کورونا: زندگی ہی نہیں موت کے بعد بھی مشکلات کا سامنا


انڈونیشیا میں جیسے جیسے کورونا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے مرنے والوں کی تدفین کی رسومات کی ادائیگی میں حائل مسائل کے بارے میں وہاں کے شہریوں کا احتجاج بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا میں نہ صرف 87 فیصد باشندے اپنی شناخت دین اسلام کو سمجھتے ہیں بلکہ اسلامی روایات کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔

ایسے مسلمانوں کے لیے زندگی سے لے کر آخری سفر تک ان کے مخصوص عقائد کے تحت رسم و رواج کا پابند رہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ خاص طور سے مرنے کے بعد قبر تک پہنچانے کے لیے جن رسومات کی ادائیگی کو لازمی سمجھا جاتا ہے ان پر لگی پابندی کا احترام کرنا ان مسلمانوں کے لیے آسان نہیں۔

ہسپتالوں پر لواحقین کا حملہ

انڈونیشیا کے ہسپتالوں میں دم توڑنے والوں کے رشتے داروں اور دوست و احباب کو اکثر یقین نہیں آتا کہ ان کا کوئی عزیز یا دوست کورونا وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہوا ہے۔

اس مہلک وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیے جانے والے حکومتی اقدامات کو ماننے سے انکار کرنے والے باشندے کسی صورت اپنے خاندان کے کسی فرد یا دوست، کسی مشہور شخص یا کسی عالم دین کی موت کے بعد اس کی جسد خاکی کو حکام کے حوالے نہیں کرنا چاہتے۔

ان افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح لاش کو مرنے والے کے گھر لے آئیں اور اس کے کفن دفن کا بندوبست اپنے مذہبی رسوم و رواج کے مطابق کریں۔ ایسا کرنے پر پابندی کا نتیجہ حکام، پولیس اہلکار، مرنے والوں کے گھر والوں اور دوست و احباب کے مابین شدید تصادم کا سبب بن رہا ہے۔

اس کی تازہ ترین مثال ابھی حال ہی میں مشرقی انڈونیشی علاقے کے ایک ہسپتال میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔ ایک 49 سالہ مسلم مبلغ کا انتقال ہسپتال میں ہوا۔ وہ سینے میں درد اور سانس کی تکلیف کی شکایت کے ساتھ مشرقی جزیرے سولاویسی کے ایک ہسپتال میں جس دن داخل ہوا اس کے اگلے دن اس کا انتقال ہو گیا۔

محمد یونس قاد اور کی لاش کو ہسپتال سے لینے کے لیے 150 افراد نے ہسپتال پر دھاوا بول دیا۔ مرحوم کے رشتے داروں، دوست احباب اور اس کے پیروکاروں کا ماننا ہے کہ اس کی موت کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری کووڈ انیس سے نہیں ہو سکتی کیونکہ، ’وہ ہمیشہ ماسک پہننے رہتا تھا، صابن سے ہاتھ دھویا کرتا تھا اور کورونا بحران کے تناظر میں حکومت نے جو ضروری احکامات اور پروٹوکول جاری کیا تھا، اس کی پابندی کرتا تھا۔

چنانچہ اس کے پیرو کار اور مقامی لوگوں نے ہسپتال انتظامیہ سے اس کی لاش نہ صرف ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا بلکہ سو سے زائد افراد نے ہسپتال پر حملہ کیا، نرسوں کو ڈرایا دھمکایا ور اس کے انتقال کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر زور زبردستی اس کی لاش اٹھا کر لے گئے۔ اس برادری کے ایک رکن نے اس کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ”ہم نے جو کچھ کیا یہ یقیناً اللہ کی نظر میں عظیم اور معتبر ہے جبکہ قانون کی نگاہ میں یہ ایک حقیر عمل ہے۔“

تدفین کی رسومات

انڈونیشیا میں کورونا کی وبا کا شکار ہو کر مرنے والوں کے لواحقین کی طرف سے میت یا لاش کو ہسپتال سے زور زبردستی حاصل کر لینے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر انڈونیشی مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مرنے کے 24 گھنٹے کے اندر اندر لاش کو دفنا دیا جانا چاہیے۔ نیز جسد خاکی کو بغیر تابوت کے قبر میں لٹایا جانا چاہیے جبکہ قبر میں میت کا منہ کعبہ کے رخ پر ہونا چاہیے۔

تدفین سے قبل گھر والے میت کو صابن سے غسل دیتے ہیں، اس پر عرق گلاب چھڑکا جاتا ہے، کفن میں لپیٹ کر سر اور پیروں کو باندھ دیا جاتا ہے۔ دفنانے کے بعد مرنے والے کی مغفرت کے لیے جنازے کے تمام شرکا قبر کے پاس ہی کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں۔ اسلامی عقیدے کے مطابق نعش سوزی یا لاش کو جلانا یا مردہ جسم میں کسی قسم کا کیمیکل بھرنا تاکہ لاش عرصے تک محفوظ رہے، ممنوع ہے۔

Coronavirus Spanien Beerdigung (Reuters/J. Medina)

یہ معاملہ پیچیدہ کیوں؟

کورونا وائرس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جانے والے افراد کی لاشوں کے بارے میں غیر معمولی احتیاط اس لیے ضروری ہوتی ہے کہ ان لاشوں سے وائرس پھیلنے کے خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان لاشوں کی تدفین کے لیے سرکاری پروٹوکول جاری کیے گئے ہیں۔

انڈونیشیا میں یہ ذمہ داری ایسے خاص عملے کو دی گئی ہے کہ وہ رسومات کی ادائیگی کا خیال رکھتے ہوئے میت کو قبر میں اتارنے تک کی تیاریاں کریں، جو نارمل حالات میں مرنے والے کے گھر والے اور قریبی لوگ کیا کرتے تھے۔

لاشوں کی دیکھ بھال پر مامور ایک افسر ساہرول ردھا کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا کے بعد سے ان کی ذمہ داریاں اور ملازمت کی نوعیت بھی بدل گئی ہے۔ اس کے ورکنگ آورز یا کام کے گھنٹے طویل تر ہو گئے ہیں۔ ایک ایک شفٹ میں مزید کارکنوں کی ضرورت پیدا ہو گئی ہے۔ اب انہیں میت کے کفن دفن کی مذہبی رسومات کا انتظام کرنے میں زیادہ وقت اور افرادی قوت درکار ہے۔

ساہرول ردھا نے کہا، ”حالانکہ اس وقت ہمیں ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے مگر پھر بھی ہمیں انفیکشن زدہ لاشوں کو بہت محتاط طریقے سے غسل دینا، اس کو وضو کرانا اور کفنانا چاہیے۔“

حکومت پر بھروسے کا فقدان

انڈونیشی حکومت نے اب تک کورونا کے 68 ہزار کیسز اور کووڈ انیس کا شکار ہو کر مرنے والوں کی تعداد کے تین ہزار تین سو پچاس ہونے کی تصدیق کر چکی ہے۔ ساتھ ہی حکومت عوام سے کورونا پروٹوکول کی پاسداری کا مطالبہ کر رہی ہے مگر کورونا آگاہی اور حکومتی اقدام کے بارے میں عوام تک اطلاعات نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔ حکومت پر سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ مقامی انتظامیہ کو اپنے ساتھ لے کر نہیں چل رہی۔

انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ کے قبرستانوں میں جگہ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ گورکن صبح سے رات گئے تک قبروں کو تیار کرنے اور میت کو دفنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایک کے بعد دوسری میت کو دفنانے سے پہلے اسے وضو کرنے کا وقت بھی نہیں مل پاتا۔

جکارتہ کے قبرستان کے گورکن ایمانگ مولانا کے بقول، ”جب ہم دیکھتے ہیں کہ مرنے والوں کے خاندان کے افراد قبر کے قریب کھڑے سوگ اور سکتے کا شکار رہتے ہیں مگر انہیں میت کے قریب آ کر اس کے آخری دیدار تک کی اجازت نہیں، تو ہمارا دل بھی روتا ہے۔ میت کے گھر والے دور کھڑے دعائے مغفرت پڑھتے رہتے ہیں، میں اکثر سوچتا ہوں کہ ایسا میرے اور میرے گھر والوں کے ساتھ بھی کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔“

حکومتی اقدامات میں جھول

انڈونیشیا کے پڑوسی ممالک میں ایک عرصے سے لاک ڈاؤن اور کورونا ٹیسٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ انڈونیشیا کا شمار کورونا ٹیسٹنگ کی بہت ہی کم شرح والے ممالک میں ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ٹیسٹ اور نتائج کے بیچ بہت زیادہ وقفہ ہوتا ہے اور ٹیسٹ کا نتیجہ آنے میں بھی بہت وقت لگ جاتا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ عوام حکومتی قواعد و ضوابط کو سنجیدہ نہیں لے رہے نہ ہی معلومات صحیح انداز اور وقت پر عوام تک پہنچ رہی ہیں۔ صوبے جاوا اور دیگر مقامات سے کورونا متاثرہ افراد کی لاشوں کی چوری کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔

سماجی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ عام انسانوں کو کورونا سے متعلق پروٹوکول پر کار بند ہونے میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ حکومت ان کے نجی معاملات زندگی میں مداخلت کر رہی ہے۔ جیسے کہ کرونا متاثرہ افراد کی میت کے کفن دفن کی ذمہ داری جن لوگوں پر ڈال دی گئی ہے وہ ان کے لواحقین کے عقائد اور مذہبی رسومات کو صحیح طور سے ادا نہیں کر سکتے۔

دریں اثنا انڈونیشیا کی ٹاسک فورس برائے کووڈ انیس کے سربراہ نے کہا ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عوام کو ہیلتھ پروٹوکول کا پابند بنانا ہوگا۔ اس کے لیے مقامی انتظامیہ اور مذہبی رہنماؤں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے۔

کشور مصطفیٰ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

کشور مصطفیٰ

یہ مضامین ڈوئچے ویلے شعبہ اردو کی سیینیئر ایڈیٹر کشور مصطفی کی تحریر ہیں اور ڈوئچے ویلے کے تعاون سے ہم مضمون شائع کر رہے ہیں۔

kishwar-mustafa has 46 posts and counting.See all posts by kishwar-mustafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments