی کریں تا کہ وہ رضا مندی اور خوش دلی سے اپنے گاہکوں کی مدد کریں۔ سٹاف اپنے گاہکوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیں، ان کی سپورٹ کریں اور ان کی صیح راہنمائی کریں۔ بینکنگ پراڈکٹس کے بارے میں گاہکوں کو درست اور مکمل معلومات مہیا کریں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کو بینکنگ پر پورا عبور حاصل ہو۔ اس کے لئے بینک اپنے سٹاف کے لئے سپیشل ٹریننگ کا بندوبست کریں۔

بینکوں کو اپنے گاہکوں کا اطمینان جانچنے کے لئے وقفوں وقفوں سے سروے کراتے رہنے چاہیں۔ اس سے گاہکوں کی ضروریات اور ان کی بینک اور سٹاف کے خلاف شکایات کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ یہ سروے گاہکوں کے لئے نئی پالیسیاں بنانے میں بھی مدد گار ثابت ہو گا۔ ماضی میں کچھ بڑے بینک اپنی سروسز کے بارے میں یہ سروے کرواتے رہے ہیں۔

بینکوں کے گلوبل آپریشنز کو بھی چاہیے کہ وہ سٹیٹ بینک کے جاری کردہ اقدامات و ہدایات پر اپنے بینک میں عمل درامد یقینی بنائیے اور اس سلسلے میں اپنے سٹاف کے لئے مناسب تربیت کا اہتمام کریں۔ سٹیٹ بینک کو بھی چا ئیے کہ وہ اپنی مانیٹرنگ سخت کرے اور اپنی جاری کردہ ہدایات پر سختی سے عمل درامد کرائے۔ عمل درامدنہ کرنے کی صورت بھاری جرمانے کیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments