میاں صاحب، ٹرکش ماڈل اختیار کریں اور پاکستان کو عظیم بنائیں


\"nawaz-erdoganw\"

ہم پاکستانی کافی پریشان رہتے ہیں کہ آخر کون سا ماڈل اختیار کیا جائے تاکہ ملک ترقی کرے۔ مقامی دیسی جمہوری ماڈل کو ہم بار بار مسترد کر کے مارشل لائی ماڈل لاتے ہیں اور وہ ڈیلیور نہیں کرتا ہے تو پھر واپس جمہوری ماڈل پر پلٹ جاتے ہیں۔ ولایتی ماڈل تو خیر کفار کی ایجاد ہیں، اس لئے ہم ان کی کامیابی کو ہم قابل اعتنا نہیں جانتے ہیں۔ ہاں مسلم ماڈلوں پر ہماری نظر ہے۔ ہم کبھی کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش ماڈل چلایا جائے، کبھی ملائیشین ماڈل کی بات کرتے ہیں، تو کبھی ٹرکش ماڈل کو بہتر جانتے ہیں۔

بنگلہ دیش تو خیر ہمارا دشمن ملک ہے، اور ویسے بھی وہ سیکولر ہو گیا ہے، اس لئے اسے ایک طرف رکھ دیں۔ ملائشیا کا ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہے اس لئے اس کے ماڈل بھی ٹھیک طرح سے اندازہ نہیں ہو رہا ہے کہ کیا ہے۔ ہاں ٹرکش ماڈل بہترین ہے۔ اسے ہم خوب جانتے ہیں۔ بلکہ ہمارے حکمران اور ان سے بھی بڑھ کر جماعت اسلامی کے اصحاب تو خاص طور پر ان کے بڑے مداح ہیں۔ تو آئیے ٹرکش ماڈل کے اہم نکات کی روشنی میں پاکستان میں لائی جانے والی اہم تبدیلیوں کی بات کرتے ہیں تاکہ پاکستان بھی ترقی کر سکے۔

ٹرکش ماڈل کے تحت آئین میں تبدیلی

\"erdogan-mursi2\"

جب مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت آئی تو جماعت اسلامی سے بھی بڑھ کر صدر رجب طیب ایردوان نے خوشی کا اظہار کیا۔ وہ فوراً مصر پہنچے اور ایک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں مصر کے لئے سیکولر آئین تجویز کرتا ہوں۔ ایک سیکولر ریاست تمام مذاہب کی عزت کرتی ہے۔ سیکولرازم سے خوفزدہ مت ہوں۔ سیکولرازم کا مطلب مذہب کا انکار کر دینا نہیں ہے۔ سیکولرازم مذہب کا دشمن نہیں ہے‘۔ انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک سیکولر ریاست کے مسلمان وزیراعظم ہیں۔ ستمبر 2011۔

ٹرکش ماڈل کے تحت تعلیمی اور سماجی اصلاحات

مصر کے اسی دورے میں صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ مصر کو ایک جدید ریاست میں تبدیل ہونے کے لئے چند بنیادی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ تعلیم پر توجہ، شہریوں کو ترقی دینا، معاشی ذرائع کی بہتر مینیجمنٹ، اور کرپشن کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔

\"turkey-school\"

صدر رجب طیب ایردوان کی پارٹی ترکی میں پچھلے پندرہ برس سے برسر اقتدار ہے اور مصطفی کمال اتاترک کے بعد وہ جدید ترکی کی تاریخ کے سب سے زیادہ طاقتور حکمران ہیں۔ ان کے عام شہری سکولوں میں مذہبی تعلیم پر پابندی عائد ہے۔ طالبات سکرٹ پہنتی ہیں۔

صدر رجب طیب ایردوان کے ترکی میں خواتین کو اپنی پسند کا لباس پہننے کی مکمل آزادی حاصل ہے، خواہ وہ حجاب لیں یا بکنی پہن کر بیچ اور نائٹ کلبوں میں گھومتی پھریں، کوئی شرطہ ان سے پوچھ تاچھ نہیں کرتا ہے۔

یہی حال شراب خانوں کا ہے۔ ہر جگہ شراب کھلے عام دستیاب ہے۔ بلکہ ترکی کی سونف کی بنی ہوئی روایتی شراب راکی تو خلافت عثمانیہ کے پانچ سو سالہ دور میں بھی ملک کا مقبول مشروب رہی ہے۔

\"turkey-night-club\"

تھکے ہارے ترک باشندوں کو کچھ راحت پہنچانے کی خاطر شام کو ان کی تفریح طبع کے لئے نائٹ کلب موجود ہیں جو کہ بہت ارزاں سے لے کر بہت مہنگے ٹکٹ کے ذریعے ہر معاشی طبقے کی پہنچ میں ہیں۔ آپ عربی، یورپی، مصری غرض ہر طرح کے رقص سے حظ اٹھا سکتے ہیں۔

کھیل کے میدان میں بھِی ترک خواتین اور یورپی خواتین میں فرق کرنا آپ کے لئے مشکل ہو گا۔ ایک جیسا لباس، ایک جیسے بال اور ایک جیسے کھیل۔ ٹرکش ماڈل میں پاکستانی خواتین بھی اسی انداز میں دوڑتی بھاگتی دکھائی دیں گی۔

ٹرکش ماڈل کے تحت اسرائیل سے اچھے تعلقات قائم کرنا

\"rajab-erdogan-israel\"

صدر رجب طیب ایردوان نے جنوری 2016 میں فرمایا تھا کہ ’ترکی کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ اسے اسرائیل اس کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کو بھی اس خطے میں ترکی جیسے ملک کی ضرورت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے‘۔

اگر غور کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت آگے ہے۔ بے شمار نوبل انعام جیتتا ہے۔ یہ جو ہم گوگل، فیس بک اور مائکروسافٹ کے پروگرام استعمال کرتے ہیں، ان میں سے بہت سے ان کمپنیوں کے اسرائیلی دفاتر میں بنائے گئے ہیں۔

\"erdogan-israel-palestine\"

اسرائیل جدید ترین ہتھیار بھی بناتا اور ایکسپورٹ کرتا ہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی اسرائیل سے ٹیکنالوجی حاصل کر رہا ہے۔ اسرائیل کا میزائل شکن نظام تو ایسا جدید ہے کہ وہ میزائل کے علاوہ چھوٹے بڑے راکٹ بھی گرا سکتا ہے۔ بھارت بھی یہ اسرائیلی نظام خرید کر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو ناکارہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں ہمیں صدر رجب طیب ایردوان کے فرمان کے مطابق یہ مان لینا چاہیے کہ ’ہمیں اسرائیل کی ضرورت ہے اور اسرائیل کو بھی اس خطے میں پاکستان جیسے ملک کی ضرورت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے‘۔ پاکستان کو ٹرکش ماڈل پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل کو ایک دوست ملک قرار دے دینا چاہیے اور فلسطینیوں کی زبانی کلامی مدد کرتے رہنا چاہیے۔

ٹرکش ماڈل کے تحت ملکی دفاع پر توجہ

پاکستان کے ملکی بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہماری دفاعی ضروریات پر خرچ ہوتا ہے۔ ہماری سالمیت کو خاص طور پر اپنے ازلی دشمن بھارت سے بہت بڑا خطرہ لاحق ہے۔ ترکی کی بھی یہی صورت حال تھی۔ پچھلے دو تین سو سال سے وہ مسلسل ایک عالمی طاقت روس سے برسرپیکار رہا ہے۔ ترکی نے عقل مندی سے کام لیا اور نیٹو کا حصہ بن گیا۔

\"turkey-marmara\"

اس نے اپنے ملک میں کئی فوجی اڈے امریکہ اور یورپی ممالک کو دے دیے اور نیٹو کا حصہ ہونے کی وجہ سے ترکی پر کسی ملک کے حملے کی صورت میں یہ ملک اپنی فوجوں کے ساتھ اس کے دفاع کے پابند ہو گئے۔ نیٹو کا یہ بندوبست صدر رجب طیب ایردوان کو بھی پسند ہے، اسی وجہ سے انہوں نے پچھلے پندرہ برس سے اس سے نکلنے کا اشارہ تک نہیں دیا ہے۔ بلکہ امریکہ تو ایف سولہ جیسے ہتھیار بھی ترکی کے اندر بنا رہا ہے۔ امید ہے کہ پاکستان کو بھِی امریکہ سے دفاعی معاہدے کرنے اور فوجی اڈے دینے کے بعد ترکی جیسا سکونِ قلب اور مضبوط دفاع ملے گا اور بچایا گیا پیسہ تعلیم اور شہریوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گا۔ بھارت بھی پاکستان کی جانب میلی نظریں نہیں ڈال پائے گا۔

ٹرکش ماڈل کے تحت تمام پڑوسیوں سے لڑائی

\"erdogan-war\"

مصطفی کمال اتاترک کے دور سے ترک جمہوریہ کی یہ پالیسی چلی آ رہی تھی کہ کسی پڑوسی کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دینا ہے اور سب ہمسایوں سے اچھے تعلقات رکھنے ہیں۔

صدر رجب طیب ایردوان نے اس پالیسی پر نظرثانی کی۔ اب ترکی کے تعلقات شام، عراق اور مصر سے بے حد خراب ہیں۔ شام اور عراق میں تو صدر ایردوان کی فوجیں بھی حملے کرنے میں مصروف ہیں۔ ایران سے بھی مستقل ٹینشن اور پراکسی وار چل رہی ہے۔

اس معاملے میں ہماری موجودہ پالیسی کی توثیق ہی ہوتی ہے کہ ہم پہلے ہی صدر رجب طیب ایردوان کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔

ٹرکش ماڈل کے تحت پریس پر پابندی

\"turkey-journalists\"

ٹرکش ماڈل کی متذکرہ بالا اہم اور بنیادی تبدیلیاں کرنا آسان نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ ملکی اخبارات اور میڈیا حکومت کے ہر اچھے کام پر ناجائز اور ناروا شور مچاتے ہیں۔ صدر رجب طیب ایردوان کے ٹرکش ماڈل کا فالو کرتے ہوئے ہر ایسے اخبار اور ٹی وی چینل کو حکومتی کنٹرول میں لے لینا چاہیے جو کہ ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم محترم نواز شریف صاحب پر معمولی سی تنقید بھی کرتا ہے اور ہر ایسے صحافی کو پانچ دس برس کے لئے جیل میں ڈالنا چاہیے جو کہ ہمارے محبوب وزیراعظم اور قابل احترام صدر کے بارے میں الٹی سیدھی خبریں دیتا ہے۔ ٹرکش ماڈل میں ہمارے لئے اس ضمن میں بہت روشن مثالیں موجود ہیں۔ ماشا اللہ اب سارا ٹرکش میڈیا سیدھا ہو گیا ہے۔

ٹرکش ماڈل کے تحت اپوزیشن کو بلڈوز کرنا اور جماعت اسلامی پر پابندی

\"turkey-hdp-altinorsdha\"

سب سے پہلے تو ٹرکش ماڈل سے یہ جان لینا چاہیے کہ اپوزیشن کی جماعتیں غدار ہوتی ہیں اور ان کو غداری کے جرم میں جیل میں ڈال دینا چاہیے اور ان کو ووٹ دینے والے علاقوں پر بمباری کرنی چاہیے۔ ایچ ڈی پی اور اس کے کرد ووٹر شہروں پر فوج کشی سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر یہ عمران خان اور تحریک انصاف ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم کو بہت زیادہ دق کر رہے ہیں۔ ٹرکش ماڈل کے تحت ان پر سب سے پہلے توجہ دی جانی چاہیے۔

لیکن سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ملک میں کسی منظم اسلامی فکری تحریک کو نہ ابھرنے دیا جائے۔ خاص طور پر ایسی کوئی تحریک برداشت نہیں کی جانی چاہیے جو کہ جدید تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے طبقات میں اثر پیدا کرنے کی خواہاں ہو اور اس کی تعلیمات سے متاثرہ مسموم ذہن والے افراد ملک کی فوج، عدلیہ، انتظامیہ اور نظام تدریس میں اہم عہدوں پر فائز ہوں۔

\"turkey-police\"

ایسی جماعت کے بانی کی کوئی بھی تحریر یا تصویر اگر کسی شخص کے گھر سے ملے، تو اسے ملک دشمن تصور کیا جانا چاہیے، فوراً ملازمت سے نکال دیا جانا چاہیے، اور اگر ایسے افراد کسی ادارے کے مالک ہوں، تو اس ادارے کو قومی تحویل میں لے لیا جانا چاہیے۔

آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ ٹرکش ماڈل قطعی غیر مبہم الفاظ میں جماعت اسلامی اور سید مودودی کا ذکر کر رہا ہے۔

قدم بڑھاؤ میاں نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ٹرکش ماڈل لاؤ پاکستان کو عظیم بناؤ۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments