لبرل اخلاقیات میں سانجھ، رواداری، جستجو اور ہمدردی


\"wajahat1\"زندگی کے سب معاملات میں حصہ لینے کا سب انسانوں کو ایک جیسا حق حاصل ہے۔ انسان اپنی سہولت اور رضامندی کے مطابق فیصلہ کر سکتے ہیں کہ انہیں کن معاملات میں شریک ہونا ہے اور کن شعبوں میں حصہ ڈالنا ہے۔ انسان اپنے پیشے کے انتخاب سے معاشی زندگی میں شامل ہوتے ہیں ۔ اپنے علمی کام کے ذریعے معاشرے کی نشوونما میں حصہ ڈالتے ہیں اور رضاکارانہ طور پر سیاسی عمل میں حصہ لے کر فیصلہ سازی میں بامعنی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تمام انسان شراکت کا ایک جیسا حق رکھتے ہیں اور یہ ان کی آزادی ہے کہ وہ ووٹ ڈال کر معاشرے میں شرکت کرنا چاہتے ہیں یا انتخاب میں حصہ لے کر دوسرے انسانوں کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔ تمام انسان یہ فیصلے اپنی رضامندی سے کرتے ہیں اور اپنی صلاحیت کے بارے میں اندازہ لگانے کی آزادی رکھتے ہیں۔ شراکت کے معاملات میں چونکہ رضامندی اور دوسروں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے انسان ایک دوسرے کی شراکت کے معیار پر رائے دینے کی آزادی رکھتے ہیں۔ اگر اکرم نامی ایک شخص جوتا بنانے کا کارخانہ کھولتا ہے لیکن معیاری جوتے تیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو دوسرے انسانوں کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اکرم کے کارخانے سے جوتا نہ خریدیں۔ اگر کوثر نامی ایک عورت قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنا چاہتی ہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے ۔ دوسروں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے فیصلہ کریںکہ کیا کوثر نامی خاتون ان کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں۔

انسانی زندگی میں بہت سے رنگ پائے جاتے ہیں ۔ کہیں انسان بلند پہاڑوں پہ رہتے ہیں تو کہیں صحرا میں۔ کہیں برف سے اٹے ہوئے میدانوں میں رہتے ہیں تو کہیں ندی نالوں کی زمینیں ہیں۔ کہیں لوگ سیب اور انگور اگاتے ہیں تو کہیں آم اور جامن کے درخت ہوتے ہیں۔ کہیں انسان گہرے رنگوں کے بہت سے کپڑے پہنتے ہیں تو کہیں \"3044\"   سخت دھوپ میں مختصر لباس پہنے پھرتے ہیں۔ کہیں چھری کانٹے سے کھانا کھاتے ہیں تو کہیں ہاتھ سے چاول نوش کرتے ہیں۔ ایک جگہ کی موسیقی دوسری جگہ سے نہیں ملتی۔ ایک جگہ کی زبان دوسری جگہ کی بولی سے الگ ہے۔ ایک ہی گاﺅں میں رہتے ہیں اور ایک ہی عقیدہ ہے ۔ ایک ہی گھر میں بہن بھائیوں کی طرح پلتے ہیں اور مذہبی سوچ الگ الگ ہوتی ہے۔ کوئی اے بی سی پارٹی کو اچھا سمجھتا ہے تو کوئی ایکس وائے زی پارٹی کو صحیح سمجھتا ہے۔انسانوں کو زبردستی ایک جیسا نہیں بنایا جا سکتا اور اگر انہیں ایک جیسا بنانے کی کوشش کی جائے تو زندگی میں توانائی کم ہو جاتی ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ رک جاتا ہے۔ حالات کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔ حالات میں بہتری کی یہی شکل ہے کہ سب انسان اپنے اپنے رنگ میں مختلف راستوں پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کے مذہب ، زبان ، ثقافت ، رہن سہن اور خیالات کو مختلف سمجھتے ہیں لیکن اس فرق کی بنیاد پر کسی کو اعلیٰ یا گھٹیا قرار نہیں دیتے۔ ایک دوسرے سے مختلف ہونے کا حق معاشرے میں تنوع پیدا کرتا ہے ۔ تنوع سے انکار کیا جائے تو فساد پیدا ہو جاتا ہے۔ تنوع یا رنگارنگی کو مان لیا جائے تو سب انسانوں کی صلاحیت اور محنت ایک دوسرے کے کام آتی ہے۔\"arts-curriculum-dance\" ہم ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن مختلف ہونے کے باوجود ہمارے حقوق ایک جیسے ہیں اور ہمارا رتبہ ایک جیسا ہے۔

رواداری کا لغوی مفہوم ہے دوسرے انسانوں کے ہم سے مختلف عقائد، زاویہ ہائے نگاہ اور افکار کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر برداشت کا رویہ پیدا کرنا۔ سب شہریوں کو عقیدے نیز فکر و نظر کی یکساں اور مکمل آزادی دیے بغیر رواداری کا تصور ہی ناقابل عمل ہے۔ مذہبی و فکری آزادی اور رواداری ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر ریاست کسی ایک عقیدے یا فکر کے پیروکاروں کو دوسروں پر ترجیح دے تو مذہبی آزادی مجروح ہوتی ہے اور معاشرہ رواداری سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر ریاست رتبے، استحقاق یا مذہبی عقائد پر عمل کی آزادی کے ضمن میں مختلف مذہبی گروہوں میں امتیاز ی یا ترجیحی سلوک کرے تو مذہبی آزادی کا تصور ہی بے معنی ہوجاتاہے۔

کسی فرد یا گروہ کی یہ خواہش قابلِ عمل نہیں کہ تمام اِنسانوں کو طاقت کے بل پر ایک ہی طرح کے عقائد یا افکار کا پابند کیا جائے۔ انسانوں کے اجتماعی رہن سہن اور معاشرتی کاوشوں کا مرکزی مقصد خود انسان کی فلاح ہے۔ نیز یہ کہ ریاست کا بنیادی فرض رنگ و نسل، عقیدے، جنس یاخیالات کی بنیادپر کسی امتیاز کے بغیر اپنے تمام شہریوں کے تحفظ اور ترقی کو یقینی بنانا ہے۔ ان اصولوں کی بنیاد ہی پر جدید ریاست میں ایسے قابلِ عمل اجتماعی نظام کا تصور کیا جاسکتا ہے جس میں تمام شہری

\"Statue

عقائد، نقطہ ¿ نظر اور رہن سہن کے گوناگوں اختلافات کے باوجود اپنے اجتماعی مفاد کے لیے کام کر سکتے ہیں۔مزید براں اپنی جان و مال کو محفوظ سمجھتے ہوئے دیگر شہریوں کے ساتھ پُر امن اختلافِ رائے کی بنیاد پر مکالمہ استوار کرسکتے ہیں۔

رواداری کے لئے ضروری ہے کہ ریاست شہریوں کے عقائد اور خیالات میں مداخلت سے مکمل اجتناب کرے۔ عقائد اور افکار کے ضمن میں ریاست کا واحد فریضہ ہر شہری کے لیے یکساں مذہبی اور فکری آزادی کو یقینی بناناہے۔ روادار ریاست میںقوانین کی بنیاد شہریت پر رکھی جاتی ہے، کسی خاص عقیدے پر نہیں۔ رُتبے، معاشی مواقع، سیاسی شرکت اور سماجی استحقاق کے اعتبار سے کسی فرقے یا گروہ سے امتیازی سلوک کی گنجائش نہیں ہوتی خواہ کوئی گروہ عددی اعتبار سے بھاری اکثریت رکھتا ہو یا چھوٹی سی اقلیت ہو۔ ریاست کو یہ حق نہیں کہ اپنے شہریوں کے کسی عقیدے پر غلط یا صحیح کا فتویٰ صادر کرے۔ انسانی تاریخ میں آج تک رواداری کے اِن بنیادی اُصولوں سے انحراف کرنے والی کوئی ایسی ریاست نہیں گزری جو تصادم، تشدد، تفرقے، انحطاط اور انتشار جیسے انجام سے دو چار نہ ہوئی ہو۔ کسی ریاست کے تمام شہری خواہ ایک ہی مذہب کے پیرو کار ہی کیوں نہ ہوں، اجتماعی بندوبست میں رواداری قائم کئے بغیر مختلف گروہوں میں تصادم ناگزیر ہوجاتا ہے۔

آج کی دُنیا میں تصادم اور قتل و غارت کے خوفناک ہتھیاروں کی موجود ہیں۔ آج کے زمانے میں انسانوں میں مشترک نکات کی نشان دہی، سماجی اقدار اور معیارات میں ناگزیر ارتقا، علوم وفنون کے آفاق میں پھیلاﺅ، پُرامن اجتماعی مکالمہ اور معیار زندگی میں مسلسل بہتری ضروری ہے۔ رواداری کو بنیادی اجتماعی قدر تسلیم کیے بغیر اِن\"albert-einstein-memoria\"

میں سے کسی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی کیونکہ عد م برداشت کا نتیجہ صرف تصادم، اختلاف جمود اور تشدد کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ سب انسانوں کو دوسرے انسانوں کے اِس حق کے احترام کرنا پڑے گا کہ وہ ہم سے مختلف نظام عقائد او ر اقدار پر یقین رکھ سکتے ہیں۔ دوسروں کے حق اختلاف کا احترام کرنے سے عملی طور پر کسی انسان کے اپنے حقِ عقیدہ پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اِس کی عملی دلیل یہ ہے کہ ہر انسان اپنے لیے مذہبی اور فکری آزادی چاہتا ہے۔

انسانی معاشرہ آج جیسا ہے ہمیشہ ایسا نہیں تھا اور آج انسانی معاشرے کی جو صورتیں ہیں مستقبل میں تبدیل ہو جائیں گی۔ اس کی تین وجوہات ہیں۔ انسان مسلسل مشاہدے ، تحقیق اور غور و فکر سے نئی نئی باتیں اور اصول دریافت کرتے ہیں ۔ ان اصولوں کا اطلاق کر کے کچھ نئے طور طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ۔ کام کاج میں سہولت پیدا کی جاتی ہے اور مشکلات کو حل کرنے کے نئے طریقے نکالے جاتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہن سہن اور میل جول سے بہت کچھ نیا سیکھتے ہیں۔ ہر نئے علم سے نئے علم کا راستہ نکلتا ہے۔ ہم پیداوار کو بڑھانے کے اور چیزوں کی قدروقیمت کو بڑھانے کے نت نئے طریقے نکال رہے ہیں۔ ماضی میں انسان نے پہیہ دریافت کیا ۔ آج جیٹ جہاز اڑا رہا ہے۔ ہم نے چھاپہ خانہ ایجاد کیا تھا ۔ آج کمپیوٹر پر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے پانی سے کپڑا بننے کی مشین بنائی تھی آج پانی سے بجلی نکال رہے ہیں۔ کل چاند تک پہنچے تھے آج مریخ تک پہنچ رہے ہیں ۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ پرانے طور طریقوں کو جاری رکھا جائے لیکن وہ بھی نئی ایجادات اور طور طریقوں سے گریز نہیں کر سکتے۔ اسی طرح کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں من مانی کرنے دی \"dog-mourning-death-of-master\"جائے۔ معاشرے میں نئی بات اور پرانے طریقے کی کشمکش ہمیشہ سے جاری ہے۔ ہم اپنی پرانی غلطیوں سے سیکھتے ہیں اور آج جو کچھ کر رہے ہیں اس سے سبق حاصل کر کے آئندہ نئی دنیا تعمیر کریں گے۔ انسانوں کو تحقیق کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے ۔ نامعلوم کو دریافت کرنے کی کوشش ہمارا بنیادی حق ہے اور ہمیں نئی ایجادات کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

انسانوں کی مساوات کے ساتھ جڑا ہوا ایک بنیادی تصور انسانوں کے احترام کا ہے۔ ایک نوزائیدہ بچے کے احترام کے بھی تقاضے ہیں۔ ایک قیدی بھی اپنے وقار کے مطالبات رکھتا ہے۔ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی انسان کے احترام کا تصور موجود ہے۔ کسی انسان کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ آزادیوں کے دائرے میں ہر انسان کو احترام کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم انسانوں میں اختلاف کا احترام کرتے ہیں۔ نسل، رنگ ، جنس ، دولت اور مذہب کے مختلف ہونے کی بنیاد پر کسی انسان کی توہین نہیں کر سکتے۔ اس کا استحصال نہیں کر سکتے۔ کسی ایک انسان پر تشدد نہیں کر سکتے۔ کسی انسان کی بے بسی کا تماشا نہیں کر سکتے۔ انسان کے احترام کا تعلق رتبے اور حقوق کی بنیادی مساوات سے ہے۔

ہر انسان زندگی میں مختلف مرحلوں سے گزرتا ہے اور بہت سے مواقع ایسے آتے ہیں جب انسان اپنا تحفظ خود نہیں کر سکتا۔ اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ اسے دوسروںکی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے دوسروں سے محبت اور توجہ درکار ہوتی ہے۔ ایک بچہ اپنی حفاظت خود نہیں کر سکتا۔ خطرے سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اپنی ضروریات کا \"equality1\"مطالبہ نہیں کر سکتا۔ ایک بیمار شخص کو زندہ رہنے کے لیے علاج معالجے اور دوسروں سے مدد کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ ایک خاص عمر کو پہنچ جانے والا انسان اپنی ضروریات کے لیے اس طرح محنت مزدوری نہیں کر سکتا جیسے وہ جوانی میں کام کر سکتا تھا۔ جب ہم اجنبی جگہ پر ہوتے ہیں تو ہمیں بہت سی نئی چیزیں معلوم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ ہمیں اپنے پیشے میں زیادہ تجربہ کار لوگوں سے مدد کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہم سب انسان مختلف ضروریات رکھتے ہیں ۔ انسانوں میں ایک دوسرے کی مدد کے کچھ اصول ضابطے معیشت ، قانون اور سیاست میں طے ہیں لیکن انسانوں میں ایک ان لکھا اصول ایک دوسرے سے ہمدردی اور محبت کا ہے ۔ اس کے پس پردہ نہ صرف یہ حقیقت موجود ہوتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی موقع پر مدد کی ضرورت پیش آتی ہے بلکہ یہ اخلاقی اصول بھی انسانی حقوق کی اقدار کا حصہ ہے کہ ایک دوسرے سے محبت ، ہمدردی اور اخوت کا سلوک کرنے سے ہم سب کے لیے زندگی میں معنی پیدا ہوتا ہے اور زندگی سے خوشی حاصل کرنے کا دائرہ زیادہ وسیع کیا جا سکتا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments