اسلام اور مافوق الفطرت حکایات


اسلام در اصل اس دین کا تسلسل ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ اتارا تھا۔ جب جب انسان اس راہ مستقیم سے انحراف کیا اور اس خالص توحیدی دین میں شرک شامل کیا تو اللہ نے اس دین کو آلائشوں سے پاک کرنے اور لوگوں کو واپس توحید کی راہ پر لانے کے لئے اپنا نبی یا رسول بھیجا۔ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور رسول ضرورت کے تحت مختلف ادوار میں اور دنیا کے مختلف علاقوں میں بھیجا۔

ان تمام انبیاء کرام نے اسی ایک دین اسلام کی تبلیغ کی۔ ”ان الدین عند اللہ الاسلام“ (قرآن) یعنی دین تو اسلام ہی ہے۔ اسی لئے ہمارے دین کی نسبت اصل کی طرف ہے دین اسلام۔ دین کے معاملے میں عیسائیوں کی عیسائیت Christianity اور یہودیوں کی یہودیت Judaism کی طرح دین محمدی Muhammedism نہیں کہتے۔ ہاں شریعت محمدی کہتے ہیں۔ جب بھی بات دین کی ہوگی تو اس سے مراد اسلام ہوگا۔ ہاں ان انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتیں اس دور، مزاج اور وقت کے مطابق جدا جدا تھیں۔ ان کی قومیں اپنے نبی و رسول سے بطور ثبوت کچھ مافوق الفطرت کارناموں معجزات کا مطالبہ کرتی تھیں چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں معجزے کرائے۔

معجزہ نبیوں کے ساتھ خاص ہے اور چونکہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے اس لئے گرچہ بعض معجزے ہوئے لیکن وہ دین کے اثبات کے لئے بطور شرط نہیں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب اور کوئی نبی نہیں آنے والا تھا اور دین کا کام امت مسلمہ میں ان کے دینی وارثین کو کرنا تھا جو ظاہر ہے معجزہ دکھلانے کے اہل نہیں تھے اس لئے اس دین کی بنیاد ایمان بالغیب پر رکھی گئی کہ آگ سے ہاتھ جلے گا اسے مان لو ضروری نہیں تم اپنی انگلیوں کو جلا کر یقین کرو۔ اللہ، فرشتے، اللہ کی نازل کی ہوئی مقدس کتابیں، اللہ کے بھیجے ہوئے تمام رسول جن کو ہم جانتے ہیں اور جن کا علم ہمیں نہیں ہے، یوم آخرت اور تقدیر۔ جنت جہنم قبر کی عذاب قیامت، حساب کتاب، جزا و سزا اس فانی محدود مدت کی زندگی کے بعد ابدی زندگی ان سب پر یقین ہمارے ایمان کا جزء لا یتجزا ہے۔

دین اسلام کی اشاعت اسی ایمان بالغیب کی تلقین سے ہوتی رہی تا آنکہ بعض صوفیاء کرام سے بعض خارق العادات باتیں ظاہر ہوئیں جسے عوام نے بطور کرشمہ لیا جبکہ اسلام کی حقانیت کے لئے اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ اسلام ایک اللہ کو بلا شرکت غیرے ماننا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کے بارے میں غیب کی جو باتیں بتائی ہیں اس پر بلا چون و چرا یقین کرنا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شریعت ہمیں دی ہے اس پر عمل کرنا ہے۔ اسلام کی حقانیت کے لئے کشف و کرامات کی ضرورت ہے اور نہ خواب اور اس کی تعبیر کی۔

بزرگوں کی حکایات کی اہمیت فقط اتنی ہے کہ اس سے ان کے معتقدین کے اندر ترغیب و ترہیب پیدا ہوتی ہے۔ ”افریقہ کے جنگل میں تین چلے کی جماعت راستہ بھٹک گئی تین دنوں تک لوگ بغیر کھائے پئے بھوک سے نڈھال موت سے قریب ہو رہے تھے کہ ایک انجان شخص گرم گرم فرائیڈ چکن ہم سب کے لئے لے کر آ گیا“ ۔ ۔ ۔ حضرت یہ من‌ و سلوی کا دور نہیں ہے۔ من و سلویٰ تو لوگوں نے خود ہی بند کرا دیا کہ روز روز ایک قسم کے کھانے کھاتے کھاتے طبیعت اوب گئی ہے۔ کاش ہمیں دال سبزی گاجر مولی کھانے کو ملتے!

بے شمار حکایات ہیں اور بزرگوں کے کشف و کرامات خواب اور ان کی تعبیر ہیں بزرگوں سے اپنی اپنی عقیدت کے مطابق ان پر یقین کریں لیکن خدا را ان حکایات کو دین حنیف کا حصہ نہ بنائیں۔

اسلام بالکل 2 + 2 = 4 دو زائد دو مساوی چار کی طرح ہے۔ مافوق الفطرت کشف و کرامات خواب اور تعبیر سے اسلامی شریعت طریقت اور احکام نہیں بدلتے ہیں خواہ یہ کشف و کرامات اور خواب کی نسبت ولی غوث قطب کی طرف ہو۔ ہمارا ایمان توحید خالص ہو اور بس۔

اسلام مافوق الفطرت نہیں فطرت سے قریب ہے۔ بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھانے سے برکت ہوتی ہے کا مطلب چار روٹیاں تھیں وہ بسم اللہ کی وجہ سے چھ ہو گئیں ایسا نہیں ہے۔ روٹیاں چار ہی رہیں گی لیکن دو روٹی کھانے سے ہی طبیعت سیر ہو جائےگی اور شکم پر محسوس ہوگا۔ برکت کا مفہوم material مادی بڑھوتری نہیں معنوی سیرابی mental satisfaction ہے۔ اب حضرت کے مریدین حکایت بیان کرتے ہیں کہ دسترخوان پر صرف چار روٹیاں تھیں لیکن جیسے ہی کچھ غیر متوقع مہمان شریک دسترخوان ہوئے دسترخوان روٹیوں سے بھر گیا!

اسلام کی حقانیت کے لئے اگر ایسے خارق العادات تصرفات کو پیش کریں گے تو ایسے واقعات اور حکایات تو ہندو تانترک کے بارے میں بھی ملتے ہیں کیا انہیں بھی بر حق مان لیا جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments