اقبال اور مولانا مدنی: چند مزید مباحث


\"fateh\"سب سے پہلے تو میں کمپوزنگ کی ایک غلطی کی تصحیح کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ مرحوم و مغفور ڈاکٹر جاوید اقبال کا نام تحریر سے سہواً غائب ہو کر رہ گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود قابل صد احترام کے الفاظ ہی ڈاکٹر جاوید اقبال کی عظمت کو نمایاں کر رہے ہیں۔

جہاں تک شکاگو میں مقیم میرے محترم بھارتی دوست سی ایم نعیم صاحب نے میرے مضامین میں مسلمان ادیبوں اور شاعروں کی شخصیت و فن پر اسلام کی ادبی اور روحانی روایات کے اثرات کی نشاندہی پر برہمی کا تعلق ہے میں اس میں جانا مناسب نہیں سمجھتا۔ بات یہ ہے کہ بھارت میں آباد ہمارے مسلمان بھائی اپنی اپنی اسلامی شناخت کو دھندلا کر ہی امن و سکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اُنہیں ان کا مسلک مبارک۔

اس مختصر تحریر میں سی ایم نعیم صاحب نے جو سوال اُٹھایا ہے میں اُسکا جواب تیس برس پہلے شائع ہونے والی کتاب بعنوان اقبال فکرو عمل میں دے چکا ہوں۔اس کتاب کے ایک باب کا عنوان ہے۔\”اقبال اثباتِ نبوت اور تصورِ پاکستان\” ۔

ان سوالات پر میں نے اپنے فہم کے مطابق اقبال کا نقطہ نظر پیش کر دیا ہے قارئین کی سہولت کی خاطر مضمون کا مکمل متن پیش کیا جا رہا ہے۔

اقبال اثباتِ نبوت اور تصورِ پاکستان

رواں صدی کی تیسری دہائی میں اسلام کے نام پر تصورِ پاکستان کی مخالفت نے زور پکڑا تو اقبال نے حقیقی اسلام اور اسلام کی ملوکیت پسند اور کلیسا نواز تعبیروں کے درمیان تضاد کو نمایاں کرنے کے لئے مصطفوی اور بولہبی کی خود وضع کردہ اصلاحات کو یوں بلیغ تر کیا\"Allama-Iqbal\":

بہ مصطفی بر ساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ آؤ نہ رسیدی تمام بولہبی است

مگر جب مولانا حسین احمد مدنی کے سے عالمِ دین نے بھی اسلام کی رو سے متحدہ ہندوستانی قومیت کی تائید اور جداگانہ مسلمان قومیت کی تردید پر اصرار کیا تو اقبال نے یوں استدلال کیا:

\”حضور رسالت مآب کے لئے یہ راہ بہت آسان تھی کہ آپ ابو لہب یا ابو جہل یا کفارِ مکہ سے یہ فرماتے کہ تم اپنی بت پرستی پر قائم رہو اور ہم اپنی خدا پرستی پر قائم رہتے ہیں مگر اس نسلی اور وطنی اشتراک کی بنا پر، جو ہمارے درمیان موجود ہے، ایک وحدتِ عرضیہ قائم کی جا سکتی ہے۔اگر حضور نعوذ بااللہ یہ راہ اختیار کرتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی،لیکن نبی آخرالزمان کی راہ نہ ہوتی۔ نبوت محمدیہ کی غائت الغایات یہ ہے کہ ایک ہئتِ اجتماعیہ انسانیہ قائم کی جائے جس کی تشکیل اس قانونِ الہٰی کے تابع ہو جو نبوتِ محمدیہ کو بار گاہِ الہٰی سے عطا ہوا تھا اور اس طرح اس پیکرِ خاکی کو وہ ملکوتی تخیل عطا کیا جائے جو اپنے وقت کے ہر خطے میں بھی \”ابدیت\” سے ہمکنار رہتا ہے۔ یہ ہے مقامِ محمدی، یہ ہے نصب العین ملتِ اسلامیہ کا ! \”

گویا تصور پاکستان،مقامِ محمدی کے اثبات اور سیرتِ طیبہ پر تخلیقی غور و فکر سے پھُوٹا ہے:

بر عیار مصطفی خود را زند

تا جہان، دیگر، پیدا زن

\"dr-allama-muhammad-iqbal\"(پس چہ باید کرد اے اقوامِ مشرق)

اور:

نقش نو نر صفحہ ہستی کشید

امتے گیتی کشائے آفرید

امتے از ماسوا بیگانہ

برچراغ مصطفی پروانہ

(رموز بیخودی)

ستم ظریفی دیکھیئے کہ جب اسلامیان ہند اس جہان دیگر، اس نقش نو کی تخلیق میں سر گرم عمل ہوئے تو تو خود ان کے بیشتر دینی حلقے اس نئی دنیا کو جانے والی راہیں مسدود کرنے میں کوشاں ہو گئے۔ سنہ 1938ء میں جب مولانا حسین احمد مدنی نے متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصور کی تائید میں کہا کہ \”اقوام اوطان سے بنتی ہیں\” تو اقبال نے اس طرز استدلال کو افرنگ سے آئے ہوئے لات و منات کی پرستش قرار دیتے ہوئے لکھا:

\”زمانے کا الٹ پھیر بھی عجیب ہے۔ایک وقت تھا کہ نیم مغرب زدہ پڑھے لکھے مسلمان اس تفریح میں گرفتار تھے۔ اب علماء اس لعنت میں گرفتارہیں۔۔ مصیبت کی طرح گمراہی بھی تنہا نہیں آتی۔ جب کسی مسلمان کے دل و دماغ پر وطنیت کا وہ نظریہ غالب آ جائے جس کی دعوت مولانا دے رہے ہیں تو اسلام کی اساس میں طرح طرح کے شکوک کا پیدا ہوجانا ایک لازمی امر ہے۔ وطنیت سے قدرتاً افکار حرکت کرتے ہیں اس خیال کی طرف کہ بنی نوع انسان اقوام میں اس طرح بٹے ہوئے ہیں کہ ان کا نوعی اتحاد امکان سے خارج ہے۔ اس دوسری گمراہی سے ادیان کی اضافیت کی لعنت پیدا ہوتی ہے، یعنی یہ تصور کہ کہ ہر ملک کا دین اس ملک کے لئے خاص ہے اور دوسری اقوام کی طبائع کے موافق نہیں۔اس تیسری گمراہی کا نتیجہ سوائے لادینی اور دہریت کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہ ہے نفسیاتی تجزیہ اس تیرہ بخت مسلمان کا جو اس روحانی جذام میں مبتلا ہو جائے 2۔ \”

ہندی مسلمانوں کو وطنیت اور قومیت کے مغربی تصورات میں الجھانے والوں کو اقبال بڑی دردمندی کے ساتھ مقام محمدی کی طرف متوجہ کرتے ہیں:\"Dr-Allama-Iqbal-on-seat1\"

کسے کو پنجہ زد ملک و نسب را

نہ داند نکتہ دین عرب را

اگر قوم از وطن بودے محمد

نداد ے دعوت دیں بولہب را

اسلام کے اجتماعی نصب العین کے باب میں انتشار نطر کو فکری وحدت میں ڈھالنے کی خاطر اقبال نت نئے پیرائے میں اپنے عہد کے مسلمان کو بولہبی ترک کر کے واقعتاً مسلمان بن جانے کی تلقین کرتے ہیں:

اقبال کے نزدیک ابدی حقیقت یہ ہے کہ عشق تمام مصطفیؐ، عقل تمام بو لہب مگر اقبال کے عہد کی دنیائے اسلام کا منظر یہ ہے :

در عجم گردیدم و ہم در عرب

مصطفیؐ نایاب و ارزان بو لہب

ایں مسلماں زادۂ روشن دماغ

ظلمت آباد ضمیرش بے چراغ

ایں ز خود بیگانہ ، ایں مست فرنگ

نان جو می خواہد از دست فرنگ

یہ مست فرنگ مسلمان نسل اور قومیت کے فرنگی لات و منات کی پرستش میں مگن ہو کر شعار مصطفیؐ سے بیگانہ ہو چکا ہے، اس لئے سچے دانش ور پر لازم ہے کہ : \"madni\"بو لہب را حیدر کرار کن ۔ اور:

غنچہ از شاخسار مصطفیؐ

گل شو از باد بہار مصطفیؐ

اینا میری شمل نے صوفیاء کے ہاں عشق رسولؐ کے بیان میں اس حقیقت کی جانب بجا طور پر اشارہ کیا ہے کہ دنیائے اسلام پر مغربی طاقتوں کے مادی اور روحانی غلبے کے خلاف جہاد کرنے والے مسلمانوں کے لئے حضور نبی کریمؐ کی ذات والا صفات قوت کا سب سے بڑا سر چشمہ تھی۔ چنانچہ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں برطانوی اور فرانسیسی استعمار کے خلاف سر بکف مجاہدوں کے سب سے بڑے رفیق و رہنماء خود محمد مصطفیؐ تھے 3۔ میں اس حقیقت کو صرف دو صدیوں تک محدود نہیں سمجھتا۔ صرف مسلمانان بر صغیر کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر ایسے نازک موڑ پر جب اسلامی ہند کی منفرد دینی اور تہذیبی ہستی کو ایک سیل فنا کا سامنا تھا، کسی نہ کسی مرد درویش نے \”بہ مصطفی برساں خویش را  کہ دیں ہمہ اوست\” کی تابناک راہ دکھا کر ہماری اجتماعی ہستی کو ہلاکت آفریں بحران سے نجات بخش دی۔ اکبر کے عہد میں جب مقام رسالتؐ کی نفی سے دین الہٰی کی تشکیل عمل میں لائی گئی تو حضرت مجدد الف ثانیؒ نے بے مثال جرأت کے ساتھ مقام رسالتؐ کا اثبات کیا۔ اپنے رسالہ \”اثبات میں نبوت\” کی تمہید میں لکھتے ہیں:

\”۔۔ اور میں نے جان لیا کہ شک اور انکار کا مرض وسیع ہو گیا ہے یہاں تک علاج کروانے والے بھی مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں اور مخلوق ہلاکت کے قریب ہو گئی ہے۔۔ جب میں نے دیکھا کہ یہ میری ذات پر ایک حق واجب ہے اور ایک لازمی قرض ہے جو بغیر ادئیگی کے ساقط نہیں ہوتا تو میں نے ایک رسالے کی تالیف کی اور ایک مقالہ لکھا اصل نبوت کا مطلب ثابت کرنے میں۔ پھر خاتم الرسل (علیہ من الصوۃ انضلہاومن التحیات اکملہا \” کے حق میں،اس کے ثبوت اور تحقیق کے بیان میں اور منکرین اور اس کی نفی کرنے والوں کے شبہ کے رد میں اور فلسفے کی مذمت اور ان کی کتابوں کے مطلعے سے جو ضرر حاصل ہوتا ہے اس کے بیان میں ایک مقالہ دلائل و براہین کے ساتھ لکھا جو میں نے قوم کی کتابوں سے اخذ کئے اور اس پر اضافہ اور الحاق کیا جو میرے درماندہ دل پر ظاہر ہوا، اللہ ملک جلیل کی مدد سے 4۔ \”

ملوکیت کی چاکری میں مصروف فلسفیوں کی عقلیت پسندی اور \” مسلمانان ہندو مزاج \” کی ابن الوقتی کے باعث مغل ہندوستان میں اسلام کی غربت و بے چارگی اس انتہا \"maulana-madni\"کو پہنچ گئی کہ 1578ء میں جمعہ کے خطبہ میں سے آنحضورﷺ کا نام تک خارج کر دیا گیا اور یوں محسوس ہونے لگا کہ\”عالم در دریائے بدعت غرق گشتہ است 5۔\”ایسے میں اقبال کے لفظوں میں اللہ نے حضرت مجدد کو بروقت خبردار کیا اور وہ ہند میں سرمایہ ملت کے نگہبان بن کر صرف زبان و قلم ہی نہیں نقد جاں لے کر میدان میں اترے:

\”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:من مطع الرسول فقد اطاعاللہ۔اللہ تعالیٰ آپ کو رسول اللہ ﷺ کی میراث معنوی کے شرف سے بھی نوازے جس طرح اس نے آپ کو میراث ظاہری کے اعزاز سے بہرہ مند فرمایا ہے۔میراث معنوی کا حصول اتباع رسول کے بغیر ناممکن ہے لہٰذا آپ پر رسول ﷺ کی اطاعت و اتباع فرض ہے۔۔کمال محبت کی علامت یہ ہے کہ انسان رسول ﷺ کے دشمنوں سے دوستی اور مصلحت کا روادار نہیں ہو سکتا۔۔متاع دنیا تو فریب محض ہے۔آخرت کے معاملے کا انحصار اس پر ہے۔نجات کی امید اسی شخص کو ہو سکتی ہے جو دنیا کی چند روزہ زندگی رسول اللہ ﷺکی اطاعت و اتباع میں بسر کرے گا،ورنہ جو نیک عمل بھی کرے گا بے کار اور بے فائدہ ہو گا6۔ \”

دین ملوک کی نفی اوردین محمدؐ کے اثبات کی جدو جہد میں قید و بند کے کٹھن مراحل بھی آئے مگر حق کی راہ میں استقامت نے بالآخر جہانگیر کی گردن حضرت مجدد کے سامنے جھکا دی اور یوں اسلامیان ہند کی جداگانہ دینی اور تہذیبی ہستی فنا ہونے سے بچ گئی۔اثبات نبوت نے انہیں اپنی کھوئی ہوئی شناخت لوٹا دی۔وحدت الوجود کو وحدت الشہود ثابت کر کے حضرت مجدد نے \”فنا فی اللہ \”کی بجائے \”بقاباللہ \”کو صوفی کی آخری منزل قرار دیا۔ وحدت الوجود کے تصور کی یہ نئی تعبیر اسلامی تصوف کی ویدانتی تعبیروں پر چھا گئی اور یوں محسوس ہونے لگا جیسے اسلامیان ہند میں شرار بو لہبی ہمیشہ کے لئے بجھ کر رہ گیا ہو اور چراغ مصطفوی کی روشنی کراں تا کراں پھیل گئی ہو۔ مگر یہ فقط احساس تھا۔ فی الواقع شرار بولہبی بجھا نہ تھا، صرف راکھ میں دب گیا تھا۔ اسلامیان ہند کے ذہنی افق پر مصطفیؐ اور بو لہب کی یہ کشمکش اندر ہی اندر جاری رہی اور تقریباً ایک صدی بعد پھر سے بحرانی شکل اختیار کر کے شاہجہان کے دو بیٹوں کے نظریاتی تصادم میں از سر نو ظاہر ہوئی۔

ہندوستان کی مخصوص فضا میں عقیدۂ وحدت الوجود کی ویدانتی تعبیروں کے زیر اثر اسلامیان ہند میں دو اہم متصادم فکری دھارے نمودار ہوئے۔ایک فکری دھارے کے ساتھ بہتے ہوئے اکبر اور اس کے درباری دانشوروں نے بر صغیر کی تمام قوموں کی جداگانہ دینی اور تہذیبی شناخت مٹا کر ایک کدا اور ایک بادشاہ کی پرستش کے تصور کی اساس پر ایک متحدہ ہندوستانی شناخت پیدا کرنے کی کوشش کی۔اس کے ردعمل میں حضرت مجدد الف ثانیؒ اور ان کے پیروکار نقشبندی صوفیاء نے ایک دوسری فکری لہر کو جنم دیا۔ان لوگوں نے اسلامیان ہند کی منفرد اور جداگانہ شناخت کی بقا اور استحکام پر زور دیا اور اثبات نبوت کا اہتمام کیا، کیونکہ اسلام کی منفرد دینی شناخت حضور نبی اکرمؐ کی سیرت پاک ہی سے متعین ہوتی ہے۔اول الذکر فکر کو ارباب اقتدار نے سنگینوں کے زور سے نافذ کرنے کی کوشش کی اور ثانی الذکر فکر کے علمبردار بے سرو سامان درویشوں نے عامتہ المسلمین کی دینی بصیرت پر بھروسہ کیا۔ اجماع نے درویشوں کا ساتھ دیا۔

اور بادشاہ اقتدار کو بچانے کی خاطرسمجھوتے پر مجبور ہو گیا۔نقشبندی صوفیاء نے شریعت اور طریقت کی اصلاح کا کام جاری رکھا مگر دوسری فکر بھی اندر ہی اندر \"dr-allama-muhammad-iqbal-single-photo-2\"پنپتی رہی اور بالآخر یہ دو متضاد فکری دھارے دو بھائیوں کے ضمیر میں منتقل ہو کر ایک خاص وقت میں اسلامیان ہند کے لئے زندگی اور موت کی کشمکش بن گئے۔

اورنگزیب اور دارا شکوہ دونوں صوفی تھے ایک نقشبندی اور دوسرا قادری۔ اورنگزیب حضرت مجدد الف ثانیؒ کے بیٹے خواجہ محمد معصوم کے مرید تھے۔بحیثیت گورنر اپنے قیام ملتان کے دوران خواجہ محمد معصوم کے درس میں شریک ہوا کرتے تھے۔ اپنے دور اقتدارمیں اورنگزیب نے خواجہ محمد معصوم کے فرزند شیخ سیف الدین کو بطور فکری رہنما اپنے ساتھ رکھا اور ان کے زیر اثر حضرت مجدد کے افکار کو عملی زندگی کے قالب میں ڈھالنے میں کوشاں رہے۔ایسی ہی ایک کوشش مدرسہ رحیمیہ کا قیام تھا اور یہ وہ درسگاہ ہے جس سے شاہ ولی اللہ کی دینی و سیاسی تھریک پھوٹی اور جہاں سے 1804ء میں شاہ عبدالعزیز نے برطانوی استعمار کے خلاف اپنا مشہور فتویٰ شائع کیا اور جہاں سے سید احمد شہید بھی اٹھے تھے اور سر سید احمد خان بھی۔

دارا شکوہ عمر بھر اپنی فکری استعداد اور اپنے شاعرانہ تخیل سے یہ ثابت کرنے میں کوشاں رہے کہ ہندومت اور اسلام کی روح ایک ہے۔انہوں نے\”بھگوت گیتا\”کے ساتھ ساتھ \”سر اکبر\”کے عنوان سے 25 اپنشدوں کا فارسی میں ترجمہ کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اپنشد ہی وہ کتاب مکنون ہے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے ۔اس سلسلے میں دارا شکوہ کی اہم ترین کتاب \”مجمع البحرین\” ہے جس میں انہوں نے برہمن ودیا اور اسلام کے اساسی تصورات کو ایک کر دکھانا چاہا ہے۔ اسلامی فکر اور ویدانتی فلسفے کے دو الگ الگ سمندروں کو یکجا کر نے کی لاحاصل تمنا میں دارا شکوہ نے\” لکھی۔ ہندومت اور اسلام کے درمیان مماثلث اور اشتراک کے پہلوؤں کی تلاش میں انہوں نے وشنو کو میکائیل، مہادیو کو اسرافیل،منو کو جبرئیل اور برہمن کو آدم قرار دیا۔ مسلمانوں میں تو اس کتاب کی کیا پذیرائی ہونا تھی خود ہندوؤں میں بھی\” مجمع البحرین\” کو دارا شکوہ کی ناکام ترین کتاب قرار دیا جاتا ہے۔ بکر ماجیت حسرت نے اس کتاب کو\” پر تصنع\” بے روح اور بے جان لفاظی اور کسی روحانی عظمت یا کسی گہری فکر سے عاری کتاب7\” قرار دیا ہے۔اورنگزیب اور دارا شکوہ کے درمیان تخت نشینی کی جنگ نظریاتی جنگ بھی تھی اور اس جنگ میں اورنگزیب کی فتح اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ عامتہ المسلمین اثبات نبوت سے اسلامیان ہند کی جداگانہ دینی اور تہذیبی ہستی کی بقا چاہتے تھے اور اسلامی فکر کے سمندر کو ہندو فکر کے سمندر میں ضم \"iqbal-cordoba\"کرنے کے حق میں نہ تھے۔ یہ بات نقشبندی فکر کی ہمہ گیر مقبولیت کا زندہ ثبوت ہے کہ اورنگزیب کی وفات سے لے کر 1857ء تک اسلامیان ہند کی ہر نئی نسل میں ایسے ارباب نظر نمودر ہوتے رہے جو نقشبندی مسلک کے اندر رہتے ہوئے عصری مسائل کی روشنی میں فکرو عمل کے نئے راستے تراشتے رہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کی دینی اور سیاسی تحریک تیزی سے پھیلتے ہوئے سیاسی انتشار اور معاشرتی ابتری کی فضا میں اصلاح سے لے کر جہاد تک کے مراحل طے کرتی چلی گئی۔ خواجہ میر درد کے والد محمد ناصر عندلیب نے نقشبندی مسلک کے ساتھ اٹوٹ وابستگی پر اصرار کرتے ہوئے \” طریقہ محمدیہؐ\” کی بنیاد رکھی اور بقول اینا میری شمل:

\” انیسویں صدی میں تصوف کے ارتقا کا نمایاں ترین پہلو یہ ہے کہ ایک بار پھر حضور نبی کریمؐ کی ذات کو مرکزی حیثیت دے دی گئی۔ ہندوستان میں میر درد اور مجاہد آزادی سید احمد بریلوی نے اپنے صوفیانہ مسلک کو طریقہ محمدیہؐ کا نام دیا8۔ \”

طریقہ محمدیہؐ تصوف کے نقشبندیہ مجددیہ مسلک کی ایک شاخ ہے اور اس کے پیروکار اس خالص اسلام کی جستجو میں سرگرم عمل رہے جو رسول کریمؐ کے عہد میں مروج تھا9۔ بیسویں صدی میں اقبال نے اسلامیان ہند کو ایک جداگانہ مملکت کے قیام کی راہ دکھائی تاکہ اسلام کو عرب ملوکیت سے نجات دلا کراس کی حقیقی روح کی باز یافت کی جا سکے۔جب مذہبی بنیادوں پر تصور پاکستان کی مخالفت شروع ہوئی تو اقبال نے ہمارے دینی پیشواؤں کو حضور نبی کریمؐ کی سیرت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ \”اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است\”۔ اقبال کو اپنے عہد سے سب سے بڑی شکایت ہی یہ تھی کہ:

عصر ما ، مارا زما بیگانہ کرد

از جمال مصطفی بیگانہ کرد

چنانچہ ہندوستان کے بین الاقوامی سوال کو حل کرنے کا مرحلہ آیا تو اقبال اسلامیان ہند سے یوں مخاطب ہوئے\"javed-iqbal2\":

عقدۂ قومیت مسلم کشود

از وطن آقائے ما ہجرت نمود

حکمتش یک ملت گیتی نورد

بر اساس کلمہ تعمیر کرد

تاز بخشش ہائے آں سلطان دیں

مسجد ما شد ہمہ روئے زمیں

قصہ گو یاں حق زما پوشیدہ اند

معنی ہجرت غلط فہمیدہ اند

ہجرت آئین حیات مسلم است\"zafar-iqbal\"

ایں ز اسباب ثبات مسلم است

صورت ماہی بہ بحر آباد شو

یعنی از قید مقام آزاد شو

ابو لہب اور ابو جہل کو اسلام سے جن وجوہات کی بنا پر دشمنی تھی ان میں سے بنیادی وجہ اقبال نے\” جاوید نامہ\” میں یوں بیان کی ہے:

مزہب او قاطع ملک و نسب

از قریش و منکر از فضل عرب

از نگاہ او یکے بالا و پست

با غلام خویش بریک خواں نشست

قدر احرار عرب شناختہ

با کلفتان حبش در ساختہ

\"dr-allama-muhammad-iqbal-in-cordoba-1933\"

احمراں با اسوداں آمیخقند

آبرو ئے دودمانے ریخقند

ایں مساوات این مواخات اعجمی است

خوب می دانم کہ سلماں مزدکی است

اسلام کا یہ انقلابی تصور اقبال کے عہد کی دنیائے اسلام میں ناپید تھا۔ جب اقبال کو یہ تصور کہیں بھی جاری و ساری نظر آیا اور انہون نے اپنے زمانے کے مکتلف مسلمان معاشروں میں بو لہبی کا فروغ روز افزوں پایا تو تمنا کی کہ:

تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے

طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے

تصور پاکستان جما ل مصطفیؐ کو بے حجاب دیکھنے کی اسی انقلابی آرزو مندی کا پرتو ہے۔

حواشی

1۔حسین احمد کے نام، حرف اقبال ، صفحہ249، روزنامہ، احسان، لاہور، بابت 9 مارچ1938ء

2 ۔ حسین احمد کے نام ۔۔۔۔ روزنامہ، احسان، لاہور، بابت 9 مارچ1938ء

3 ۔\”مسٹیکل ڈائمنشنز آف اسلام\”ص227۔

4 ۔ صفحہ52-51 ۔ترجمہ و اشاعت ادارۂ مجددیہ،ناظم آباد کراچی۔

5 ۔ مکتوباتِ مجدد الف ثانی،جلد دوم،ص1-3۔

6 ۔شیخ فرید کے نام مکتوب،دفتر اول، مکتوب164۔

7 ۔دارا شکوہ۔۔۔۔۔۔۔۔لائف اینڈ ورکس،ازبکر ماجیت حسرت، مطبوعہ واشوا بھارتی شانتی نکتین،ص216۔

8 ۔ \”مسٹیکل ڈائمنشنز آف اسلام\”ص-4-3

9 ۔تفصیلات کے لئے دیکھئے کتاب \”شاہ ولی اللہ اینڈ ہز ٹایمز\”از سید اطہر عباس رضوی، صفحات343تا357۔ مطبوعہ،معرفت پبلشنگ ہاؤس،کینبرا،آسٹریلیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments