ڈل کنارے


جب ہم مختلف انسانی تہذیبوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی تقریباً سبھی اہم تہذیبیں بڑے بڑے آبی ذخائر کے کناروں پر پروان چڑھیں اور فروغ پائیں۔ یہ بات ان تمام تہذیبوں کے لئے کہی جا سکتی ہے جنہوں نے انسانیت پر بڑے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ یہ آبی ذخائر ان تہذیبوں کے لئے نہ صرف غذائی اجناس کی فراوانی کا سامان کرتے تھے بلکہ یہی ان کی آمد و رفت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے تھے۔ بیرون دنیا کے ساتھ روابط بھی ان ہی ذخائر کے ذریعے استوار ہوتے تھے۔ کبھی کبھی یہی ذخائر طغیانی لے کر آتے تھے اور ان تہذیبوں کو خستہ حالی میں مبتلا کرتے تھے۔

تہذیبوں کی یہ داستان کہیں پر دجلہ اور فرات (بابل اور سمیریا) نے رقم کی تو کہیں پر یہی کہانی دریائے سندھ (ہڑپہ اور موہنجوداڑو) نے تحریر کی۔ یہ تہذیبیں بالعموم شرک اور بت پرستی کی سرپرست رہی ہیں۔ لیکن ان ہی کی ایک تہذیب (بابل) میں اس شرک اور بت پرستی پر مبنی تہذیب کا توڑ پیدا کیا گیا۔ اس توڑ سے ہماری مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں جنہوں نے آدم علیہ السلام کو سکھائی گئی توحید کو دنیا کے مختلف گوشوں میں پھر سے متعارف کرایا۔ دریائے اردن اور دریائے نیل کے کنارے آنجناب نے اپنی سعئی جانگسل سے توحید کے بیج کی از سر نو تخم ریزی کی۔ آگے چل کر اسی آبی ذخیرے (دریائے اردن ’شام عظیم، گریٹر سیریا) کے کناروں پر ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں سے بنو اسرائیل نے اس سفر کو جاری رکھا۔

ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذریت کی دوسری شاخ اللہ تعالٰی کے حکم سے مکہ مکرمہ کی وادیٔ غیر ذی زرع میں بسائی تاکہ وہ توحید کی ترسیل کا ابدی ذریعہ بنے۔ اللہ تعالٰی نے اس شاخ، جو تاریخ میں بنو اسماعیل کے نام سے مشہور ہوئی، کی برکت (نشوونما) کا ذریعہ ایک چھوٹے سے ذخیرہ آب یعنی زمزم کو بنایا۔

وادیٔ زمزم سے اٹھی توحید کی آواز بارہویں سے لے کر چودھویں صدی میں وادیٔ جہلم یعنی کشمیر میں پہنچی۔ توحید کی یہ صدا اس قدر اثر آفریں تھی کہ اس نے شرک اور توہمات کی بساط ہی لپیٹ کے رکھ دی۔ فکر و خیال کی گندگی توحید کی تنویر سے دور ہوئی۔ روح کی غلاظت اس قدر محو ہوئی کہ یہاں کے اہل توحید روحانیت کے معلم بن گئے۔ درس و تدریس کا سلسلہ کچھ اس طرح چلا کہ بغداد و بصرہ کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ ثقافت اور معاشرت کچھ اس طرح پروان چڑھی کہ بخارا اور سمرقند کی بازگشت سنائی دینے لگی۔

لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اہل وادیٔ جہلم اپنی خود مختاری کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ یکے بعد دیگرے توسیع پسند طالع آزما وادی پر گدھوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ظالم استبدادی قوتیں اہل کشمیر کی موحدانہ شناخت کو محو کرنے میں ناکام رہیں۔ اسلام اور شعائر اسلام کے ساتھ اپنی ”سیدھی سادی“ وابستگی کے باوجود اہل کشمیر نے باطل کے عزائم کو خاک میں ملایا۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ پچھلی صدی کی ربع ثانی میں کشمیری مسلمانوں نے ایک اذان پر درجنوں جانیں قربان کر کے اپنی حمیت اسلامی کو ثابت کیا۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ”ڈل کے کنارے“ مدفون سیاسی طور پر نا عاقبت اندیش ”شیخ“ نے باطل کی ”تالیف قلب“ کی خاطر اہل کشمیر کی اسلامی شناخت کو داؤ پر لگا دیا۔ چودھری غلام عباس نے دو قومی نظریہ کے ”علمبردار“ کو کشمیر بلا کر ”ڈل کے کنارے“ عارضی طور پر بسا کر ”شیخ“ کو قوم کا سود و زیاں سمجھانے کی مہینوں تک کوشش کی۔

ڈل کا دوسرا کنارا (باغ نہرو، نہرو پارک) ہمیں مکہ مکرمہ میں پیدا ہونے والے محی الدین (مولانا آزاد) اور جواہر لال نہرو کے چانکیہ نیتی پر مبنی نصاب کو، جس میں موہن داس کرم چند گاندھی بھی شامل تھے، ”شیخ“ کے ذہن میں اتارتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ”ڈل کے کنارے“ کے اوپر زبرون پہاڑیوں سے مغل شہزادہ ’دارا شکوہ کی یادگار پری محل اس ”کشمکش“ (چودھری غلام عباس نے اپنی خود نوشت کو یہی نام دیا ہے! ) کا گواہ ہے۔

تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ ”شیخ“ نے حضرت بل کے منبر و محراب سے اس ”جفا“ کو ”وفا“ کا نام دے کر بیچا اور خوب بیچا! ”شیخ“ نے جفا کی سوداگری کچھ اس طرح کی کہ قوم آج تک ”وفا“ اور ”جفا“ میں امتیاز کرنے سے قاصر ہے!
اور حضرت بل کی درگاہ جس میں سید الانبیاء (ﷺ) کے موئے مبارک محفوظ ہیں، بھی ”ڈل کے کنارے“ واقع ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments