ماں جی کی سالگرہ


\"zafarullah-khan\"

سردی کا آغاز ہو چکا ہے۔ آج پہلی بار گھر میں ہیٹر جلتا دیکھا تو یاد آیا کہ شاید آج ماں جی کی سالگرہ ہو گی۔ نانی نے بتایا تھا کہ جب سردیوں کی پہلی انگیٹھی جلی تھی اس دن ماں جی پیدا ہوئی تھیں۔ بے اختیار آنکھوں سے کچھ پانی بہا۔ سردیوں ہی کے دن تھے۔ ماں جی کا کچا کمرا تھا جسے اندر سے ملتانی مٹی کے سفیدے سے لیپ دیا گیا تھا۔ مٹی کے فرش پر دنبوں کے اون سے بنا ایک دیسی قالین بچھا ہوا تھا جس پر مہندی سے کوئی پھول بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ہم اس قالین نما شے کو کراستہ کہتے تھے۔ کمرے میں کوئلوں کی انگیٹھی جل رہی تھی۔ مٹی کے تیل کی لالٹین جل رہی تھی۔ کمرے میں کوئلے اور مٹی کے تیل کی ایک عجیب سی باس بھری ہوئی تھی۔ اس باس میں ماں جی کی چادر سے آنے والی گوبر کی باس بھی شامل تھی۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ سرد شام کی اداسی کمرے میں بھی در آئی تھی۔ اس اداسی میں ایک ماں اور ایک بچہ خاموش آنسوؤں سے رو رہے تھے۔ یہ یاد تو نہیں ہے کہ میں کس بات پر رویا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ ماں جی گود میں سر رکھے میں خوب رویا تھا۔ عمر یہی کوئی پانچ چھ برس رہی ہو گی۔ اس دن پہلی بار دیکھا کہ ماں جی بھی روئی تھیں۔ لفظ رونا شاید ٹھیک نہ ہو۔ ماں جی کی آنکھوں میں تو بس دو چار موٹے موٹے آنسو تھے جو خاموشی سے میری گالوں پر گرے تھے۔ آنسوؤں کی سائنس کا اس زمانے میں علم نہیں تھا کہ یہ پانی، لیپیڈ، لیکٹوفیرن، گلوکوز، یوریا، سوڈیم، پوٹاشیم اور کئی اور عناصر کا مجموعہ ہوتا ہے مگر اس دن یہ پتہ ضرور چلا تھا کہ آنسو صرف اپنے ہی نمکین نہیں ہوتے۔ دوسروں کے آنسو بھی نمکین ہی ہوتے ہیں۔ ایک قبائلی معاشرے میں پانچ چھ برس کی عمر میں ہی بچہ سیکھ جاتا ہے کہ مرد روتے نہیں۔ رونا تو عورتوں کا کام ہے۔ میں شاید ابھی اپنے سماج کی تعریف پر پورا نہیں اترتا تھا۔ اب سوچتا ہوں کہ ماں سے زیادہ غیرت مند ہونے میں کونسا فخر موجود ہے؟

ماں جی جس گھر میں پیدا ہوئیں وہ ایک عام سا گھر تھا۔ تین کچے کمرے اور صحن میں لگا ایک شہتوت کا درخت۔ اس شہتوت کے درخت پر کبھی کسی نے پینگ بھی نہیں لٹکایا تھا۔ اس زمانے میں شاید پینگ لگانا بھی ٹھیک نہیں تھا۔ ماں جی کبھی اسکول نہیں جا سکی۔ کبھی بازار نہیں دیکھ سکی۔ کبھی کسی پارک نہیں جا سکی۔ ماں جی زندگی کی سب سے بڑی خوشی کسی سکھی سہیلی کی منگنی تھی۔ زمین پر گھسٹتے برقعے میں پوش ماں جی چھوٹے بھائی کا ہاتھ تھامے سہیلی کے گھر پہنچتی مگر شام ہونے سے پہلے اسے گھر پہنچنا تھا۔ بھینسوں کا دودھ دھونا تھا۔ کنویں سے پانی نکالنا تھا۔ روٹی ترکاری پکانا تھا۔ والدہ کے لیے انگیٹھی جلانی تھی۔ چراغوں کو صاف کر کے تیل بھرنا تھا۔ چھوٹے بہن بھائیوں کو روٹی کھلانی تھی۔ ان کے بستر بچھانے تھے۔ صبح ہوتی تو پھر کنواں، پھر بھینس، پھر روٹی۔ ماں جی سے کبھی پوچھیں کہ بچپن کیسا گذرا؟ تو ماں جی چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے۔ پھر ماں جی کہتی ہیں، ’د االلہ شکر وو پہ تن پٹ وو، د عزت گولہ رسیدلہ‘۔ االلہ کا شکر تھا۔ تن ڈھانپنے کو کپڑا میسر تھا اور عزت کا نوالہ مل جاتا تھا۔ یہی ماں جی کے بچپن کی کل کہانی تھی۔

ایک دن سنا کہ ماں جی منگنی ہو گئی ہے۔ ماں جی کے والد ہندوستان میں کاروبار کرتے تھے۔ چچا نے اپنے سالے سے رشتہ طے کر دیا جو بہت بڑا زمین دار تھا اور اولاد کے لئے دوسری شادی کرنا چاہ رہا تھا۔ ماں جی نہ ہنسی، نہ روئی۔ بس خاموش رہی۔ ماں جی کو معلوم تھا کہ لوگ دو دو شادیاں کرتے ہیں۔ آخر ماں جی اپنے ابا نے بھی دو شادیاں کی تھیں۔ شادی کے بعد بھی ماں جی زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ ماں کی جگہ ساس موجود تھیں۔ بھائیوں اور بہنوں کی جگہ مجازی خدا کی اپنی اولاد موجود تھی اور ان کی ایک اور شریک حیات بھی۔ فرق پڑا تو بکریوں اور گائیوں کی تعداد میں پڑا تھا۔ یہاں ان کی تعداد زیادہ تھی وگرنہ کنواں بھی وہی تھا، انگیٹھی بھی وہی تھی اور لالٹین بھی ویسے ہی تھی۔ تن ڈھانپنے کو کپڑا اور دو وقت کی روٹی یہاں بھی میسر تھی۔

چار سال بعد عرش پر بیٹھے خدا کو ماں جی پر ترس آیا اور انہیں ایک بیٹا نصیب ہوا۔ اس سوال کا جواب کبھی نہیں ملا کہ آخر ماں جی کو کیا مجبوری پیش آئی کہ انہوں نے سات دن کا بیٹا اپنی ماں کے حوالے کر دیا۔ ماں جی پھر سے اکیلی ہو گئی۔ پانچ سال بعد بچہ واپس آیا تو ماں نے ایک کالی لیلن کے چادر سے ایک جھولا نما بستہ سوئی دھاگے سے سی دیا۔ اس زمانے میں سلائی مشین تو ہوتی نہیں تھی۔ بچہ سکول جانے لگا تھا۔ ماں جی صبح سویرے تختی کو ملتانی مٹی سے میٹ لگا دیا کرتی تھی۔ چہرے پر گریس لگا دیتی تھی تاکہ سردی سے جلد نہ پھٹے۔ آدھی چھٹی پر بچہ گھر آتا تو ماں جی رات کا باسی سالن اور باسی روٹی سامنے رکھ دیتی تھی۔ کبھی کبھی سالن سے بدبو آتی تو ماں جی بھاگ کر کالی چائے کا قہوہ بنا دیتی اور اس میں ڈھیر ساری چینی ڈال دیتیں۔ میٹھی چائے میں روٹی بھگو کر کھانا کتنا صحت بخش ہوتا ہے اس پر ماں جی کے پاس ہر روز ایک نئی کہانی ہوتی۔ شام کو ماں جی گائیوں کا دودھ دھونے جاتی تو بچہ پلو پکڑ ساتھ جاتا تھا کیونکہ اسے اکیلے کمرے میں ڈر لگتا تھا۔ واپسی پر ماں جی کوئلے سے ٹوکرا بھرتیں۔ بچے کی ناک بہتی تو ماں کوئلے کا ٹوکرا رکھ اپنے پلو سے بچے کی ناک پونچھتی۔ کبھی کبھی سردی سے گال پھٹے ہوتے تو ماں جی کے پلو پر خون کا ایک آدھ قطرہ بھی لگ جاتا۔ گال پر خون کا قطرہ دیکھ کر بچہ رونا شروع کر دیتا۔ ماں جی ٹوکرا اٹھا کر کاندھے پر رکھتی۔ بچہ پلو پکڑ کر روتا رہتا۔ پھر اس کی نظر ماں جی کی ایڑیوں پر پڑ جاتی جس میں خون کے قطرے جمے ہوتے۔ وہ یونہی روتے روتے خاموش ہو جاتا۔ ماں جی جلدی سے انگیٹھی جلاتیں۔ پھر وضو کرتیں۔ مصلا بچھا کر نماز کی نیت کرتیں تو بچہ کہتا، ماں! آپ کی چادر پر تو خون لگا تھا۔ یہ تو ناپاک ہے۔ ماں جی نیت باندھتے ہوئے کہتیں کوئی نہیں میرے لال، تمہارے خون سے کہاں ناپاک ہو سکتی ہے میری چادر۔

مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ماؤں کی سالگرہ کا کوئی دن نہیں ہوتا۔ آپ ہرنائی میں کسی کوئلے کی کان میں گھس جائیں۔ کوئلے کی کان میں آپ کے نتھنوں میں غبار پڑے تو آپ کو ناک بند کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ کوئلے کی بو سے آپ کو ماں کے کمرے کی خوشبو آئے تو ماں کی سالگرہ کا دن وہی ہوتا ہے۔ آپ کسی اندھیر رات میں پنجگور کے نواح میں ایک کچی مسجد میں رات گزارنے کو رک جائیں۔ مسجد میں پھیلی مٹی کے تیل کی بو سے آپ کو ماں کمرہ یاد آجائے تو اس دن ماں کا جنم پھر سے ہوتا ہے۔ پنڈی سے اسلام آباد آتے جب راستے میں دو چور آپ کو لوٹ لیتے ہیں اور کمر پر سوٹی کے ایک دو وار بھی کر جاتے ہیں۔ آپ اپنے کمرے میں پہنچ کر اپنی پیٹھ کو ہاتھ لگا کر دیکھتے ہیں تو وہاں گوبر لگا ہوتا ہے۔ آپ کو گوبر کی بدبو محسوس نہیں ہوتی بلکہ اس خوشبو سے آپ کو ماں جی یاد آئے تو اسی دن ماں کا جنم ہوتا ہے۔


گوبر کی خوشبو اور پوٹھوہاری موٹے
ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments