موت ہماری محسن نکلی


افروز ہمایوں

\"afroz\"موت۔۔۔ جس کے تصور سے ہر شخص لاشعوری طور پر اجتناب برتنا چاہتا ہے کیونکہ موت کے تصور سے ہی اُسے جُھرجُھری آجاتی ہے۔ مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ موت کو شکست دے کر بھی زندگی سسکنے کے لئے زندہ رہ جاتی ہے۔ زندگی کا سسکنا یا زندگی کا مسکرانا بھی انسان کے بس میں نہیں اور موت کا قہقہے لگانا بھی۔ موت کے قہقہے تب ہی گونجتے ہیں جب وہ زندگی کو سسکتا چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ \”میں موت سے نہیں ڈرتا اسی لئے تو میں فوج میں جانا چاہتا ہوں\” یہ الفاظ محمد احمد کے تندرست توانا اور امیدوں سے روشن دماغ میں گونج رہے تھے۔ \”ہاں میں محاذِ جنگ پر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا چاہتا ہوں\”۔ محمد احمد حسین جو کیڈٹ کالج لاڑکانہ کا طالب علم ہے۔ اُس بدنصیب کے خوابوں کو وحشت اور درندگی کی دیوی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ جس موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ دیکھنا چاہتا تھا وہ اس کی زندگی کو سسکتا چھوڑ کر قہقہے لگاتی فرار ہوگئی۔ وہ سوچنا چاہتا تھا اپنی سوچوں کو نئے روپ دینا چاہتا تھا مگر نہ جانے اُس کے ذہن میں جو خواب سجے تھے وہ اب بکھری ہوئی شکل میں موجود بھی ہیں کہ نہیں۔ وہ بولنا چاہتا تھا کیونکہ اُس نے سُن رکھا تھا کہ بولنے کا احساس انسان کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتا ہے۔ بڑی مشقت سے اُس کی ماں نے بچپن میں اُسے آواز کو لفظوں کا روپ دینا سکھایا تھا۔ مگر ظالموں نے اُسے نہ سوچنے جیسا چھوڑا نہ بولنے جیسا۔ اِس زور سے اُس کا گلہ دبایا کہ اُس کی گردن کی ہڈیاں ٹوٹنے کی وجہ سے اُس کے دماغ کا رابطہ اُس کی زبان سے منقطع ہوگیا۔

محمد احمد حسین۔۔۔ جس کے تینوں نام پاک ہستیوں کی نسبت سے رکھے گئے تھے۔ اِن ناموں کی فضیلت بھی اُسے بربریت سے محفوظ نہ رکھ سکی۔ وہ ظالم مبینہ طور پر اُس کے اساتذہ تھے۔ جن کے بنیادی فرائض میں محمد احمد کے دماغ کو روشن کرنا، اُس کی سوچوں کی درست سمت متعین کرنا اور اُس کی قوتِ اظہار کو پروان چڑھانا شامل تھے۔ اُس کا غریب باپ جو پیشے کے اعتبار سے خود بھی ایک اُستاد ہے۔ اپنے ہم پیشہ لوگوں کے ستم کا شکار ہونے کے بعد در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ ہاتھ میں کشکول لئے اپنی عزتِ نفس کا قتل کر کے کبھی کسی در پہ جاتا ہے تو کبھی کسی در سے دھتکار دیا جاتا ہے۔ اُس بدنصیب باپ کے کشکول میں کبھی حکومتی وعدوں کی بھیک ڈال دی جاتی ہے یا کبھی کوئی ریا کار ٹی وی چینلوں کو فون کرکے اپنے نام کے ٹیکر چلوا دیتا ہے۔ کیونکہ وہ بھی اسی \"student\"معاشرے کا ہی حصہ ہے جس میں ماہِ رمضان میں خیرات دینے والوں اور لینے والوں کی منڈیاں مختلف ٹی وی چینلوں پر سجتی ہیں۔ زندگی اور موت انسان کے بس میں نہیں نہ ہی قدرتی آفات اور حادثات اُس کے قابو میں ہیں۔ مگر جس طرح حادثات و آفات سے نمٹنے کے لئے تکنیکی بنیادوں پر انفرا اسٹرکچر کی تعمیر انسان کے بس میں ہے۔ اِسی طرح ایک صحت مند اور بہتر معاشرے کی تشکیل بھی اُس کی دسترس میں ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ شرح اموات مہذب معاشروں میں کم ہوتی ہے بہ نسبت بیمار اور انسانی اقدار سے عاری معاشروں کے۔ محمد احمد حسین جیسے بے شمار واقعات ہمارے سماج کے چہرے پر لگی وہ کالک ہے جسے دھونے کے لئے کافی وقت درکار ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس کالک کو دھونے کا بیڑہ اُٹھانے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ بہتر سماج اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کیونکر ممکن ہے؟ ایسے سوالات پر غور کرنے کے لئے اربابِ اختیار اور پالیسی سازوں کو تب وقت مِلے جب پانامہ جیسے متعدد مسائل سے اُن کی جان چھوٹے۔ نہ جانے کیوں ہمیں اس قسم کے مسائل میں اُلجھا کر رکھا جاتا ہے۔

آزادی کے سات دہائیوں بعد بھی تاحال ہمارا اولین قومی مفاد کشمیر کے مسئلے کا حل ہے اور دُنیا دوسرے سیاروں پر گھر بسانے کا سوچ رہی ہے۔ محمد احمد حسین کی زندگی کا سِسِکنا ہمارے دم توڑتے معاشرے کا سِسِکنا ہے۔ جِس کی سِسکیوں کے سامنے ہماری اقدار کی موت قہقہے لگارہی ہے اور سماجی زوال کی نشاندہی کر رہی ہے۔ موت ہماری محسن نکلی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments