سوشنانت سنگھ کی خود کشی بمقابلہ قاسم علی شاہ


حال ہی میں بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار سوشانت سنگھ جس کو ہم پاکستانی ایک مشہور فلم PK پی کے میں سرفراز کے نام سے جانتے تھے ممبئی میں اپنے ہی اپارٹمنٹ میں خود کشی کر لی۔ ویسے تو فلم میں سرفراز نے دھوکا نہیں دیا تھا لیکن حقیقی زندگی میں سرفراز سب کو دھوکا دے گئے۔ سوشنانت سنگھ کی اس خودکشی کو لے کر میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا میں خود کشی جیسے انتہائی اور غلط قدم کے بارے میں خوب بحث ومباحثہ ہوا۔ کسی نے سوشانت کی ذہنی حالت پر تبصرہ کیا کہ ڈپریشن کا شکار تھا اور نیورو ٹرانسمیٹرز (Neuro transmitters) کی خرابی کی وجہ سے ایسا ہوا۔ کسی نے ان کی نفسیاتی حالت کو مورد الزام ٹھہرایا اور کسی نے تو بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے بھیانک کردار سے پردہ اٹھایا۔ ان سب عناصر نے ضرور اپنا اپنا کردار ادا کیا ہو گا لیکن مسئلہ اس سے کافی بڑا اور گمبھیر ہے۔ وہ معاشرے میں مقابلے (Competition ) کی فضا کا ہے۔ جو نہ صرف بالی ووڈ جیسی مالدار اور چکاچوند والی انڈسٹری میں ہے بلکہ معاشرہ کے ہر حصے چاہے وہ گھر ہو، سکول ہو، دکان ہو، کارخانہ ہو یا حکومتی ایوان ہوں مقابلہ اور اس میں جیتنا اپنی آ ب و تاب کے ساتھ کھڑا ہے۔ جہاں مقابلہ میں جیتنا اتنا ہی ضروری ہے کی ہار جانے کا خوف بھی انسان کو اپنی جان لینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے حالیہ ڈیٹا کے مطابق ہر سال تقریباً آ ٹھ لاکھ لوگ خود کشی کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے ہر چالیس سیکنڈ میں کوئی نہ کوئی شخص اپنی جان کی بازی ہار جاتا ہے۔ اسی جیت کی جستجو میں ہم سب اپنی زندگی مگن ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی چیز کے مقابلے میں مصروف عمل ہیں۔

آدم سمتھ نے جب اپنی کتاب ”قوموں کی دولت“ میں مقابلہ اور لالچ کو کاروبار اور معاشرے کی ترقی کے اہم ترین ارکان کے طور بیان کیا اور پھر جس طرح ان کو سینہ سے لگا کر ماڈرن کیپیٹلزم نے اپنی کمر کسی اور فری مارکیٹ اکانومی کی راہ ہموار کی گئی۔ اس معیشت کو اپنانے سے مادی ترقی تو بہت ہوئی لیکن مقابلہ کی اس اصولی اجازت کی بنا پر جو سماجی روایات پیدا ہوئیں اس نے زندگی کے ہر شعبے میں مقابلے اور اپنے ہی ساتھی کو پچھاڑ کر آگے جانے والے کو عظیم سمجھا۔

سکول، کالج اور یونیورسٹی میں یہ مقابلہ امتحان کی صورت میں آ تا ہے۔ کاروبار میں یہ مقابلہ مارکیٹ کمپیٹیشن کے نام پر اور سیاست میں طاقت کے حصول کے لیے اور ہر کسی نے دوسرے کو ہرا کر ہی کامیاب ہونا ہوتا ہے۔ اس مقابلے نے جو سماجی نفسیات پیدا کی وہاں ذاتی مفاد، لالچ و حرص اور ہار نہ جانے کے خوف سے ہی کوئی کام کیا جاتا ہے نہ کہ انسانی معاشرے کی ترقی اور کام سے سچا عشق کی غرض سے۔ اس صورت حال کو پچھلی صدی کے عظیم ترین دماغ البرٹ آئن سٹائن کچھ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

”ہر جگہ معاشی اور سیاسی زندگی کی کامیابی کا انحصار اس ظالمانہ اصول پر ہے کہ اپنے ہی ساتھی کو پچھاڑا جائے۔ یہی مقابلہ کی فضا سکولوں میں بھی غالب آ جاتی ہے اور انسانی برادری اور تعاون کے تمام انسانی جذبات کو تباہ کر دیتی ہے۔ جہاں کامیابی نہ صرف پرفکر اور نیتجہ خیز کام کے جذبہ بلکہ ذاتی مفادات اور ہار نہ جانے کے خوف سے ہوتی ہے۔“

اس مقابلہ جاتی نفسیات کا مقابلہ ہی کرنے کے لئے پھر معاشرے کو قاسم علی شاہ جیسے موٹیوشنل سیپیکرز، سامن سنیک ( Simon Sineak) کی کتاب میں بیان ہوئے Infinite Mindset جیسے تصورات اور ٹونی روبن ( Tony Robins) کی لازوال طاقت ( Unlimited Power) کی تھیوری کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جو بیماری میں درد کو راحت پہنچانے کا کام تو کرتے ہیں لیکن بیماری کا علاج نہیں کرتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہاں ہیں وہ اعلیٰ مذہبی اخلاقی تعلیمات، وہ عظیم تعلیمی نظام، اور خود سمتھ کی سات جلدوں پر لکھی گئی اخلاقی قدروں پر کتابیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments