اسلام آباد میں مندر کی تعمیر اور مسجد کا انہدام


وطن عزیز پاکستان ویسے تو ہمیشہ سے تجربات کی آماجگاہ رہا ہے۔ زیادہ تر تجربات اس کے نظریات پر ہوتے رہے ہیں۔ اس بار مگر پورا ملک ہی ایک ایسے شخص کے حوالے کیا گیا ہے جسے زندگی میں ایک یونین کونسل تک کے انتظامی معاملات چلانے کا تجربہ نہیں۔ لیکن مزاج یار کے کیا کہنے کہ پوری مملکت ہی اس کے حوالے کردی گئی۔ اور اب ہر ہر شعبے پر تجربے ہو رہے ہیں۔ خصوصاً مذہبی معاملات کو زیادہ چھیڑا جا رہا ہے۔

نیازی سرکار حکومت میں آنے سے قبل جہاں معاشی انقلاب کی باتیں کیا کرتے تھے، لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کے دعوے کیا کرتے تھے۔ قرضے نا لینے کا اعلان کر رکھا تھا۔ کرپشن ختم کرنے کے خواب دکھایا کرتے تھے۔ سادگی سے زندگی گزارنے والوں کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں، پچاس لاکھ گھر سمیت درجنوں وعدے کر رکھے تھے لیکن بقول الطاف حسین حالی

وہ امید کیا جس کی ہو انتہا
وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا

یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ حالی سے کس نے وعدہ خلافی کی تھی، جس بنیاد پر انہیں اپنے دکھ کا اظہار اس طرح کرنا پڑا۔ پاکستانی قوم تاحال شش و پنج میں ہے کہ وعدہ خلافی کا الزام نیازی سرکار کو دیں یا نیازی کو سرکار میں لانے والوں کو ؟

ایک بڑا دعوی نیازی صاحب کا یہ تھا کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلائیں گے۔ وہ آج بھی یہ دعوی کرتے ہیں، ریاست مدینہ کو آئیڈیل مانتے اور سمجھتے ہیں لیکن تحریک انصاف کے انتخابات سے قبل کے سو نکاتی ایجنڈے کو سامنے رکھیں اور ان کی دوسالہ کارکردگی سے اس کا موازنہ کریں تو قریباً ہر ہر شق کی مخالفت بلکہ تضاد نظر آئے گا۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اس شخص کو سرے سے کسی چیز کا کوئی ادراک ہی نہیں تھا تبھی معاملات میں اس قدر تیزی سے اور بری طرح سے ایکسپوز ہو گیا۔

ریاست مدینہ کے حوالے سے جس قدر بڑا دعوی کیا گیا تھا اول روز سے اس کے علی الرغم پالیسیاں بنتی گئیں، اقتصادی کونسل بنائی، مشہور قادیانی میاں عاطف اس کونسل کا ممبر نامزد ہوا لیکن جب عوامی اور مذہبی حلقوں کا دباؤ آیا تو میاں عاطف کی نامزدگی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا لیکن عملاً وہ کونسل ہی سرے سے ختم کردی گئی، جس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی کہ اسلام دشمن قوتوں کو ہی بنیادی معاملات تک رسائی پیش نظر تھی وگرنہ غیر متنازعہ اور محب وطن اقتصادی ماہرین تو اس تعداد میں اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے موجود ہیں جن کی بنیاد پر کونسل کو برقرار رکھا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

ننکانہ صاحب کی آسیہ مسیح نامی خاتون کے توہین رسالت کا قضیہ زباں زد عام ہے کہ کس طرح دو نچلی عدالتوں نے اس کو جرم ثابت ہونے پر سزا دی لیکن پھر سپریم کورٹ نے نا صرف اسے بری کیا بلکہ باعزت طریقے سے ملک سے بھیجنے کے انتظامات ہوئے۔ ریاست مدینہ کے شہری احتجاج کرتے رہ گئے لیکن ریاست مدینہ کے دعوے داروں نے آقائے مدینہ کے ناموس پر نقب لگانے والی مجرمہ کو اعزاز و اکرام سے نوازا (سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ آسیہ مسیح پر یہ الزام ثابت نہیں ہو سکا، اور سپریم کورٹ کے جج نچلی عدالتوں کے ججوں سے زیادہ قانون کے ماہر قرار دیے جاتے ہیں آئینی طور پر ان کا فیصلہ نچلی عدالتوں سے زیادہ معتبر اور فائنل سمجھا جاتا ہے: ادارہ)۔ چند لاکھ یہودی ہولوکاسٹ کی توہین نہیں برداشت کر پاتے لیکن دو ارب سے زائد مسلمانوں کے آقا اور چند بد بختوں کے سوا کل انسانیت کے محبوب کی توہین کی لرزاں دینے والی داستانوں سے وطن عزیز کی تاریخ بھری پڑی ہے۔

کرتا پور راہداری پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوئے اس بارے شورش کاشمیری مرحوم کی پیشن گوئی تفصیل سے ان کی کتاب ”تحریک ختم نبوت“ کے باب ”قادیانی جاسوس“ کے صفحہ نمبر 224 پر درج ہے۔ اس پیش گوئی میں بھی سکھ قادیانی گٹھ جوڑ اور پاکستان کو دولخت کرنے کی سازش کا ذکر ہے لیکن اس حوالے سے بھی قوم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور فیصلہ قوم پر مسلط کر دیا گیا۔ (کیا محض کسی پیش گوئی کی بنیاد پر ملکی فیصلے کیے جا سکتے ہیں یا کسی کو سزا دی جا سکتی ہے؟ ادارہ)

حالیہ عالمی وبا کورونا میں بھی مسجد، مدرسے اور بازار میں فرق روا رکھا گیا۔ دن بھر بازار اور مارکیٹیں رش اور ازدحام سے اٹی ہوئیں لیکن صدر مملکت روز کسی نا کسی مسجد کا دورہ کرتے اور ایس او پیز کی پیروی کی دھمکیاں دیتے نظر آتے، آئمہ مساجد کو گرفتار کیا گیا ان کی توہین اور تذلیل کی گئی، تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کی، ایک ایسے دور حکومت میں جن کا دعوی ریاست مدینہ کے طرز پر اس مملکت خداداد کے امور چلانے کا تھا۔

کوئی قادیانی، اسلامی اصولوں کی روشنی میں تو ہے ہی غیر مسلم، آئین پاکستان جو میثاق ملی بھی ہے کی روشنی میں بھی غیر مسلم ہیں۔ لیکن تاحال وہ اپنی اس حیثیت کو تسلیم نا کر کے آئین پاکستان کے انکار کے مرتکب ہو رہے ہیں اور یوں ان کی دیگر اقلیتوں سے حیثیت جداگانہ ہے (آئین کہیں نہیں کہتا کہ مسلم اور غیر مسلم کے علاوہ کوئی حیثیت موجود ہے، آئین کی کسی شق سے اختلاف کسی کو ریاست کا باغی نہیں بنا دیتی، اسی اختلاف کی بنیاد پر آئین میں ترامیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور 1974 میں ایک آئینی ترمیم کے تحت ہی احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔: ادارہ) لیکن اس کے باوجود انہیں بطور غیر مسلم اقلیتی کمیشن میں نمائندگی دینے کی پس پردہ کوششیں کی گئیں۔ دانستہ واضح طریقہ کار کو چھوڑ کر پیچیدہ راستہ اختیار کیا گیا اور قادیانیوں کے لئے اس آڑ میں مواقع دینے کی کو ششش کی گئی جو عوامی دباؤ پر ناکام ہوئی۔

حالیہ ہفتے میں اسلام آباد کے اہم سیکٹر میں ہندؤوں کے لئے کنالوں پر محیط قطعہ ارضی الاٹ کیا گیا کہ وہاں مندر تعمیر کیا جاسکے۔ اسی جگہ سے چند کلو میٹر فاصلے پر اسلام آباد کے پرانے گاؤں سید پور میں بھی ایک مندر ہے۔ اس مندر میں عبادت کے لئے تو آج تک ہندؤوں نہیں مل سکے، معلوم نہیں اس نئے مندر میں کون جا کر عبادت کرے گا پھر اسی اسلام آباد میں عین ان دنوں میں مسجد کو منہدم کیا گیا بغیر کسی پیشگی نوٹس کے، وجہ غیر قانونی بتائی گئی لیکن اندرون خانہ ایک بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی کو روڈ مہیا کرنے کے لئے اے سی نے مسجد کو شہید کیا، دونوں واقعات سے عوام میں اضطراب پھیلا، لیکن علما نے باہم مذاکرات سے اعلی حکام تک بات پہنچائی اور بالآخر ریاست مدینہ کے دعویداروں کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔

ریاست مدینہ کے دعویداروں کے ایسے اور بھی بہت سے کارنامے ہیں جن سے اہل اسلام کے دل زخمی زخمی ہیں۔ مدارس کے ساتھ امتیازی سلوک تو بہر حال ہر حکومت نے روا رکھا ہے۔

بنیادی طور پر تسلسل سے اس قسم کے واقعات کا وقوع پذیر ہونا اس بیانیے کو مزید دلیل فراہم کرتا ہے جو بیانیہ اس بنیاد پر قائم ہے کہ عمران خان کی پرورش اس ملک کی تہذیب، اقدار اور اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے کی گئی ہے اور بیرونی دباؤ پر ہی انہیں نظم مملکت سونپا گیا ہے۔ ریاست مدینہ جیسی ریاست کا قیام تو دور کی بات، ریاست مدینہ کی دھندلی سی جھلک بھی ان حکمرانوں کے قریب سے نہیں گزری۔ زیر نظر تصویریں اسلام آباد اور راولپنڈی میں پہلے سے موجود مندروں کی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments