قوم کو اغوا کرنے والے نامعلوم افراد نہیں


\"wajahat1\"جرمنی کا چانسلر کانریڈ ایڈنائر ستاسی برس کی عمر میں اپنی طویل سیاسی زندگی کے آخری پارلیمانی اجلاس کی صدارت کر رہا تھا۔ کانریڈ ایڈنائر نے دوسری عالمی جنگ میں شکست خوردہ مغربی جرمنی کی معاشی بحالی، جمہوری اداروں کی تشکیل اور ایک نئے یورپ کی تعمیر میں چودہ برس تک رہنما کردار ادا کیا تھا۔ وہ ایک عالمی مدبر کے طور پہ تسلیم کیا جا چکا تھا۔ پارلیمنٹ میں اس کے ساتھی اور مخالف جذباتی انداز میں اسے خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ ایک حریف رکن پارلیمنٹ نے کھڑے ہو کر کہا ”چانسلر ایڈنائر، مجھے کہنے دیجئے کہ نو برس پہلے 1954ء میں، میں نے آپ کے نیٹو میں شرکت کے فیصلے کی شدید مخالفت کی تھی۔میں غلطی پر تھا۔ آپ کی رائے صائب تھی“۔ بوڑھے ایڈنائر نے پلک جھپکائے بغیر کہا۔’فرق یہ ہے کہ میں صحیح وقت پر درست رائے دے رہا تھا۔ تم صحیح نتیجے پر پہنچنے میں دیر کر دیتے ہو‘۔ آج کے پاکستان میں بھی کچھ ایسا ہی منظر ہے۔ جو احباب چند برس پہلے تک طالبان سے مذاکرات کے پرجوش حامی تھے، اب خجالت کے عالم میں کوشش کر رہے ہیں کہ کھوکھلے دلائل کے وہ پلندے کہیں چھپا دیے جائیں جو وقت کے امتحان میں بری طرح پٹ چکے ہیں۔ بالآخر ہمیں بتایا گیا ہے کہ ریاست نے برے اور اچھے طالبان کی لکیر مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ گزشتہ پندرہ برس سے یہ نکتہ عرض کرنے کی جسارت کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دیا جاتا تھا۔ اب تسلیم کر لیا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری ’اپنی جنگ‘ ہے۔ قوموں کی زندگی میں جب ایسے مرحلے آتے ہیں تو حریفوں کو شرمندہ کرنا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ درست وقت پر صحیح رائے قائم کرنا سیاسی فہم کا نشان ہے اگرچہ کسی کو یہ دعویٰ کرنے کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہمیشہ درست رائے دیتا رہا ہے۔ رائے کا اظہار کرنا ایک بنیادی جمہوری حق ہے۔ رائے کی درستی پر کسی کا اجارہ نہیں۔ تاہم اس مرحلے پر کچھ بنیادی نکات کی نشان دہی ضروری ہے کیونکہ یہ جنگ ختم نہیں ہوئی، اب شروع ہوئی ہے۔

\"konrad_adenauer\"سیاست گھریلو اصلاحی فلم نہیں ہے کہ جذباتی منظر دیکھتے ہوئے ہماری آنکھیں بھر آئیں اور ہم اپنے طور طریقے ٹھیک کرنے کا فیصلہ کر لیں۔یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ سوات میں ایک نوجوان لڑکی کو سر عام الٹا لٹا کر کوڑے مارے جائیں اور پھر ہم سوات میں فوجی کارروائی پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کر کے ریاستی عمل داری کی حتمی توہین کی جائے تو ہم مذاکرات کا بستر لپیٹ کر آپریشن عضب شروع کریں۔ پشاور کے سکول میں معصوم بچوں کو خون میں نہلایا جائے اور پھر ہم دہشت گردی کے خلاف مکمل جنگ کا اعلان کریں۔ کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں خوں کی ہولی کھیلی جائے تو ہمیں خیال آئے کہ فرقہ پرست تنظیموں کے منہ میں دانت گننے کی ضرورت ہے۔ سیاسی رائے کی بنیاد کچھ اجتماعی اصولوں پر ہوتی ہے۔اس میں سوچی سمجھی ترجیحات ہوتی ہیں۔ کسی نصب العین کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔ طے شدہ حکمت عملی کی روشنی میں کچھ انتخاب کیے جاتے ہیں۔سیاسی فراست ٹھیک وقت پر درست نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ اگر ہماری سیاسی رائے بار بار غلط ثابت ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے بنیادی مفروضات، ترجیحات اور پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کے وجود کا سوال ہے۔ یقینا ایسا ہی ہو گا لیکن وجودی سوال کا بنیادی تقاضا تو یہ ہے کہ اس جنگ کو محض فوجی کارروائی اور انتظامی اقدامات سے زیادہ وسیع تناظر میں دیکھا جائے۔ یہ پاکستانی قوم کے تشخص کی بازیابی کا سوال ہے۔

دہشت گردی کوئی جنگلی درندہ نہیں جو ایک صبح اچانک ہمارے دروازے کے باہر دیکھا گیا ہے۔ اس عفریت کی پیدائش اور نشوونما اس لیے ہوئی کہ ہم اجتماعی طور پر قوم کی تعمیرمیں ناکام ہوئے ہیں۔ اس ناکامی میں سیاسی قوتیں، ریاستی ادارے اور اہل دانش برابر کے شریک ہیں۔ ہم اپنے شہریوں کو تحفظ اور انصاف کی ضمانت دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم اپنی اجتماعی زندگی میں امتیاز اور استحصال کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم نے غربت ختم کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہم نے ان اجتماعی مظاہر کی مخالفت نہیں کی جو قوم کی مجموعی پسماندگی پر منتج ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم میں سے کچھ افراد اور طبقات نے ترقی کی منزلیں حاصل کی ہیں لیکن معدودے چند کی یہ ترقی اور خوشحالی کسی مربوط بندوبست کا نتیجہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں ترقی کے لیے مراعات یافتہ طبقات سے گٹھ جوڑ کا زینہ استعمال ہوتا ہے۔ ایسا بندوبست ناانصافی کا نشان ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ ریاست تمام شہریوں کے یکساں تحفظ اور معیار زندگی میں پائیدار بہتری لانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ دو نکات لیجیے۔یہ ایک جھوٹ ہے کہ پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر امتیاز موجود نہیں۔ پاکستان میں اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہری عدم تحفظ اور محرومی کے احساس کا شکار ہیں۔

کچھ ماہ قبل اسلام آباد میں ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے گفتگو کرتے ہوئے بہت دکھ سے کہا کہ ہمیں اقلیت قرار دیا جا رہا ہے۔ شرکائے مجلس میں \"kids-650x418\"ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے حملوں کی مذمت پر اتفاق تھا۔ خاکسار نے مگر چونک کر خاتون کی طرف دیکھا اور کہا کہ اگر کسی ملک میں اقلیت سے تعلق رکھنا تعزیر کا درجہ ہے تو وہاں اکثریت کے حقوق بھی محفوظ نہیں ہو سکتے۔ قوم کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ ہر شہری اپنے مذہبی تشخص سے قطع نظر خود کو برابر کا شہری محسوس کرے اور اس احساس کی ضمانت قانون اور آئین میں دینا پڑتی ہے۔ اسی عدم مساوات کا دوسرا زاویہ یہ ہے کہ ہم نے عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دے رکھا ہے۔ ہمارا سیاسی بیانیہ اور تمدنی مکالمہ مردانہ بالادستی سے عبارت ہے۔ ان دنوں ہمیں انتہا پسندی کی مخالفت کا شوق ہو رہا ہے۔ صنفی مساوات کے لیے موثر آواز اٹھائے اور فعال اقدامات کیے بغیر انتہا پسندی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ انتہا پسندی محض مذہبی سوچ میں عدم برداشت کا نام نہیں۔ معاشرے میں غیر منصفانہ رویوں اور سوچ کو برداشت کرنے کا رجحان موجود ہو تو کچھ گروہوں کو یہ حوصلہ مل جاتا ہے کہ وہ تقدیس کی آڑ میں ہتھیار اٹھا لیں۔ بتایا گیا ہے کہ مذہبی مدارس کو ریاستی نگرانی میں لانے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ مذہبی مدارس کے بارے میں ہماری یہ کوشش پندرہ برس پر محیط ہے اور اب بھی اس میں کامیابی کا امکان معدوم ہے کیونکہ یہ محض انتظامی معاملہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 25 الف میں ریاست نے پانچ سے سولہ برس تک کی عمر کے بچوں کو تعلیم دینے کا جو وعدہ کیا ہے وہ تعلیم اصل میں ہے کیا؟ علم کے لئے خواندگی کی کونسی مہارتوں کو تعلیم قرار دیا جائے گا۔ معلومات کا دائرہ کیا ہو گا۔ ذہنی رویوں میں کن اقدار کو قابل قبول سمجھا جائے گا۔ تعلیم کا مقصد کیا ہو گا؟ عرض ہے کہ مذہبی مدرسہ ہو، سرکاری سکول یا اشرافیہ کا نجی سکول، اگر علم اور تعلیم کا تصور عصری پیمانوں سے انحراف پر مبنی ہے تو ہماری درس گاہوں میں انتہا پسند ذہن نمود پاتا رہے گا۔

\"seminary\"گزشتہ ہفتے ذمہ دار عہدوں پر فائز سرکاری حکام کی ایک مجلس سے استفادے کا موقع ملا۔ قومی بیانیے پر بحث ہو رہی تھی۔ دہشت گردی کو ایک انتظامی مسئلے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ ایک آواز بار بار سنائی دیتی رہی کہ مذہبی مدارس میں لاکھوں بچوں کو سر پر چھت اور دو وقت کی روٹی مہیا کی جاتی ہے۔ مذہبی مدارس کی بڑی تعداد کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو بڑی قومی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ یہ تو این جی او کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ این جی او کیا ہوتی ہے؟ یہ تو چوہدری نثار علی خان سے پوچھنا چاہئے۔ لیکن مذہبی مدارس کے دفاع کا یہ نکتہ پندرہ برس پہلے پرویز مشرف نے پیش کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ خوبیاں تو یتیم خانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ تاہم آپ انہیں تعلیمی ادارے قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں۔ یہ کیسی تعلیم ہے کہ یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ مہارت، ہنر، معلومات اور تحقیق کے شعبوں میں مسابقت نہیں کر سکتے۔ کھلے مقابلے کی معیشت میں ان کی تعلیم کی قدر و قیمت صفر ہے۔ یہ طالب علم پیداواری اور تحقیقی سرگرمیوں میں مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتے، البتہ فرقے اور عقیدے کے نام پر دیواریں کھڑی کرنے اور معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرنے کے عمل میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔

کچھ اہل دانش نے سوال اٹھایا ہے کہ ریاست اور معاشرہ دہشت گردی کے بیانیے کا نظریاتی متبادل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس رائے میں ایک بنیادی مغالطہ موجود ہے۔ دہشت گردوں نے کوئی خانہ ساز بیانیہ پیش نہیں کیا جس کا متبادل پیش کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ ہماری ریاست نے برسوں پہلے جمہوریت سے گریز کی غرض سے جو بیانیہ اختیار کیا تھا، دہشت گردی نے اسی کی آڑ میں پر پرزے نکالے ہیں۔ فکری اور عملی سطح پر دہشت گردی کا موثر مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس اجتماعی بیانیے پر سنجیدگی سے غور کریں جس کے تاروپود میں امتیاز، استحصال، جہالت اور پسماندگی کے زاویے موجود ہیں۔ محض فوجی عدالتیں قائم کرنے اور پھانسی گھاٹ آباد کرنے سے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ہماری قوم کو نامعلوم افراد نے اغوا نہیں کیا۔ ہماری قوم غلط ترجیحات کے ہاتھوں یرغمالی ہوئی ہے۔ اجتماعی سمت پر بنیادی نظر ثانی کئے بغیر قوم کی بازیابی ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments