وبائی امراض اور اجتماعی عبادات


آج دنیا میں جہاں اس وائرس سے لاکھوں اموات ہو رہی ہیں اور ان گنت لوگ روزانہ متاثر ہو رہے ہیں، اس وقت بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے نمازوں کے اجتماعات روکنے کی حکومتی پالیسیوں کے خلاف سخت رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ ان علماء اور مشائخ کے مطابق اسلام کسی بھی صورت میں نماز باجماعت قائم کرنے سے منع نہیں کرتا۔ لیکن کیا یہ بات واقعی درست ہے؟ خدا تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے۔

و لا تلۡقوۡا بایۡدیۡکمۡ الی التہۡلکۃ اور اپنے ہاتھوں (اپنے تئیں ) ہلاکت میں نہ ڈالو۔
یہ آیت کریمہ واضح طور پر انسانی جان کی حفاظت کے مضمون کو بیان کرتی ہے۔

ان دنوں جبکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ موذی وائرس ایک دوسرے کے زیادہ قریب آنے سے پھیلتا ہے، تو ایسی صورتحال میں ایک عقل مند مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی جان اور دوسروں کی جان بچانے کے لئے اجتماعات میں نہ جائے۔ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ بات یقینی بنائی کہ کسی بھی شخص کو معمولی سی بھی تکلیف نہ پہنچے۔ چنانچہ احادیث میں یہ ذکر ملتا ہے کہ ایک مرتبہ بہت زیادہ بارش کے حالات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو یہ ارشاد فرمایا کہ اذان میں ”صلوا فى رحالکم“ کے الفاظ دہرائے جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد اس لیے فرمایا کہ لوگ بے جا تکلیف سے بچ جائیں اور اپنے گھروں میں نماز ادا کریں۔

(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب الرخصة فى المطر والعلة ان یصلی فی رحلھ)

اسی طرح ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد میں کوئی بھی بدبودار چیز کھا کر آنے سے منع فرمایا۔ حدیث میں آتا ہے۔

” قال من اکل ثوماً او بصلاً فلیعتزلنا او قال فلیعتزل مسجدنا ولیقعد فی بیتھ“ (صحیح البخاری، کتاب الاذان، ما جاء فی الثوم النی والبصل والکراث)

یعنی جس کسی نے لہسن یا پیاز کھایا ہو تو اس کو چاہیے کہ ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں بیٹھے۔

اب یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو محض بدبو کی وجہ سے ایسے شخص کو گھر بیٹھنے کا حکم دیا مگر آج کل کے نام نہاد علماء اس بات پر مصر ہیں کہ اس جان لیوا بیماری میں بھی ضرور مساجد میں جا کر ہی نماز ادا کی جائے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق چند روز قبل ایک تحقیق سامنے آئی کہ جنوبی کوریا کے ایک چرچ میں اجتماع کے باعث بیسیوں لوگوں میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی۔ ماہرین کے نزدیک اگر چرچ میں یہ اجتماع نہ ہوتا تو ملک میں یہ وائرس موجودہ نسبت سے نہ پھیلتا کیونکہ بہت سے لوگ اس وائرس ملک کے دیگر حصوں میں پھیلانے کا باعث بنے۔ ( بی بی سی .com 2 March 2020)

اسی طرح الجزیرہ 7 اپریل 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں تبلیغی جماعت کے اجتماعات کے باعث بہت سی جگہوں پر اس وائرس کی تصدیق ہوئی۔ بھارت کے نئی دہلی میں ہونے والے اس اجتماع کے نتیجے میں سینکڑوں مریض سامنے آئے۔ کچھ ایسا ہی منظر پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملا جہاں مذہبی اجتماعات کے باعث مریضوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔

حج صاحب استطاعت لوگوں کے لئے ایک فرض عبادت ہے۔ مگر یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج کل کے حالات کی وجہ سے حج کو بھی معطل کیا گیا ہے، جو کہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مخصوص حالات میں جب جان کا خطرہ ہو تو اس وقت نماز باجماعت موقوف کی جاسکتی ہے۔

اسلام حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پر بھی بہت زور دیتا ہے۔ خاص طور پر معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی مدد کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ آج کل جب دنیا کی معیشت کا پہیہ بالکل جام ہو چکا ہے اور دنیا ایک معاشی بحران سے گزر رہی ہے، ایسے وقت میں بہت سے لوگوں کے لئے دو وقت کا کھانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں جی جان سے مستحقین کی خدمت کرنی چاہیے۔ بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس مضمون کو اجاگر کرتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے حالات میں لوگ دوسروں کی مدد کے بجائے ناجائز منافع خوری پر زور دے رہے ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایک مسلمان کو ایسی بداخلاقی زیب نہیں دیتی۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ اس وبا کا خاتمہ فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments