غیرت، پسماندگی اور احساس گناہ میں تعلق


پاکستان میں غیرت کے نام پر تشدد اور قتل کی معروف وجوہات کیا ہیں؟ ایک خاتون اپنی مرضی سے شریک حیات کا انتخاب کرنا چاہتی ہیں۔ اسے غیرت کے منافی قرار دیا جاتا ہے۔ ایک خاتون خاندان کی طرف سے زبردستی شادی کی مزاحمت کرتی ہیں تو اسے غیرت کے اصولوں سے انحراف کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ کسی خاتون کے اخلاقی کردار کے بارے میں افواہوں کو غیرت کے منافی تصور کیا جاتا ہے۔ کوئی خاتون اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے تو اسے غیرت پر حملہ قرار دیا جاتا ہے۔ کوئی عورت اپنی نقل و حرکت، سماجی میل جول، لباس کی ترجیحات اور پیشے کے انتخاب میں اپنی مرضی استعمال کرنا چاہے تو غیرت کے مجروح ہونے کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ کوئی عورت اپنے گھرانے کے مردوں کے جرائم کی تلافی میں اپنی خوشیاں قربان کرنے سے انکار کرے تو اسے بے غیرت کہا جاتا ہے۔ جنسی زیادتی کا شکار بننے والی خاتون کو خاندان کی غیرت پر دھبہ قرار دیا جاتا ہے۔ حیاتیاتی طور پر عضوی اختلاف کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے یعنی خواجہ سرا کو غیرت کا سوال سمجھا جاتا ہے۔

ان تصورات کی بنیاد عصبیت اور ملکیت کے تصورات پر ہے۔ مرد اور عورت اپنی صنف کا تعین شعوری طور پر نہیں کرتے۔ چنانچہ جنس کی بنیاد پر معیشت، سیاست اور سماج کے بند و بست میں عورتوں اور مردوں کے کردار میں کسی فرق کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ کئی ہزار برس پہلے ارسطو نے عورت کو نامکمل مرد قرار دیا تھا۔ اسلامی تاریخ میں ایسے فقہا گزرے ہیں جنہوں نے عورت کی حیاتیاتی خصوصیات کو نقائص قرار دیا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ عورت اور مرد میں امتیازی کروموسوم کے جوڑے میں وائی کروموسوم مرد کے تعین کا ذمہ دار ہے۔ کسی برتری یا کمتری کا حکم لگائے بغیر بھی یہ جانا جاسکتا ہے کہ ایکس کے چار زاویے ہیں اور وائی کا ایک زاویہ غائب ہے۔ صدیوں سے عورت کو اولاد پیدا کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ کسی جوڑے میں اولاد نہ ہونے کے اسباب ایک سے زائد ہوسکتے ہیں۔ اس کے لئے مرد اور عورت میں کوئی بھی ذمہ دار ہوسکتا ہے۔ نیز یہ کہ اولاد پیدا کرنے میں ناکامی بحیثیت انسان کے عورت کے احترام، رتبہ اور حقوق میں کسی امتیاز کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔ عورت کو مویشی نہیں، انسان سمجھنا چاہیے۔

نامعلوم زمانوں سے عورتوں کو بچے کی جنس کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا۔ لڑکی پیدا ہونے پر ماں کے خلاف تعصب اور تشدد کی روایت اب بھی موجود ہے۔ سائنس کا معمولی اصول ہے کہ جنسی اختلاط کے نتیجے میں بچے کا صنفی تعین مرد کے جرثومے سے ہوتا ہے۔ لڑکی یا لڑکے کی پیدائش پر عورت کو ذمہ دار ٹھہرانا حد درجہ جہالت اور پسماندگی کا نشان ہے۔ تمام انسان ایک جیسی صلاحیت اور عقل رکھتے ہیں۔ اس میں مرد اور عورت کی کوئی تمیز نہیں۔ ہر انسان کو اپنی تخلیقی، پیداواری اور تکمیلی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا پورا حق ہے۔عورت اور مرد کو سیاست، معاشرت، علم اور معیشت میں ایک جیسے ارادوں، عزائم اور خواہشات کا پورا حق ہے۔ عورت یا مرد کے طور پر پیدا ہونا محض پیدائش کا اتفاق ہے۔ اس اتفاق کی بنیاد پر دنیا کی نصف آبادی کی صلاحیتوں پر گرہ باندھنا صرف عورتوں کے ساتھ نہیں پوری انسانیت کے خلاف سخت جرم ہے۔

2015 میں ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ معاشی اور سماجی طور پر نسبتاً معمولی ذمہ داری کا کردار ادا کرنے والے مرد عورتوں کے بارے میں مخاصمت کے زیادہ شدید جذبات رکھتے ہیں۔ بینک کا مرد چوکیدار عام طور پرخاتون منیجر کے خلاف شدید جنسی تعصب کا حامل ہوتا ہے۔ ماتحت مرد عام طور پر اپنے سے سینئر درجہ پر فائز خاتون افسر سے شدید جنسی رقابت رکھتے ہیں۔ کمتر صلاحیت اور رتبہ کے حامل مرد عورتوں سے خائف ہوتے ہیں کہ وہ اچھی کارکردگی کی بنیاد پر بہتر مقام حاصل کر لیں گیں۔ مقابلے کا یہی خوف فرد سے معاشرے کی طرف سفر کرتا ہے۔ جس معاشرے میں مساوی حقوق اور آزادیوں سے بہرہ مند خواتین فعال ہوں گی، وہاں مقابلے کی نسبتاً سخت فضا قائم ہو گی۔ پیدائشی بالا دستی کا تصور ختم ہونے سے مفادات اور استحقاق کے نئے ڈھانچے معرض وجود میں آئیں گے۔ مردانہ بالا دستی کا علم بردار معاشرہ مفاد اور استحقاق کے ان قدیم نمونوں کو قائم رکھنا چاہتا ہے جن کی بنیاد امتیاز اور ناانصافی پر ہے۔

عورت اور مرد میں جنسی تعلق کا امکان ایک حیاتیاتی حقیقت ہے۔ جنسی جبلت بذات خود ناگزیر اور جائز مظہر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس جبلت کو محبت کی روشنی میں تسلیم کرنا ہے یا تاریکی کی سازش اور اخفا کے پردے میں رکھنا ہے۔ تاریکی میں جرائم جنم لیتے ہیں۔ جنسی تعلق کو کسی تیسرے فریق کی اجازت سے مشروط کرنا فرد کی جائز انفرادی آزدیوں میں مداخلت ہے۔ اس سے انسانی جسم کی حقیقتوں کے بارے میں شرم، انکار اور چھپاؤ کے زاویے جنم لیتے ہیں۔ ہر انسان قانون کی نظر میں ایک مکمل اکائی کا درجہ رکھتا ہے۔ غلامی کو ناجائز قرار دیا جا چکا ہے۔ والدین، بہن بھائی اور دوسرے رشتے انسانوں میں انسیت، مؤدت، رواداری اور محبت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ اہل خانہ سے محبت، ان کے دکھ میں شریک ہونا اور ان کی خوشیوں کا حصہ بننا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔لیکن اس حق کی آڑ میں کسی انسان کو دوسرے انسان کی ملکیت قرار نہیں دیا جاسکتا۔

عورت ایک مکمل انسان ہے۔ وہ اپنے باپ، بھائی، بیٹے اور شوہر کی ملکیت نہیں ہے۔ کسی عورت کے لئے اپنی قانونی اور آئینی آزادیوں کا انتخاب اس کے گھرانے کے کسی فرد کے حقوق سے مشروط نہیں ہے۔ عورت اور مرد میں سے عورت کو محض ماں یا جنسی طور پر قابل استعمال شئے کے طور پر دیکھنا عورتوں کے انسانی مقام سے انکار ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی گاڑیوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ جنت ماں کے قدموں میں ہے، بیوی کی گود میں نہیں۔ یہ جملہ عورت کی آغوش کے لئے شدید خواہش اور اس خواہش میں ناکامی کے جان لیوا خوف کا انفعالی اعلان ہے۔ ہمارے ہاں جسے غیرت قرار دیا جاتا ہے وہ ذہنی پسماندگی ہے، بے جا احساس گناہ کا شاخسانہ ہے اور دوسروں کو اپنی ملکیت سمجھنے کا ناقابل قبول رویہ ہے۔ خود کو جنسی جذبے سے ماورا قرار دینے کا نمایشی جذبہ جنس کے بارے میں غیر صحت مند ہیجان کا آئینہ دار ہے۔ علم اور جنس کے بارے مین شفافیت انسانی ذہن کے جمہوری ارتقا سے گہرا تعلق رکھتی ہے، دوسری طرف اختیار پر اجارے اور جنس سے انکار کے رویے تحکمانہ اجتماعی رویوں اور معاشی استحصال (دولت کے غیر پیداواری تصور) سے پھوٹتے ہیں۔ جنس سے انکار دراصل منافقانہ نمائشی پہروپ ہے جس سے نقصان دہ احساس گناہ جنم لیتا ہے، معاشرے میں عدم ہمواری، تشدد اور پسماندگی پیدا ہوتی ہے۔ فارسی کے شاعر مرزا قتیل نے کیا خوب کہا ہے

زاہد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں

کنجِ گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments