غلطی سے سرحد پار کرنے والی گیتا کا ایدھی کے نام خط۔


اے بزرگ بابا!

کبھی مندر کی گھنٹی کے آواز سے بھگوان کے ساتھ رابطے میں آتی ہوں تو کہیں ذہن کو زور دے کر جب گمان کرتی ہوں گمان میں بھگوان کی شکل نہیں بن پاتی تو ایک جھٹکے میں میرے ذہن میں بھگوان کی جگہ تمہاری شکل آجاتی ہے۔ اے بزرگ بابا میرا لمس معتبر ہوجاتا ہے میں جھومنے لگتی ہوں اور خود کو دنیا جہاں کے سمسار سے مکت پاتی ہوں، بابا جب پڑوس سے پتھروں نفرتوں حقارتوں کے تیروں کی بارش تھم جاتی ہے تو ایک ہوا بھی آتی ہے جس میں تمہاری خوشبو ہوتی ہے۔ بابا کتنے خوش نصیب لوگ تھے ایک بھگوان بھی رکھتے تھے۔

بزرگ بابا میں راہ بھٹکی تھی لیکن پڑوسی دیش میں بھگوان کی پناہ میں پہنچی۔ بزرگ بابا میں کتنی بھاگیش والی تھی اگر وہیں کسی درندے کے ہاتھ لگتی تو آج میرا بھگوان بھی مجھ سے چھن جاتا اور میں قید کر لی جاتی۔

بزرگ بابا! تم واقعی بھگوان تھے میں گونگی بہری ہوں لیکن اندھی نہیں۔ ایک لڑکی جو گونگی تھی بھولے بھٹکے نوعمری میں غلطی سے اپنے ملک کی بارڈر کراس کر آتی ہے یا کسی وجہ سے پاکستان پہنچ جاتی ہے وہ آج شکر کرتی ہے کہ میں کسی انسان کے ہاتھ لگی کسی درندے کے ہاتھ لگتی تو میرا کیا ہوتا؟ اے بزرگ بابا جب دونوں طرف انسان بستے ہیں تو اتنی نفرت کیوں؟

جب آپ کو پتا چلتا ہے کہ وہ بھولی بھالی لڑکی ہندو ہے۔ زبان نہیں بول نہیں سکتی، ماتھے پر تلک کا اشارہ کرتی ہے، آرتی اتارنے کا اشارہ کرتی تو یہ سمجھ جاتا ہے کہ وہ ہندو ہے۔ اور ایک مختلف مذہب کی لڑکی تمہارے لیے اور بھی خاص بن جاتی ہے۔ ایدھی ہوم کا کمرہ مندر بنا کر اس میں مورتیاں رکھ دیتے ہو اور سختی سے منع کر دیتے ہو کہ ”آج کے بعد اس کمرے میں کوئی جوتیاں پہن کر نا جائے اب یہ گیتا کا مندر ہے“ کمال کرتے ہو۔

اگر کسی کا خلوص دیکھ کر مسلمان ہوتی تو میں ہوتی اور انسانیت کے مسیحا تمہارا خلوص بھی کیا خلوص تھا۔ اگر کسی کا مذہب تبدیل کرنے کا حق تھا یا مذہب تبدیل کرنا ثواب ہوتا تو آپ کا حق بھی تھا اور ثواب بھی کما لیتے لیکن آپ نے نہیں کیا آخر اسے بحفاظت بھیج دیا۔ بزرگ بابا تو نے مسلمان نہیں بنایا، تمہاری کمال شفقت دیکھ کر میں انسان بن گئی۔ میں پجارن بن گئی۔ میں واقعی بھاگیش والی ہوں کہ کچھ عرصہ میں بھگوان کے چرنوں میں رہی۔

بھگوان مجھے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا تھا۔ آج اگر اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر اعتراض ہے تو جاؤ اس بھگوان کے دل میں مندر بنا لو۔ اس کے دل میں میں نے بھگوان بھی دیکھا، یسوع بھی، کفر بھی باعزت زندگی گزار رہا تھا اور اسلام بھی۔ وہ سندھو ندی کا پانی پی کر بھگوان بن چکا تھا۔ سندھو کا پانی میلا ہو رہا ہے کوئی اٹھو اسے بچالو۔ یہ میلا پانی میرے بھگوان اور اس کے سنسکار بہا نا لے جائے۔ کوشش کرو سندھ کی روح رجعت پسند نا بنے۔

بزرگ بابا آپ کی موت کی خبر اس دیش میں بسنے والی آپ کی داسی گیتا پر آج بھی قہر برساتی ہے۔ تم کو بچھڑے چار سال بیت گئے۔ اس نگر میں کولاچی کے دامن میں بھگوان سو گیا۔ اس راستے سے گزرنے والے یقیناً عقیدت بھرا سلام پیش کرتے ہوں گے ۔ بزرگ بابا اس دور دیش سے میرا محبتوں بھرا سلام قبول کرنا۔

فقط آپ کی بیٹی گیتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments