پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ


\"zafarullah-khan\"

خبر یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے پاک ترک سکولوں اور کالجوں کے ترک سٹاف کو ملک سے فوری طور پر نکلنے کا حکم دیا ہے۔ پاک ترک سکولوں کا آغاز 1995سے پاکستان میں ہوا تھا۔ ترک سکولوں یہ سلسلہ ترکی کے فتح االلہ گولن کی حزمت تحریک دنیا کے کم و بیش 34 ممالک میں چلا رہی ہے۔ پاکستان میں یہ تعلیمی ادارے ’ پاک ترک انٹرنیشنل سکولز‘ کے نام سے چل رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں ان اداروں کی تعداد 28 ہے جن میں 108 ترکی اساتذہ تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ ان کے خاندانوں کے کل افراد کی تعداد 400 سے زیادہ بنتی ہے۔ انہی 108اساتذہ کواپنے خاندانوں کے ساتھ ملک فوری طور چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ترکی میں حالیہ فوجی بغاوت کے بعد ترک حکمران جماعت کی جانب سے اس کا الزام فتح االلہ گولن پر لگایا گیا اور ترکی میں ان کی تنظیم پر پابندی عائد کر دی گئی۔ فتح االلہ گولن سے متعلق ہزاروں لوگوں کو حکومتی عہدوں سے برطرف کیا گیا۔ اس تناظر میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے ترک صدر کی پاکستان آمد پر برادر م طیب اردگان کو مطمئن یا خوش کرنے کے لئے یہ حکم جاری کیا۔

فتح االلہ گولن کی تحریک کیا ہے؟ کیا وہ اس فوجی بغاوت میں شامل تھے یا نہیں یہ الگ موضوع ہے جس پر ترک فوجی بغاوت بعد کافی طویل مباحث ہوئے۔ اس وقت موضوع یہ ہے کہ کیا اساتذہ کو بے دخل کرنے کا حکم درست ہے یا غلط؟ دوجملوں میں کہا جائے تو پاکستانی حکومت یہ فیصلہ نہایت افسوسناک اور قابل مذمت ہے مگراس معاملے کا کینوس تھوڑا وسیع ہے۔ ہم پاکستانی دنیا کی واحد قوم ہیں جنہوں نے ایک یوٹوپیائی امت مسلمہ کا خواب دیکھا ہے۔ اس خواب کی تعبیر لئے دنیا کی ہر آگ اپنے آنگن میں سلگانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ برصغیر سے بات شروع ہو گی تو ہم محمدبن قاسم سے مقدمہ لڑنا شروع کریں گے۔ اس کے بعد خلجیوں، تغلقوں، لودھیوں، اور پھر خلجیوں سے ہوتے ہوئے مغل سلطنت تک پہنچیں گے۔ اس بیچ نیشاپور کے سلجوق ہوں، مصر کے کرد صلاح الدین ہوں، حیدر آباد کے نظام الملک ہوں، غزنی کے غوری ہوں، ہرات کے ابدالی ہوں، میسور کے ٹیپو ہوں، عثمانی خلافت کی حمایت ہو، فلسطین کے یاسر عرفات ہوں، عراق کے صدام حسین ہوں، لیبیا کے معمر قذافی ہوں، القاعدہ کے اسامہ بن لادن ہوں یا افغانستان کے ملا عمر ہوں۔ ہم نے اس یوٹوپیائی امت کے عظیم تر مفاد میں ہر ایک کی اخلاقی حمایت کی ہے اور جہاں جہاں ممکن ہوا مالی اور جانی مدد پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اس عظیم تر مفاد کی خاطر ملک کی گلیاروں میں خون کی ندیاں تک بہہ گئیں مگر ہم اس عظیم مقصد کی خاطر ہر ایک کو اپنا کاندھا بہم پہنچاتے رہے۔

\"pak-turk-school-2\"

ہم نے کھل کر فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے فلسطین کی حمایت کی، یہاں تک ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جبکہ اسرائیلی ریاست نے جن عرب ممالک کی سرزمین پر قبضہ جمایا ان سب نے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات بھی رکھے۔ اس کے برعکس تنظیم آزادی فلسطین ہو، یاسر عرفات ہوں یا محمود عباس، کسی نے کشمیر پر پاکستانی موقف کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ ہمیشہ پاک بھارت کو مبہم انداز میں باہمی امور سے مسئلہ حل کرنے کی تجاویز دیں۔ اس کے بے شمار نظائر موجود ہیں۔ مثال کے لئے فلسطینی صدر محمودعباس کی نومبر 2104کی ایک پریس بریفنگ کا بیان سامنے رکھتے ہیں۔ اس پریس بریفنگ میں ان سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ وہ کیوں کشمیر کے موضوع پر پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت نہیں کرتے جبکہ پاکستان اپنے قیام سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے موقف پر مضبوطی سے جما ہے؟ جناب محمود عباس نے فرمایا کہ فلسطین، پاکستان اور بھارت دونوں سے دوستانہ مراسم رکھتا ہے اور فلسطین چاہتا ہے کہ دونوں ممالک باہمی مذاکرات سے کشمیر کے مساہل کا حل نکالے۔ ہم مگر جانے کیوں خود ساختہ مسیحا کے منصب پر خود کو براجمان سمجھتے ہیں۔

فتح االلہ گولن کی تحریک ترکی میں فوجی بغاوت کے پیچھے تھی یا نہیں تھی یہ ترکی کا اندرونی معاملہ ہے۔ پاکستان میں موجود پاک ترک سکول نہ کسی شدت پسندی میں ملوث ہیں اور نہ ہی وہ کسی غیر قانونی طریقے سے چل رہے ہیں۔ یہاں موجود ترک اساتذہ کوئی غیر قانونی تارکین وطن نہیں بلکہ وہ اور ان کے خاندان پاکستانی قوانین کے مطابق باقاعدہ طور پر ویزے لے کر اس ملک میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ہمیں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ میں موجود غیر قانونی تارکین وطن کے نکالے جانے والے بیان پر تو افسوس ہے مگر ہم قانونی طریقے سے آئے ہوئے ترک اساتذہ سے غیر قانونی تارکین وطن سے بدتر سلوک کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت کا یہ اقدام قابل افسوس ہے اور یہ جبر ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک قانونی طریقے سے مقیم غیر ملکیوں کو تین دن کے نوٹس پر ملک چھوڑنے کا حکم نہیں دیتا۔ ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات ایک باقاعدہ خارجہ پالیسی کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں۔ کسی دوسرے ملک کے سربراہ کو خوش کرنے کے لئے غیر سفارتی رویہ اپنانے کی اس سے بدتر نظیر نہیں مل سکتی۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ہم اپنے ترک مہمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم پاکستانی حکومت کے اس فیصلے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کو اس نقطے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جس طیب اردگان سے اظہار یکجہتی کے لئے انہوں نے یہ غیر اخلاقی فیصلہ کیا ہے وہ طیب اردگان اپنے ملک میں تو ایک سیاسی مخالف کو برادشت کرنے کا روادر نہیں ہے جبکہ وہ ہماری پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر ہمیں جمہوریت کا درس دے رہے ہیں۔

کہنا تو نہیں چاہیے مگر موقع آن پہنچا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ پرائی شادی میں عبدااللہ دیوانہ کا کردار صرف پاکستان ہی ادا کرتا رہا ہے اور اپنے شہریوں کے جان و مال کی قیمت پر ادا کرتا رہا ہے۔ پاکستان شدت پسندی کا شکار ہے۔ عالمی سطح پر عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ دہشت گردی کے عفریت میں ستر ہزار جانیں گنوائی جا چکی ہیں۔ وقت آن پہنچا ہے کہ پاکستانی ارباب اقتدار سنجیدگی سے اپنے مسائل کو حل کرنے پر سر جور کر بیٹھ جائیں اور کسی یوٹوپیائی امت مسلمہ کے سحر سے باہر نکل آئیں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments