قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں کا ایک بڑے ڈاکہ اور عبرت ناک انجام


چند ہفتے قبل کریسنٹ گروپ کے میاں رفیع کے خدا کے حضور حاضر ہو جانے کی خبر پڑھی تو اچانک ذہن میں کچھ خبروں کی جھلکیاں جھانک گئیں۔

قیام پاکستان کے ابتدائی سال اس نوزائیدہ مملکت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے۔ اور صنعت و تجارت کے فروغ کی کوششوں کے سال تھے۔ غالباً انیس سو پچاس یا اکاون کا واقعہ ہے۔ چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے میاں حاجی محمد شفیع مرحوم کریسنٹ ٹیکسٹائل ملز کی بنیاد سرگودھا روڈ فیصل آباد پر رکھ چکے تھے۔ ملز چالو ہو چکی تھی۔ مگر مالکان کی کوٹھیاں اور مزدور کالونی شاید نہ بنی تھی۔ اور حاجی صاحب کا خاندان ابھی چنیوٹ ہی میں رہائش پذیر تھا۔ فیصل آباد کا لاہور سے سڑک کا رابطہ یا براستہ شرقپور جڑانوالہ تھا یا براستہ شیخو پورہ پنڈی بھٹیاں چنیوٹ۔

حاجی صاحب لاہور سے کوئی تین لاکھ روپے کی خطیر رقم ( قدر کے لحاظ سے آج کے سات آٹھ کروڑ سمجھئے ) مزدوروں کی تنخواہ کے لئے لاہور کے بنک سے نکلوا کر کار پر اپنے کیشیئر اور ڈرائیور کے ہمراہ چنیوٹ آرہے تھے۔ وہ رات گھر گزار کر اگلی صبح فیصل آباد جا کر تقسیم کرتے۔ چنیوٹ سے چند میل قبل اچانک کار جھٹکے مار بند ہو گئی۔ ڈرائیور نے انجن وغیرہ چیک کیا اور کہنے لگا۔ میاں صاحب دھکا لگانا پڑے گا۔ میاں صاحب اور کیشیئر کار کو دھکا لگانے لگے۔ چند قدم دھکے کے بعد اچانک کار سٹارٹ ہوئی۔ اور یک دم رفتار پکڑتے یہ جا وہ جا۔ رقم کا تھیلا کار کے اندر ہی تھا جو ڈرائیور لے کر فرار ہو چکا تھا۔

سڑک پر گھنٹوں بعد کوئی بس آتی اور شاذ ہی کوئی کار گزرتی۔ فون چھوڑ بجلی تک ابھی چنیوٹ بھی نہ آئی تھی۔ کسی طرح رات گئے چنیوٹ پہنچے۔ پولیس رپورٹ ہوئی۔ اس وقت کے مطابق ایک بہت بڑا اور غیر معمولی ڈاکہ تھا۔ ملک کا پورا پریس روز خبریں لگاتا۔ چند روز بعد سرگودھا روڈ پر احمد نگر کے قریب سڑک سے کچھ کلو میٹر اندر کھیتوں میں کھڑی کار مل گئی۔ مگر پولیس اور تفتیشی اداروں کی سر توڑ کوششوں کے باوجود ڈرائیور کا کوئی سراغ نہ مل اور بہت عرصہ شہ سرخیوں میں رہنے والی یہ خبر قصۂ پارینہ بن گئی۔

ہم شاید مڈل کلاس کے طالبعلم ہو چکے تھے کہ یک دم ایک دھماکہ اور ایک ہولناک انکشاف کے ساتھ خبر آئی کہ اس واردات کا سراغ ہی نہیں ملا بلکہ مجرم بھی گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ تاہم اصل مجرم اپنے سرپرستوں کے ہاتھوں اونٹوں کی خوراک بنایا جا چکا۔ اور باقیات ملنے کا بھی امکان نہیں۔

ہولناک و دردناک تفصیلات کے مطابق ڈرائیور کے اس طرح موٹی رقم ہر ماہ لے کر آتے رہنے کی اطلاع شاید مل ہی کے ملازموں یا کسی اور تعلق واسطے لالیاں کے قریبی کسی گاؤں کے ڈیرہ داروں کو ملی تو انہوں نے اپنے کارندوں کے ذریعہ ڈرائیور کو ورغلایا۔ اور رقم لوٹنے کا پلان کامیابی سے سر انجام پایا۔ مقررہ جگہ کار لے کر ڈرائیور پہنچا اور پہلے سے منتظر گروہ اسے اور رقم اپنے ڈیرہ پر لے گیا۔ اور پھر کسی وقت اسے قتل کر لاش کے ٹکڑے کر کے اونٹوں کو کھلا تمام نشان ختم کر دیے۔

اس زمانے میں تفتیشی آج جیسے حصہ دار بن جانے والے اور مٹی پاؤ والے نہ تھے۔ اس وقت کے ذرائع آمدورفت کے لحاظ سے لازم تھا مجرم بہت دور کے نہ تھے۔ چنانچہ جونکیں لگانے والے جوگی، پھیری والے، ڈاکیے اور کھیتوں میں کام کرنے قسم کے بھیس میں پولیس مخبر کامیاب ہوئے اور پولیس نہ صرف مجرموں تک پہنچ گئی۔ بلکہ ان کے خلاف مضبوط شواہد کے ساتھ کیس بھی ہوا اور سزا بھی ہوئی۔ یہ مجھے یاد نہیں کہ مال مسروقہ بھی برآمد ہوا یا نہیں اور کتنے بندوں کو کیا سزا ہوئی۔

یہ سب کچھ میری یادداشت کے جھروکے میں ہے۔ اس زمانے کے اخباروں کے فائل مکمل اور ترتیب سے صحیح تفاصیل دے سکیں گے۔ کہ آج والی رنگ آمیزی شاذ ہی ہوتی تھی۔

ہزاروں لاکھوں واقعات اس کے بعد زندگی میں سنے۔ دیکھے اور بہت کچھ اس سے زیادہ اپنے آپ پر بھی بیتی۔ حتی کہ ملک سے نقل مکانی میں ہی عافیت سمجھی۔ مگر بچپن کے پڑھے سنے مالک کے ساتھ بے وفائی اور دولت کے لالچ کی اس واردات کی ہولناکی اور انجام اب بھی جسم میں جھر جھری اور کپکپاہٹ لے آتا ہے۔ اور ساتھ ہی حاجی محمد شفیع صاحب کا شفیق چہرہ نظر سامنے گھوم جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments