مودی کے لداخ کے دورے کا ٹوپی ڈرامہ


لداخ کی گلوان وادی میں بھارتی فوجوں کی چینی فوجی جوانوں کے ہاتھ پٹائی جس میں 20 بھارتی جہنم رسید ہوئے کے بعد مودی بری طرح سٹپٹا رہے ہیں۔ پہلے بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اعلان کیا کہ وہ لداخ کا دورہ کریں گے اور اپنی شکست خوردہ فوجوں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ راجناتھ سنگھ کے دورے کے اعلان پر چینی وزارت خارجہ نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بیان دیا کہ بھارتی وزیر خارجہ کے دورے سے اگر خطے کے امن و سکون پر منفی اثر پڑا تو ذمہ داری بھارت کی ہوگی۔ راجناتھ سنگھ نے گھبرا کر اپنا دورہ منسوخ کر دیا۔

نریندر مودی جو چینی فوج کے ہاتھ اپنی فوج کی ہزیمت سے تلملا رہے تھے، نے اعلان کیا کہ وہ خود لداخ کا دورہ کریں گے۔ چینی ردعمل کے ڈر سے نریندر مودی لداخ سے ڈھائی سو کلومیٹر دور ایک مقام پہ تشریف لے گئے لیکن اعلان یہ کیا کہ وہ لداخ میں ہیں۔ اپنے جھوٹ کو حقیقت کا لبادہ اڑھانے کی خاطر ایک ٹوپی ڈرامہ رچایا گیا۔ چونکہ منظر کشی یہ کرنی تھی کہ وہ اگلے مورچوں کے قریب ایک ہسپتال کے دورے پہ زخمی بھارتی فوجیوں کی عیادت کر رہے ہیں، بھارتی حکام نے ایک کانفرنس ہال کو ہسپتال کا وارڈ بنانے کی کوشش کی۔ جلد بازی میں وہ کانفرنس ہال میں نصب ملٹی میڈیا پروجیکٹر اور اسکرین بھی ہٹانا بھول گئے۔ ہال میں چند ہسپتال کے بیڈ رکھ دیے گئے۔ نہ کوئی آکسیجن نہ کوئی اور میڈیکل تنصیبات۔ بھارتی میڈیا پر جب اس جھوٹے دورے کی تصاویر پیش کی گئیں تو خود بھارتی اور بین الاقوامی میڈیا نے جھوٹ کی قلعی کھول دی گئی اور خوب جگ ہنسائی ہوئی۔

بھارتی سورماؤں کی سٹی گم ہے کہ چین کے ہاتھوں ہرزہ سرائی کے بعد وہ اپنی قوم کو کیا منہ دکھائیں گے۔ پہلے تو انہوں نے چین کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچانے کے لئے چینی ایپس کو بھارت میں بند کرنے کا حکم صادر فرمایا اور ان کے استعمال پہ پابندی عائد کی لیکن یہ قدم اٹھانے کے بعد چین کی جانب سے کوئی ردعمل نہ آیا جبکہ بھارتی معاشی تجزیہ نگاروں نے اپنی حکومت کو سمجھایا کہ چینی ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری بھارتی معیشت میں اتنی زیادہ سرایت کر گئی ہے کہ چینی ایپس پہ پابندی لگانے کا نقصان بھارت کو زیادہ ہوگا بنسبت کے۔ اپنی خفت مٹانے کی خاطر بھارت نے ایک اور قدم اٹھایا یکم جولائی 2020 ؁ء کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل میں چین کے طابع علاقے ہانگ کانگ میں احتجاجی ریلیوں پہ چین کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب راجیو کمار چندر نے چین کو ہدف بنانے کی کوشش کی۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ جس ملک نے اپنے پڑوسیوں اور آزاد دیا رستوں پہ ناجائز تسلط قائم کیا وہ اب چین کے اندرونی معاملے کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔

27 اکتوبر 1947 ؁ء کو بھارت اپنی فوجوں کی مدد سے کشمیر پہ غاصبانہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ کشمیر کی شاہی ریاست کو اختیار تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنا الحاق کرے یا پاکستان کے لیکن اظہار رائے سے قبل بھارت نے اپنا تسلط جما دیا۔ رضاکاروں نے بھارت کے قبضہ سے کشمیر کو آزاد کرانے کی کوشش کی اور ایک تہائی حصہ آزاد کرا لیا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے جنگ بندی کی درخواست کی۔ اقوام متحدہ نے جنگ بندی تو کرا دی لیکن اپنی قراردادیں منظور رکھیں جن کے تحت کشمیری عوام کو یہ حق دیا گیا کہ وہ استصواب رائے کے ذریعہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں۔ ابتداء میں بھارت اقوام متحدہ کی قرار دادوں پہ عمل درآمد کے لئے رضا مند ہو گیا لیکن بعد میں مکر گیا۔ 1965 ؁ء اور 1971 ؁ء کی پاک بھارت جنگوں نے کشمیر کی حالت نہ بدلی۔ مجبور ہو کر کشمیریوں نے 1989 ؁ء میں علم حریت بلند کیا جسے کچلنے کی خاطر بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ فوج جھونک دی جس نے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید کر دئے۔ ہزاروں عورتوں کے ساتھ زیادتی کی اور لاکھوں نوجوانوں کو پابند سلاسل کر دیا۔

صرف یہی نہیں ستمبر 1948 ؁ء میں بھارتی فوجوں نے حیدرآباد کی ریاست پہ حملہ کر دیا جس نے 1947 ؁ء کے آزادی ایکٹ کے مطابق آزاد ہونے کے حق پر عمل درآمد کرتے ہوئے اعلان کیا تھا۔ جونا گڑھ کا بھی وہی انجام ہوا حالانکہ اس نے 15 اگست 1947 ؁ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا، مناودھر کو بھی اسی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ 14 ستمبر 1947 ؁ء کو خان صاحب غلام محی الدین خانجی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان آزادی کیا۔ 22 ستمبر 1947 ؁ء کو بھارتی فوجوں نے مناودھر کے فرمانروا کو حراست میں لے لیا اور مناودھر پہ غاصبانہ قبضہ کر لیا۔

دسمبر 1961 ؁ء میں بھارتی فوجوں نے سابق پرتگالی آبادیوں گواء، دمن اور دیؤ پہ قبضہ کر لیا۔ 1971 ؁ء میں بھارت نے مشرقی پاکستان کو سازش اور اپنی فوج کے ذریعہ پاکستان سے علیحدہ کر دیا۔ 16 مئی 1975 ؁ء کو مسلم کی آزاد ہند سلطنت کو بھارت نے ہضم کر لیا۔ 1984 ؁ء میں بھارت نے سیا چن کے متنازعہ علاقہ پہ قبضہ کر لیا۔

5 اگست 2019 ؁ء کو بھارت نے اپنے ہی آئین کی شق 370 اور 35 Aجو کشمیر کو خود مختاری کا حق دیتی تھیں، منسوخ کر کے کشمیر اور لداخ کو بھارت میں ضم کر لیا۔ کشمیر بھارت اور پاکستان کے مابین متنازعہ علاقہ ہے جبکہ لداخ بھارت اور چین کے درمیان متنازعہ خطہ ہے۔ بھارت لداخ کے علاقہ میں ایک نئی سڑک تعمیر کر رہا تھا تاکہ علاقے پہ اپنا تسلط قائم کرے جس پر چین نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنی فوجوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔

چینی قیادت دور اندیش ہے۔ جب چیئرمین ماؤ کو بھارت کی سازش کے تحت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی اطلاع دی گئی تو ایک پاکستانی وفد سے گفتگو کے دوران چینی رہنما نے کہا کہ 1971 ؁ء کے سانحے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ”بھارت کی عمارت سے پہلی اینٹ گر گئی۔“

یہ حقیقت ہے کیونکہ کشمیر کے علاوہ ناگا لینڈ بودو لینڈ، نکسل باڑی، میزورام، خالصتان اور متعدد ریاستیں بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ کر رہی ہیں اور بھارت کے ٹکڑے بخیے ہونے والے ہیں۔ بجائے اس کے کہ بھارت ہوش کے ناخن لے، وہ دوسروں کے پھڈے میں ٹانگ اڑا رہا ہے۔ ساتھ مودی اپنی کھوئی ہوئی ساتھ کو بحال کرنے کی خاطر ٹوپی ڈرامے رچا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments