عافیہ صدیقی یا ملالہ: کس پر لکھا جائے؟


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

عام طور پر جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا پر موجود احباب کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ’آپ عافیہ صدیقی پر کیوں نہیں لکھتے ہیں؟‘ بہرحال اب اس جماعت اسلامی کی موجودہ نسل میں لکھنے والے موجود نہیں ہیں، جو کسی زمانے میں اپنے لکھنے والوں کی وجہ سے مشہور تھی، تو یہ سوال اتنا تعجب خیز نہیں ہے اور اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو لکھنے کے عمل اور کچھ لکھنے پر اکسانے والی تحریک سے واقفیت نہیں ہے۔ کاش یہ لوگ اپنی قیادت سے یہ سوال پوچھتے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں ان کے اراکین عافیہ صدیقی کے حوالے سے مسلسل سوال کیوں نہیں اٹھاتے ہیں؟

عافیہ صدیقی کی بات کرتے ہیں۔ عافیہ صدیقی کے معاملے میں دونوں اطراف کی جانب سے دی گئی اطلاعات غیر واضح اور متضاد ہیں۔ جو ٹوٹی پھوٹی معلومات ہمارے پاس موجود ہیں، ان کے مطابق اس معاملے میں امریکی حکومت کے ظالمانہ رویے کو مبنی بر حق قرار دینا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی عافیہ صدیقی کو معصوم مانا جا سکتا ہے۔

سترہ جولائی 2008 کو خبر آئی کہ غزنی کی ایک مسجد کے باہر چند نمازیوں نے برقعے میں ملبوس ایک خاتون کو بیٹھے دیکھا جس کے ساتھ ایک بارہ سالہ بچہ تھا۔ نمازیوں نے اسے خودکش بمبار سمجھ کر پولیس کو فون کیا۔ یہ علم ہونے پر کہ وہ امریکہ کی ’مطلوب ترین دہشت گرد‘ عافیہ صدیقی ہے، امریکیوں کو بتایا گیا۔ عافیہ صدیقی کی تحویل سے بم بنانے کے نسخے اور کولڈ کریم کی شیشیوں میں موجود کیمیکل برآمد کرنے کا دعوی کیا گیا۔ اب اس ’مطلوب ترین دہشت گرد‘ کو تفتیش کے لئے امریکی لے گئے جہاں چار مسلح اہلکار اپنے ہتھیار ان کے آس پاس فرش پر ڈال کر ان سے تفتیش کر رہے تھے تو عافیہ صدیقی نے ایک رائفل اٹھا کر ان کو گولی مارنے کی کوشش کی مگر ایک اہلکار نے ان کے پیٹ میں دو گولیاں مار کر ان پر قابو پا لیا۔

\"afia-siddiqui-1\"

کیا اس مضحکہ خیز کہانی پر یقین کیا جا سکتا ہے؟ لیکن اسی ناقابل یقین کہانی اور اس کے حق میں دی گئی امریکی افسران کی گواہی پر عدالت نے عافیہ صدیقی کو دو امریکی افسران کے خلاف اقدام قتل، خطرناک ہتھیار سے حملہ کرنے، خطرناک ہتھیار رکھنے اور استعمال کرنے، وغیرہ جیسے جرائم پر سات مرتبہ سزا سنائی گئی جس کی کل مدت 86 سال بنتی ہے۔

لیکن کیا ہم مکمل یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ عافیہ صدیقی کا تعلق دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے نہیں ہے جس کا نام پاکستان میں اس دہشت گردی کے سلسلے سے بھی جوڑا جاتا ہے جس میں ساٹھ ستر ہزار پاکستانی قتل کیے جا چکے ہیں؟

عافیہ صدیقی نے ایم آئی ٹی سے بیالوجی میں گریجوایشن کی اور اس کے بعد بوسٹن میں رہائش پذیر ڈاکٹر امجد خان سے شادی کی۔ اس کے بعد انہوں نے بوسٹن ہی کی برانڈیس یونیورسٹی سے نیورو کاگنیٹو سائنس میں پی ایچ ڈی کی۔ ایم آئی ٹی کے زمانے میں ہی ان کو تبلیغی سرگرمیوں میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ نائن الیون کے بعد ڈاکٹر امجد خان کو امریکیوں نے تحویل میں لے کر نائٹ وژن گاگلز، باڈی آرمر اور ملٹری دستاویزات خریدنے کے معاملے پر پوچھ گچھ کی گئی۔ اس واقعے کے بعد دونوں پاکستان آ گئے اور 2002 میں ان کی طلاق ہو گئی۔

2002 میں عافیہ صدیقی دس دن کے لئے امریکہ گئیں۔ امریکی حکام کے مطابق انہوں نے اس دوران مبینہ طور پر القاعدہ کے لئے کام کرنے والے ایک شخص ماجد خان کے لئے ایک پوسٹ آفس باکس لیا، جو کہ الزامات کے مطابق بالٹی مور میں پیٹرول پمپوں کو دھماکے سے اڑانے کی سازش کر رہے تھے۔

\"dr-aafia-siddiqui1\"

امریکی الزامات کے مطابق عافیہ صدیقی نے فروری 2003 میں القاعدہ کے خالد شیخ محمد کے بھتیجے عمار البلوشی سے شادی کر لی تھی۔ عافیہ صدیقی کی فیملی اس کی تردید کرتی ہے۔ خالد شیخ محمد کی فیملی، پاکستانی اور امریکی ایجنسیاں اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ امریکی مقدمے کی دستاویزات کے مطابق وہ اس کو تسلیم کر چکی ہیں۔ ان متضاد بیانات کی موجودگی میں عام شخص کے لئے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں ہے گو کہ شک یہی ہوتا ہے کہ شادی ہوئی تھی۔

یکم مارچ 2003 کو خالد شیخ محمد کو گرفتار کر لیا گیا۔ 23 مارچ کو امریکی حکومت نے تفتیش کے لئے عافیہ صدیقی کا گلوبل وارنٹ جاری کیا۔ عافیہ صدیقی کو القاعدہ کے مالی ذرائع کی فراہمی کے لئے کام کرنے کا مرتکب قرار دیا گیا۔ تیس مارچ کو وہ اپنے تینوں بچوں کے ہمراہ کراچی میں اپنے گھر سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئیں لیکن وہاں کبھِی نہ پہنچیں۔ مارچ 2003 سے لے کر جولائی 2008 میں ان کی گرفتاری تک کے حالات متنازع ہیں۔

پاکستانی اخبارات نے ایک عورت کو دہشت گرد کے الزام میں حراست میں لینے کی خبر دی۔ ابتدائی طور پر پاکستانی وزارت داخلہ کے ترجمان نے اس کی تصدیق کی مگر دو دن بعد پاکستانی حکومت اور امریکی ایف بی آئی نے اس کی تردید کی۔ عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کے مطابق 2004 میں وزیر داخلہ فیصل صالح حیات نے انہیں آگاہ کیا کہ عافیہ صدیقی کو رہا کر دیا گیا ہے اور وہ جلد ہی گھر پہنچ جائیں گی۔

26 مئی 2004 کو ایف بی آئی نے عافیہ صدیقی کو القاعدہ کے سات انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا۔ عافیہ صدیقی کے سابق شوہر امجد خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے عافیہ صدیقی کو 2003 میں اسلام آباد کے ائیرپورٹ پر دیکھا تھا اور دو برس بعد وہ انہیں کراچی میں ایک ٹریف جام میں دکھائی دیں۔

\"afia-siddiqui-2\"

عافیہ صدیقی کے ماموں شمس الحسن فاروقی نے بتایا کہ 22 جنوری 2008 کو وہ ان کے گھر آئیں اور ان کو بتایا کہ وہ پاکستانی ایجنسیوں کی تحویل میں تھیں اور عافیہ صدیقی نے ان سے افغانستان میں پہنچانے کے لئے مدد مانگی، جہاں وہ طالبان کے پاس محفوظ رہنے کے بارے میں پر یقین تھیں۔ شمس الرحمان فاروقی ماضی میں افغانستان میں کام کر چکے تھے اور طالبان سے ماضی میں ان کے روابط رہے تھے۔

ایف بی آئی کا دعوی ہے کہ عافیہ صدیقی نے بیان دیا ہے کہ 2005 میں کراچی میں جاب کرتی رہی ہیں، 2007 میں افغانستان میں رہیں اور کوئٹہ میں بھی مقیم رہیں۔ افغانستان کے بگرام بیس کے قید خانے میں قید کئی قیدیوں نے ایک عورتیں کی چیخیں سننے کا دعوی کیا ہے جسے بگرام کی سرمئی خاتون (گرے لیڈی آف بگرام) کا نام دیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی کئی تنظیموں نے عافیہ صدیقی کے امریکی تحویل میں ہونے کا امکان ظاہر کیا تھا۔

عافیہ صدیقی کے معاملے میں امریکی دعووں میں جھوٹ کی آمیزش دکھائی دیتی ہے مگر عافیہ صدیقی بھی صاف نہیں معلوم ہوتی ہیں۔ کیا اس بات کی کوئی سینس بنتی ہے کہ امریکی حکومت خود کو بدنام کرنے کی خاطر بلاوجہ ہی ایک عورت کے پیچھے پڑ جائے؟ القاعدہ سے تعلق میں حقیقت کا عنصر معلوم ہوتا ہے۔

اس صورت میں کیا ہمارے لئے مناسب ہے کہ اس القاعدہ کے کسی ممبر کو ہیرو بنائیں جو پاکستان میں دہشت گردی کی بے شمار وارداتوں میں ملوث رہی ہے؟ کیا ہمیں اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر ایمن الظواہری کے پاکستان میں دہشت گردی کے حق میں دیے گئے بیانات یاد ہیں؟ اسامہ کے گھر سے برآمد ہونے والی دستاویزات میں بھارتی بارڈر پر تعینات پاکستانی فوجوں پر حملے کرنے کا ذکر تھا تاکہ وہ بلوچستان اور فاٹا میں القاعدہ کے قبضے کی صورت میں وہاں نہ پہنچ سکے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری بھی القاعدہ نے ہی قبول کی تھی۔ تو پھر کس صورت ہم القاعدہ یا اس سے متعلق کسی شخصیت کی حمایت کر سکتے ہیں؟

\"malala-United-Nations-2\"

بہتر ہے کہ دہشت گردی کی مذمت کرنے والے ملالہ کے حق میں ہی لکھیں جو کہ پاکستان کا نام دنیا میں مشہور کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ میں وزیراعظم کی تقریر ہو تو ہال خالی ہوتا ہے، لیکن ملالہ کو خاص طور پر دعوت دی جائے تو پورا ہال سربراہان عالم سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ وہ پاکستان کے روشن چہرے کے طور پر دنیا میں جانی جاتی ہے۔ سو ہم ملالہ یوسفزئی پر ہی لکھیں گے۔ ہاں جو لوگ پاک آرمی کے جوانوں کو شہید ماننے سے انکاری ہیں، اور پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو شہید مانتے ہیں، وہ ضرور پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کے حق میں لکھیں۔ میدان حشر میں ہر شخص کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہو گا کہ اس نے معصوموں کا خون بہانے والوں کا ساتھ دیا یا ان کے مخالفین کا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments