ارتقاء، تخلیق اور سوال


\"fahad-rafiq\"

جواد احمد غامدی صاحب ایک موقر اور معتدل مذہبی فکر“ کے حامل ہیں، انہوں نے اپنی درد دل سے گندھی تحریر سے کچھ سوالوں اور سوال کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، سوال وہ تیشہ ہے، جسے فلاسفروں اور دانش وروں نے چلا کر کائناتی اور انسانی کی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی ہے، تخلیق و ارتقاء پر سائنس کن سوالوں کے جواب دے پاتی ہے اور کن کے نہیں ایک اہم سوال ہے۔
اگر سوال ارتقائے زندگی پر ہے اور یہ کہ کرّہ ارض پر زندگی کا وجود کس طور سے نمو پایا تو یہ فلسفیانہ گیند لڑھک کر ایک سائنس دان کی لیبارٹری میں آگرتی ہے، سائنس کا کام ان سوالوں کا جواب دینا ہے جو عناصر سے پیدا ہوتے ہوں، ما بعد طبیعاتی سوالات کا جواب دینا سائنس کا مطمع نظر نہیں اور نہ ہی سائنس ایسے سوالوں کا جواب دینے کا دعوی رکھتی ہے۔ مثلا اگر سوال ہو کہ ”انسانی وجود کیا ہے؟ اور کیا میں ہوں؟ کیا میں نہیں ہوں؟ اور یہ میرے اندر کیا کارخانہ لگا ہے؟ میں خواب ہوں یا حقیقت ہوں؟“ تو حیاتیات (Biology) اس بات کا جواب علم تشریح اعضاء (Anatomy)، علم الحیات (Physiology) یا اس جیسے ہی کسی ٹھوس شواہد پر پیوستہ علوم کی رو سے دیتی ہے۔ انسان اپنی حسیات کے ساتھ دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے، اس مشاہدے کو بروے کار لا کر اپنی زندگی میں بہتری کا سامان کرتا ہے، انسانی علوم میں جتنے بھی موجودہ علوم سائنس سے متعلق ہیں وہ انہی حسیاتی مشاہدات سے نمو پذیر ہوے، ان حسیات انسانی نے ایک حد تک تو نے ساتھ دیا لیکن پھر اپنی مادی مجبوریوں کی وجہ سے ایک حد تک ہی پہنچ سکیں، مگر انسان نے نت نئی ایجادات کے ذریعے اپنے مشاہدے کو تنوع فراہم کیا اور اسے مزید وسیع کیا، انسانی مشاہداتی آنکھ طبیعیات کے عدسے سے ابھی وجود اور لا وجود کے نظریات کو بنظر غائر دیکھ رہی ہے اور اس سوال کا جواب دینے کی عمر تک نہیں پہنچی۔

یہ سوال، ”یہ فیکٹری تو ہے مگر لگائی کس نے ہے؟“، اسی بات کا اعادہ ہے کہ تخلیق کا سزا وار کون ہے، یہی سوال جب ایک سائنس دان اپنے آپ سے پوچھتا ہے تو اس کو پنی کم علمی اور اس وسیع تر کائنات میں اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے، ایسے میں ایک تو حل یہ ہے کہ دنیا میں موجود ہزاروں مذاہب کے لاکھوں مکاتب فکر کے کروڑوں علماء کی تشریحات کا مطالعہ کرنے میں زندگی گزار دی جائے اور ان کے فراہم کردہ تصور خداوندی کو من و عن قبول کر لیا جاے، دوسری صورت یہ کہ طے شدہ سائنسی طریق پر چلتے ہوے انسانی دانش کو اس نہج پر پہنچا دیا جائے کہ وہ اسی دقیق سوال کا جواب دے سکے۔ اگر سائل کی طبیعت ان کو سوال پر آمادہ کرتی ہے تو میرے خیال موخر الذکر صورت ہی ان کی تشفی کر سکے گی۔

اور یہ سوال کہ ”یہ فیکٹری کیوں لگائی گئی ہے۔ اس ملبے کے ٹکڑوں نے ایسا نظام کیسے وضع کر دیا ہے؟ کیوں وضع کر دیا ہے؟ ” کا جواب ایک خالق ہی دے سکتا ہے۔ سائنسی علم موجودات اور آثارات سے اپنا استدلال کشید کرتا ہے، وجہ تخلیق کائنات اس محدود دائرۂ کار سے باہر ہے۔

مزید یہ کہ ”اس ارتقاء نے اپنا ارتقاء روک کیسے دیا ہے؟ارتقا ء رک گیا ہے تو ارتقاء کیسے کہلائے گا“ تو گرامی قدر، ارتقاء ہرگز رکا نہیں ہے اور ہر جہت میں جاری و ساری ہے۔ ایک تیر انداز تیر چلاتا ہے اور ایک تصویر کھینچنے والا اس طرح سے تصویر کھینچتا ہے کہ وہ تیر ہوا میں معلق نظر آئے، تو کیا ہم وہ تصویر دیکھ کر کہیں گے کہ تیر تو چلا ہی نہیں۔ انسانی تہذیبی زندگی کا دورانیہ، کائناتی زندگی کا چوتھائی اربواں حصہ بھی نہیں، ایسے میں ہم اپنے ذاتی محدود مشاہدے کو ارتقاء پر منطبق نہیں کر سکتے، اس مشاہدے کے لیے کروڑ ہا سال پر محیط شواہد کی ضرورت ہو گی جو پھر بھی اس عمل کی محض جھلک ہی دکھا پائے گی، وہ شواہد گزشتہ سائنسی ادوار میں فوسلز اور موجودہ سائنسی دور میں ڈی این اے فراہم کرتا ہے، ارتقائی عمل نتائج سے بے بہرہ ہو کر اپنا کام سرانجام دیتا ہے اور اس عمل کے دوران بڑی بے دردی سے ناکارآمد عناصر کو تخلیقی چکر سے نکال باہر کرتا ہے۔

اس نظر آسکنے والی کائنات میں اربہا کہکشائیں موجود ہیں اور ان کہکشاؤں میں لاتعداد ستارے موجود ہیں جن میں موجود زندگی کا ہمیں ہماری تہذیب کے ختم ہونے تک بھی پتا نہیں چلے گا، یہ کائنات وسیع تر ہے، کائنات کے ایک حصّے میں ہائیڈروجن کے بادل کثیف ہوے اور ایک نومولود ستارہ جنم لیتا ہے، اس ستارے کی روشنی کی پہلی کرن پھوٹتی ہے اور اپنا سفر شروع کرتی ہے، روشنی کائنات کی سب سے تیز رفتار شے ہے، اس ستارے کے گرد سیارے میں زندگی کا نمو ہوتا ہے اور وہ انسانی تہذیب سے بھی آگے نکل جاتے ہیں پھر وہ تہذیب بھی قانون فطرت کے زیر اثر ختم ہو جاتی ہے، اس عرصہ میں وہی ستارے سے پھوٹنے والی کرن ہم تک نہیں پہنچی، جی ہاں، یہ کائنات اس قدر وسیع ہے۔ اٹھائے جانے والے سوال میں استدلال یہ ہے کہ مطمع نظر خالق کی ہمسری ہے، نہیں جناب، مطمع نظر اس وسیع تر کائنات کے اسرار کی تفہیم اور عجائب کی تسخیر ہے۔ کوئی عجب نہیں کہ انسانی تخلیق کردہ بنیادی عناصر بھی مستقبل میں ملیں۔ منزل تخلیق نہیں تعلیم ہے، اس دنیا کو جاننا ہے، نام کوئی بھی دے لیجئے، کائناتی قوانین نے یہ دنیا قائم کی اور سائنس کا اندھا ان قوانین کی لاٹھی کی مدد سے ٹٹول کر چلتا ہے، آپ کا سوال ما بعد الطبعیات سے ہے، آپ کا سوال یہ ہے کہ ان قوانین کو کس نے قائم کیا؟ اور یقین مانیے یہی سوال ہمارے ذہن میں بھی اٹھتا ہے، بس طریق عمل مختلف ہے۔


نیت کی چوٹ، سوال کی موت

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments