مسلمانوں کےخلاف نازی ایجنڈے کی تیاری


\"trump-and-hitler\"امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ملک میں مقیم مسلمانوں کےلئے رجسٹریشن کے ایسے خصوصی پروگرام پر غور کر رہے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی میں یہودیوں کی خصوصی فہرستیں تیار کرنے کے مماثل ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے مسلمانوں کو شدید نکتہ چینی کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ گزشتہ برس سان برنارڈینو میں جب ایک پاکستانی نژاد جوڑے نے معذور افراد کی ایک تقریب پر فائرنگ کرکے 14 افراد کو ہلاک کیا تھا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پر شدید رعمل ظاہر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت مسلمانوں سے اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ وہ اگر صدر منتخب ہوگئے تو وہ مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر عارضی پابندی لگا دیں گے تاکہ ملک کے قوانین پر نظر ثانی کی جا سکے اور بچاؤ کی مناسب ترکیبیں اختیار کی جا سکیں۔ انہوں نے کبھی اس بات کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ دنیا میں جاری دہشت گردوں کا ذمہ دار سب مسلمانوں اور اسلام کو سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کے امریکہ میں داخلہ پر پابندی لگانے کے فیصلہ پر شدید تنقید کے بعد ٹرمپ نے یہ کہنا شروع کیا کہ وہ ان ملکوں کے شہریوں کا امریکہ میں داخلہ بند کر دیں گے جہاں دہشت گردی پھیلی ہوئی ہے۔ اس وعدہ پرعمل کرتے ہوئے نومنتخب صدر پاکستان اور سعودی عرب سمیت متعدد مسلمان ملکوں کے باشندوں کےلئے امریکہ میں داخلہ مشکل یا ناممکن بنا سکتے ہیں۔

\"trump-hitler\"تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی مشاورتی ٹیم کے حوالے سے جو خبریں سامنے آ رہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ امیگریشن کے معاملات پر ان کے مشیر انتخابی وعدوں کے مطابق   مسلمانوں کی زندگی مشکل بنانے کےلئے مختلف تجاویز پر غور کر رہے ہیں۔ ان تجاویز کے تحت صرف سیاحتی و اسٹوڈنٹ ویزا پر امریکہ آنے والے صرف عارضی قیام کے خواہشمند شہری ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ نئے صدر امریکہ میں کئی دہائیوں سے آباد مسلمانوں کےلئے بھی مشکلات پیدا کرنے کی نت نئی تجاویز پر غور کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کی مشاورتی ٹیم سے رابطہ میں رہنے والے ایک ماہر کرس کوباک نے میڈیا کو بتایا ہے کہ اس وقت ٹرمپ کے مشیر ملک میں مسلمانوں کی رجسٹریشن کے سوال پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ کوباک نے سابق صدر جارج بش کے دور میں اس قسم کے ایک منصوبے کو عملی جامہ پہنایا تھا۔ اس کے منصوبے کے تحت 9/11 کے بعد نیشنل سکیورٹی انٹری و ایگزٹ رجسٹریشن سسٹم NSEER متعارف کروایا گیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت ملک میں داخل ہونے والے اور ملک چھوڑ کر جانے والے مسلمان مسافروں سے پوچھ گچھ کی جاتی تھی اور یہ جاننے کی کوشش کی جاتی تھی کہ سفر کے دوران وہ کس ملک میں گئے تھے اور وہاں وہ کن لوگوں سے رابطے میں رہے تھے۔ اس پروگرام کے تحت مسلمان تارکین وطن یا مسافروں کو امریکہ میں قیام کے دوران مقامی حکام کو مطلع رکھنے کا پابند بھی کیا جا سکتا تھا۔ انسانی حقوق کےلئے کام کرنے والی تنظیموں کے دباؤ کی وجہ سے 2011 میں اس پروگروام کو ترک کر دیا گیا تھا۔

\"trumphitler-thumb\"ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کے خلاف دیئے جانے والے اشتعال انگیز بیانات پر سخت تنقید کے باوجود کبھی انہیں واپس لینے کا اعلان نہیں کیا۔ 9 نومبر کو انتخاب جیتنے کے اعلان کے وقت اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ مسلمانوں کے امریکہ میں داخلہ پر پابندی کے بارے میں ٹرمپ کا بیان ان کی ویب سائٹ سے ہٹا لیا گیا تھا۔ یہ خبر پڑھ کر بہت سے لوگوں نے یہ اندازہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی کہ انتخابی مہم میں گالم گلوچ اور غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے کے بعد صدر منتخب ہو کر ٹرمپ اپنا رویہ تبدیل کر رہے ہیں۔ لیکن ایک روز بعد ہی یہ متنازعہ بیان دوبارہ ویب سائٹ پر لگا دیا گیا۔ ٹرمپ ٹیم کے لوگوں نے صحافیوں کو بتایا کہ کسی تکنیکی غلطی کی وجہ سے مذکورہ بیان ویب سائٹ سے غائب ہو گیا تھا تاہم اس کی درستی کے بعد بیان دوبارہ سائٹ پر واپس آ گیا۔ اس طرح ٹرمپ نے بالواسطہ طور سے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ مسلمانوں اور تارکین وطن کے بارے میں اپنے متنازعہ بیانات پر قائم ہیں اور ان پر عملدرآمد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 11 نومبر کو واشنگٹن میں صدر باراک اوباما سے ملنے کے بعد ٹرمپ سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے نمائندوں سے ملنے کیپیٹل ہل گئے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے اس بیان کے حوالے سے سوال کو نظر انداز کیا تھا اور اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔

مبصرین مسلسل یہ توقع کرتے رہے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران اشتعال پھیلانے والے انتہا پسند ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس منتخب صدر کے طور پر ٹرمپ زیادہ ذمہ داری اور متوازن رویہ کا مظاہرہ کریں گے۔ البتہ چند روز قبل سی بی ایس CBS کے 60 منٹ پروگروام میں پہلا تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے تارکین وطن کے خلاف \"trump_hitler\"اپنے واضح ارادوں کا اظہار کیا تھا۔ اس انٹرویو میں ٹرمپ نے اس بات کو دہرایا کہ امریکہ اور میکسیکو کے درمیان دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد پر دیوار تعمیر کی جائے گی تاہم انتخابی نعرے کے مقابلے میں صرف یہ تبدیلی کی گئی تھی کہ پہاڑی اور دشوار گزار علاقوں میں باڑھ بھی لگائی جا سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کے علاوہ امریکہ کی لاطینی آبادی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور انہیں جرائم پیشہ افراد پر مشتمل آبادی قرار دیتے تھے۔ امریکہ میں لاطینی باشندوں کی آبادی 50 ملین سے زائد ہے جن میں نصف سے زیادہ امریکی شہری ہیں۔ تاہم غیر قانونی طور سے ملک میں آنے والے اور کاغذات کے بغیر امریکہ میں آباد میکسیکو کے باشندوں کی تعداد بھی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اسی انٹرویو میں ٹرمپ نے 30 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو ملک سے نکالنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ نومنتخب صدر کا کہنا ہے کہ وہ ابتدائی طور پر کاغذات کے بغیر رہنے والے ان لوگوں کو ملک بدر کریں گے جو جرائم میں ملوث ہیں۔ ٹرمپ ان کی تعداد 20 سے 30 لاکھ کے درمیان بتاتے ہیں۔ کاغذات کے بغیر امریکہ میں مقیم لوگوں کی زیادہ تعداد کا تعلق میکسیکو سے ہے۔ لیکن تارکین وطن کے اعداد و شمار اور صورتحال پر نظر رکھنے والے متعدد ادارے اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ امریکہ میں غیر قانونی طور سے مقیم تارکین وطن میں جرائم پیشہ عناصر کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے۔ تاہم ٹرمپ انتخابی وعدے کے مطابق ان لوگوں کو مجرم قراردے کر ملک سے نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ صدر بننے کے بعد صدارتی حکم کے ذریعے یہ کام شروع کیا جا سکتا ہے۔

اس حوالے سے ٹرمپ کے مشیر اس تجویز پر بھی غور کر رہے ہیں کہ صدر باراک اوباما نے 2012 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے جن 7 لاکھ غیر قانونی \"_85950985\"امیگرنٹس کو ملک میں رہنے اور جلد از جلد قانونی حیثیت اختیار کرنے کا موقع دیا تھا، اب اس حکم نامہ کو منسوخ کرتے ہوئے ان لوگوں سے اوباما کی دی ہوئی رعایت واپس لے لی جائے۔ ان سات لاکھ لوگوں میں وہ تارکین وطن شامل ہیں جو کم عمری میں کسی طریقے سے امریکہ آ گئے تھے اور اب برس ہا برس سے اسی ملک میں مقیم ہیں۔ لیکن وہ بدستور قانونی حیثیت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ 30 لاکھ غیر قانونی جرائم پیشہ افراد کے ساتھ اگر اس تعداد کو بھی شامل کر لیا جائے تو 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد ڈونلڈ ٹرمپ 40 لاکھ کے لگ بھگ تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا حکم جاری کر سکتے ہیں۔ اس حکم پر عملدرآمد کی صورت میں جو حالات پیدا ہوں گے اور معاشرے میں جو اکھاڑ پچھاڑ ہو گی، ٹرمپ اور ان کے انتہا پسند ساتھی اس بارے میں غور کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔

ان تمام اقدامات میں مسلمانوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے سامنے آنے والی خبریں سب سے زیادہ تشویشناک ہیں۔ امریکہ میں دس سے پندرہ ملین کے قریب مسلمان رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر امریکی شہری ہیں۔ یہ عام طور سے تعلیم یافتہ ہیں اور اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کی جیت کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی امریکی مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ ریڈیکل اسلام کا سہارا لیتے ہوئے سب مسلمانوں کو انتہا پسند قرار دینے پر اصرار کرتے رہے ہیں۔ ہیلری کلنٹن کے ساتھ ایک ٹیلی ویژن مباحثہ کے دوران ٹرمپ نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اگر مسلمان امریکہ سے اپنی وفاداری ثابت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی صفوں میں موجود انتہا پسند عناصر کے بارے میں پولیس کو مطلع کرنا چاہئے۔ اس طرح ٹرمپ تمام مسلمانوں کو مشکوک قرار دیتے ہیں اور ملک میں ہونے والے کسی\"images\" بھی دہشت گردی کے واقعہ کا ذمہ دار بھی انہیں ہی سمجھتے ہیں۔ ان بیانات اور خیالات کی روشنی میں یہ خبریں نہایت تشویشناک ہیں کہ مسلمانوں کی خصوصی رجسٹریشن کےلئے قانونی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس طرح کا اقدام معاشرے میں شدید افتراق اور انتشار پیدا کرنے کے علاوہ امریکی آئین کی بھی خلاف ورزی ہو گا۔ لیکن اس کا فیصلہ ملک کی عدالتوں میں شکایات لے جانے کے بعد طویل عدالتی کارروائی کے بعد ہو سکے گا۔ بااختیار صدر کے طور پر ٹرمپ ملک کے کسی بھی اقلیتی گروہ کی زندگی اجیرن کرنے کا خوفناک اقدام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں سے نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار اس وقت بھی ہوا تھا جب ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں شریک ایک گولڈ اسٹار امریکی فوج کے والد نے ٹرمپ کے خلاف تقریر کی تھی۔ خضر خان نے اس تقریر میں ٹرمپ کو متعصب قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکی آئین تک سے واقف نہیں ہیں۔ اپنی جیب سے آئین کی جیبی کتاب نکالتے ہوئے انہوں نے ٹرمپ کو دعوت دی تھی کہ وہ ان کی آئین کی کتاب لے سکتے ہیں تاکہ اسے پڑھ کر وہ جان سکیں کہ ان کا رویہ کس حد تک غلط ہے۔ خضر خان اور ان کی اہلیہ کا بیٹا کیپٹن ہمایوں خان عراق میں اپنے ساتھی فوجیوں کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ اس کا جواب ڈونلڈ ٹرمپ نے غزالہ خان پر تنقید کرتے ہوئے دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ مسلمان ہیں، اس لئے انہیں اپنے شوہر کے سامنے بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ ٹرمپ کے اس ہتک آمیز تبصرے پر امریکہ میں شدید احتجاج ہوا تھا اور یہ بات بھی واضح ہو گئی تھی کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کتنے بے خبر اور متعصب ہیں۔

اب وہی بے خبر اور متعصب شخص امریکہ کا صدر بن کر مسلمانوں کو انتقامی اور امتیازی اقدامات کا نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments