نقالوں سے ہوشیار، جعلسازوں سے خبردار


بچپن میں بس میں سفر کرتے ہوئے کھڑکی سے باہر نظر پڑتی تو جا بجا دیواروں پر تواتر سے چند جملے لکھے نظر آتے: نقالوں سے ہوشیار، جعل سازوں سے خبردار۔

سکول میں پڑھائی کے دوران مختلف مطبوعات کی جانب سے ٹیسٹ پیپرز اور گیس پیپرز تیار کیے جاتے جنھیں اکثر طالب علم نقل کرنے کے لیے استعمال کرتے۔ ان ٹیسٹ پیپرز کے پہلے اور آخری صفحے پر بڑے حروف میں خبردار کیا جاتا کہ ٹیسٹ پیپر بس ایک ہی کمپنی کا۔ نقالوں سے ہوشیار، جعل سازوں سے خبردار۔

نقلی حکیموں کی دکان پر جلی حروف میں جعلی طبیبوں سے ہوشیار رہنے کا انتباہ کیا جاتا۔ سڑک کنارے بیٹھے دندان ساز سب سے زیادہ اہتمام سے تحریر کرواتے کہ جعلی دندان سازوں سے ہوشیار۔

مردانہ کمزوری کے خاتمے کے لیے دیواروں پر بڑے بڑے حروف میں لکھوایا جاتا ہے کہ ادھر اُدھر نہ جائیے سیدھے ہمارے پاس آئیے، آپ کے تمام پوشیدہ امراض کا علاج صرف ہمارے پاس ہے اور مزید یہ کہ نقالوں اور جعل سازوں سے ہوشیار۔

’محبوب تیرے قدموں میں صرف 10 دن کے اندر‘ کا دعویٰ کرنے والے ’کالے علم کے ماہر‘ سنیاسی باوا بھی تحریر کرتے کہ ’کالے جادو کا ماہر ہے تو صرف ایک۔ نقالوں سے ہوشیار!‘ غرض یہ کہ سب نقلی اور جعلی اپنے مستند ہونے کا اعلان سرعام کرتے۔

اتائی طبیب، حکیم، دندان ساز، پوشیدہ امراض کے ماہر، جادوگر سنیاسی بابے اپنے پوشیدہ امراض چھپا کر مارکیٹنگ کے اس انداز کے ذریعے شہرت کماتے رہے۔ نہ کسی نے گرفت کی اور نہ ہی کوئی سوال ہوا۔ یوں ایک بڑی چھتری کے نیچے چھوٹے چھوٹے جعلی کرداروں نے اکٹھے ہو کر ایک جعلی معاشرہ ترتیب دیا۔

المیہ یہ ہے کہ معاملہ فقط ٹیسٹ پیپرز، دندان ساز، کالے جادو کے بابوؤں اور پوشیدہ امراض کے ماہروں تک محدود نہیں رہا بلکہ اتنا وسیع ہوا کہ ڈاکٹروں اور انجنئیروں کی ’جعلی‘ ڈگریوں اور جہاز اڑانے والے پائلٹوں کے ’جعلی‘ لائسنسز اور ہر شعبہ زندگی تک پھیل گیا۔

ملک کے ہر شعبہ ہائے زندگی کے جعلی افراد کی تیاری میں خاصا وقت لگا۔ تعلیم سے لے کر کھیل اور صحافت سے لے کر سیاست تک ایک پوری نسل تیار کر دی گئی جن کی اسناد ’مستند‘ ادارے عطا کرتے رہے اور اُن پر بڑا بڑا تحریر کردیا جاتا کہ خبردار۔ نقالوں اور جعل سازوں سے ہوشیار۔

مذہب کے بیوپاریوں نے الگ بازار لگایا۔ ہر فرقے نے الگ ’تھڑا‘ سجایا۔ مفادات کی آڑ میں جعلی فتووں اور ایمان ناپنے کے نقلی پیمانوں نے مذہب کی اصل کو نقصان پہنچایا اور جعلی پیروں، آستانوں نے ایمان کو اپنی الگ تجربہ گاہ بنایا۔

اس سب میں سیاست کہاں اس سے محفوظ رہتی؟ ہر شعبہ اپنے پوشیدہ امراض چھپا کر سند لیتا اور دیتا رہا۔ مقتدر اپنی طاقت کے بل بوتے کمزور حضرات کی کمزوریوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتے رہے۔

اہل سیاست کے ’تمام پوشیدہ امراض کے ماہرین‘ نے اُن کے امراض کو پوشیدہ رکھا اور سند عطا کی کہ ان سے زیادہ امانت دار اور سچے کوئی نہیں۔ ’کالے علم کے ماہر‘ جادوگروں نے وہ تمام گُر استعمال کئے جن سے محبوب قدموں میں بھی گرے اور دوبارہ زندہ بھی نہ ہو۔

قیادتوں کا بحران بھی نقالوں سے ہوشیار کی سند کے ساتھ حل کیا گیا۔ کبھی معین قریشی کی صورت میں باہر سے درآمد کردہ وزیراعظم جن کا شناختی کارڈ پاکستان میں آنے کے بعد وجود میں آیا۔ اس کے بعد وہ کہاں گئے، پاکستان کی عوام کو آج تک پتہ نہیں چلا۔

اور پھر جناب شوکت عزیز صاحب۔ کہاں سے آئے، کس طرح انھیں اٹک اور تھر پارکر سے جتوایا گیا، کیسے پہلے وزیر خزانہ اور پھر وزیرِ اعظم کے عہدے تک پہنچایا گیا اور اب وہ کہاں ہیں، کچھ معلوم نہیں۔

جعلی انتخابات کے ذریعے سامنے آنے والی جعلی قیادتوں پر ’اصلی اور وکھری قیادت‘ کا ٹھپہ لگ بھی جائے تو بھی نقل اور جعل سازی پکڑی جاتی ہے۔ ماضی میں اتائیوں کے ہاتھوں لٹے عوام ہوں یا سیاسی رہنما، اب کسی جادوئی دوائی کے زیر اثر نہیں۔ حالات اور واقعات جس طرف جا رہے ہیں وہاں سالوں سے لگے اس جعل سازی کے ٹیکے کو مسترد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

موجودہ حالات میں تیار کردہ قیادتوں اور اُن پر لگائی جانے والی سند کی مہر ایک بار پھر کہہ رہی ہے کہ نقالوں سے ہوشیار، جعل سازوں سے خبردار۔ اب آپ خود سوچ لیجیے کہ سنیاسی باوا کی دوائی میں کتنا اثر ہے اور جعلی سندیں بانٹنے والے کب تک قوم کو نقالوں سے ہوشیار کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).