عثمان بزدار کو آدھے ووٹ نے بچا لیا



وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی تبدیلی کیوں موخر ہوئی اس کی دو بڑی واضح وجوہات سامنے آئی ہیں، اول یہ کہ بزدار آدھے ووٹ کی اکثریت سے حکومت چلا رہے ہیں۔ وزیراعلی عثمان بزدار انتخابات 2018 کے بعد اتحادی (ق) لیگ، آزاد ارکان اور تحریک انصاف کی حمایت سے 186 ووٹوں سے سب سے بڑے صوبے کے چیف ایگزیکٹو منتخب ہوئے تھے جبکہ انہیں سادہ اکثریت کی بنیاد پر 371 کے ایوان میں 185.5 لینا ضروری تھا۔

انہیں ہٹا کر نئے وزیراعلی کے لئے اعتماد کا ووٹ لینے میں دشواری پیش آ سکتی ہے کیونکہ اتحادی (ق) لیگ جس کے ارکان کی تعداد 10 ہے وہ موجودہ سیٹ اپ سے زیادہ خوش نہیں ہے۔ ن لیگ جس کے اراکین کی تعداد 165 ہے وہ ق لیگ سے مل کر اپ سیٹ کرنے کی پوزیشن میں ہے، آزاد ارکان سمیت تحریک انصاف کے ایسے اراکین جو وزیراعلی سے خوش نہیں ہیں، کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا کر سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کی اعلی قیادت کے قریبی ذرائع کے مطابق دوسری وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان، صوبائی وزرا کی کارکردگی کو خود مانیٹر کر رہیے ہیں۔ وہ براہ راست وزرا سے ملاقات کر کے گڈ گورننس، میرٹ اور کارکردگی پر بریفنگ لیتے رہتے ہیں۔ وزرا کی رپورٹس پر وزیراعظم، وزیراعلی عثمان بزدار کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلے کرتے ہیں۔ جہاں کوئی خرابی، گڑبڑ نظر آتی ہے فوراً مداخلت کر کے وزیراعلی عثمان بزدار کو ہدایات جاری کرتے ہیں۔ یعنی وزیراعظم بہت سی چیزوں کے خود ذمہ دار ہیں۔

وزیراعلی پنجاب بعض موقعوں پر نمائشی نظر آتے ہیں، انھیں ہٹانا نہ ہٹانا معنی نہیں رکھتا۔ بہرحال نا ہٹانے کی اول الذکر وجہ وزیراعلی کا آدھے ووٹ کی اکثریت سے منتخب ہونا ہے۔ اس تناظر میں تحریک انصاف میں یہ بات طے پائی ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو اس مقصد کے لئے پہلے ن لیگ میں باقاعدہ فارورڈ بلاک قائم کیا جائے گا، جس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ باغیوں کی تعداد سات سے گیارہ ہو گئی ہے۔ حکمت عملی کے تحت جب تک واضح اکثریت کا بندوبست موجود نہ ہو وزیراعلی کی تبدیلی کا رسک نہیں لیا جاسکتا۔

یہ بات واضح ہے کہ پنجاب حکومت کی کارکردگی بہت اعلی تو در کنار مناسب بھی نہیں۔ وزیراعظم عمران خان مذکورہ بالا وجوہات کی بنیاد پر وسیم اکرم پلس کو مزید موقع دینا چاہتے ہیں اور ہٹائے جانے کا معاملہ مؤخر کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم اب پنجاب حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے پہلے سے زیادہ فکرمند ہیں۔

بزدار حکومت کا دفاع آئے روز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ بالخصوص جب کرپشن کی کہانیاں زبان زد عام ہیں اور کارکردگی بھی قابل ذکر نہیں، موجودہ حالات میں وزیراعلی پنجاب کی تبدیلی کسی بڑے خطرے اور نقصان کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اس لئے کسی قسم کی متوقع تبدیلی موخر کر دی گئی ہے۔ مناسب موقع اور واضح اکثریت حاصل ہونے پر بزدار کی چھٹی ہو سکتی ہے۔

اس تبدیلی کا ایک پہلو یہ بھی سامنے آ یا ہے کہ چوہدری برادران کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ اڑھائی، اڑھائی سال کا معاہدہ ہوا تھا اس فارمولے کے تحت بزدار سرکار کے پاس چھ ماہ کا وقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments