حکومت حجاز کے تین دور: ترکی، شریفی اور سعودی


(ہمارے دادا جان سید محمد شریف گھڑیالوی ایک نیک دل، خوب سیرت اور اللہ والے بزرگ تھے۔ قیام پاکستان سے قبل متحدہ پنجاب میں ایک مذہبی جماعت کے منتخب امیر تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں تین حج کیے ، جن کی روداد بہت سادہ اور دلنشیں انداز میں بیان کی۔ اس سفر نامے میں ترکی، شریفی اور سعودی، تینوں ادوار کی جھلک دکھائی دیتی ہے )

” 1908 کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری دیرینہ آرزو پوری کی اور سفر حج کی توفیق بخشی۔ میں بمبئی (اب ممبئی) سے جہاز پر سوار ہوا۔ راستہ میں جزیرہ کامران میں دس یوم کے لئے اتار دیا گیا۔ اس وقت سلطان عبد الحمید خان مرحوم ترکی کا عہد حکومت تھا۔ وہاں کا ڈاکٹر ہر روز صبح مردوں اور عورتوں کی قطار لگا کر ہر ایک کی آنکھ کا معائنہ کرتا۔ ہندوستان کے بعض لوگوں نے عورتوں کا منہ دکھانے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کا پانی بند کر دیا اور عام اعلان کر دیا کی جو ان کو پانی دے گا وہ مجرم قرار دیا جائے گا۔

آخر دوسرے دن انہوں نے عاجز آ کر عورتوں کو ننگے منہ پیش کر دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر عورتوں کا معائنہ عورت ڈاکٹر کی معرفت اور مردوں کا مرد ڈاکٹر کی معرفت ہوتا۔ ان شریف مستورات میں سے ایک نے ذرا سا منہ ننگا کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے سامنے کھڑے ہو کر قلم سے اس خاتون کاباقی گھونگھٹ بھی اٹھا دیا اور آنکھوں کا ملاحظہ کیا اور کہا کہ ہم حکومت کی طرف سے مجبور ہیں۔ اگر ہم معائنہ نہ کریں اور یہ بات ظاہر ہو جائے تو ہمارا مواخذہ ہوتا ہے، ورنہ یہ سب میری مائیں بہنیں ہیں۔

اس کے علاوہ زائرین حرمین شریفین کو ایک یہ مصیبت پیش آئی کہ اگر قافلہ میں سے کوئی مرد یا عورت بیمار ہو جاتی تو اس کو اٹھا کر شفا خانہ میں داخل کیا جاتا اور مریض کے وارثوں کو پاس رہنے کی قطعاً ممانعت ہوتی۔ معائنے کے بعد بیماروں کو روک لیا جاتا اور تندرستوں کو جدہ کی طرف روانہ کر دیا جاتا تھا۔ اگر کوئی مریض مر جاتا توجزیرہ کامران میں ہی دفن کر دیا جاتا اور وارثوں کو کچھ خبر نہ ملتی۔ اگر تندرست ہو جاتا تو بعد میں جدہ روانہ کر دیا جاتا۔ اس وجہ سے حجاج کو کمال صدمہ پہنچتا۔

میرے گاؤں گھڑیالہ ضلع لاہور (اب ضلع ترن تارن، بھارتی پنجاب) کی ایک خاتون اپنے خاوند مولوی خدا بخش سکنہ مندرانوالہ ضلع امرتسر کے ہمراہ حج کے لئے گئی۔ مسماۃ مذکورہ جزیرہ کامران میں بیمار ہوگئی۔ حسب دستور اس کو وہاں روک لیا گیا۔ مولوی صاحب قافلہ کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ وہ جدہ میں قیام پذیر رہے۔ کچھ دن بعد ان کی اہلیہ صحت پا کر جدہ میں آ گئی اور مولوی صاحب سے مل گئی۔ جدہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان عمدہ انتظام تھا۔ خیریت سے مکہ معظمہ پہنچے۔

پھر منیٰ، مزدلفہ اور عرفات پہنچے۔ جاتے ہوئے منیٰ کے راستے جانا مسنون ہے مگر راہ زنوں کے خطرے کے باعث یہ راستہ مسدود تھا۔ آخر اسی راستے سے گئے اور واپس آئے۔ منیٰ اور مزدلفہ میں پانی کی قلت تھی۔ مزدلفہ میں رات کو میرا اور میری جماعت کا تمام اسباب چوروں نے چرا لیا۔

مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کا راستہ بہت خطرناک تھا۔ خیریت سے قافلہ جا رہا ہوتا کہ اچانک پہاڑوں سے بندوقوں سے ہوائی فائر ہونے لگتے۔ جمال ( اونٹ ہانکنے والے ) ، بدو اور معلموں کے ایجنٹ اس طرف جاتے۔ تھوڑی دیر بعد آ کر یہ خبر دیتے کہ فلاں قبیلہ ہے اور فی کس اتنے پیسے مانگ رہے ہیں ورنہ برسر فساد ہیں۔ مجبوراً ان کی بات ماننی پڑتی۔ تھوڑی دور آگے جاتے تو ایسا ہی کوئی دوسرا گروہ پھر گھیر لیتا۔ اس طرح مدینہ منورہ تک رکاوٹیں پیدا ہوتی رہتیں اور بہت سے پیسے خرچ ہو جاتے۔ علاوہ ازیں جان و مال وایمان کا سخت خطرہ ہوتا۔

پھر اللہ تعالیٰ نے 1909 میں مجھے دوبارہ حج کی توفیق بخشی۔ اس وقت وہاں سلطان محمد کا عہد حکومت تھا۔ بعض باتوں کی معمولی اصلاح دیکھی، باقی بدستور سابق میں بعض خرابیوں کا اضافہ ہوا۔ مزدلفہ میں قیام کے دوران تمام شب حکومت کی طرف سے آتش بازی ہوتی رہی۔ جدہ اور مکہ مکرمہ میں گرامو فون اور باجوں کی آوازیں کثرت سے آتیں۔ داڑھی منڈوانے اور حقہ نوشی کا عام رواج دیکھا۔ بعض اوقات حقہ نوشی کے شغل میں لوگ نمازیں بھی نہ پڑھتے۔ قبر پرستی عام تھی۔ چوری، ڈکیتی، راہ زنی اور غارتگری کا بازار گرم تھا۔ اس کی وجہ لوگ یہ بتاتے کہ ترک سلاطین نے شریف حسین گورنر کو پورا اخیتار دے کر سب کام اس کے اعتبار پر چھوڑا ہوا تھا۔ ورنہ وہ یعنی ترک تو بہترانتظام کا مادہ رکھتے تھے۔

پھر 1919 میں تیسری دفعہ یہ مبارک سفر ہیش آیا۔ اس وقت ترکوں کی بادشاہی عرب سے جاتی رہی تھی اور شریف حسین خود مختار حاکم تھا۔ اس سفر میں کمال بد انتظامی دیکھی گئی۔ حاجیوں کا آخری جہاز جب جدہ پہنچا تو مصر اور دوسرے ممالک سے بھی تین جہاز حاجیوں کو لے کر جدہ پہنچ گئے۔ حاجی اس قدر جمع ہو گئے کہ 9 ذو الحج تک سواریاں بہم نہ پہنچ سکیں۔ 9 ذوالحج کو جدہ سے روانہ ہوئے۔ راستے میں پانی کی اس قدر قلت تھی کہ سفردراز کی تکلیف، سورج کی تپش اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے تقریباً 500 حاجی اونٹوں سے گر کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔

ان میں سے زیادہ تر دفن بھی نہ ہو سکے اور ان کی میتیں جھاڑیوں میں پھینک دی گئیں۔ ان کا اسباب بدو لے گئے۔ باقی بعد دقت و مصیبت منیٰ میں پہنچے۔ مزدلفہ میں رات ٹھہرنا ضروری تھا، لیکن نہ ٹھہر سکے اور علماء کے فتویٰ کی رو سے پیسے ادا کرنے پڑے۔ قبر پرستی کا یہ حال تھا کہ میں مکہ معظمہ کے قبرستان کی زیارت کو گیا۔ دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کے چچا ابو طالب کی قبر پر ایک شخص سجدہ میں پڑا ہوا تھا۔ میری جماعت کے لوگ پچھلی رات مسجد حرم میں گئے۔

نماز فجر سے پہلے ایک لڑکی مسماۃ مریم سکنہ گھڑیالہ بے خبر قضائے حاجت کے لئے مسجد حرم سے گھر کو روانہ ہوئی، جو سندھی بازار میں تھا۔ راستے میں ایک گلی کے سرے پر ایک شخص کھڑا تھا۔ وہ اس لڑکی کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے گھر لے جانے کے لئے مجبور کرتا رہا۔ زبردستی تھوڑی دور تک گھسیٹا ہوا لے گیا۔ یہ لڑکی قوم کی جاٹ تھی۔ اس نے بہادری اور دلیری سے اس بد نیت عرب سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور بھاگ کر بازار میں آ گئی۔ وہ بد معاش حیران کھڑا دیکھتا رہ گیا۔ اس کے علاوہ کئی اور ہولناک واقعات ہیں جو چشم دید اور پیش آمدہ ہیں۔

اس کے بعد جب سلطان عبدالعزیز ابن سعود ملک حجاز کا حاکم بنا ہے، بفضل خدا ترکی اور شریفی دور کی بہت سی قباحتیں دور ہو گئی ہیں۔ ڈاکا، چوری، خون نا حق کا تقریباً خاتمہ ہو گیا ہے۔ قرآن و حدیث کی حدیں جاری ہو گئی ہیں۔ جو سفر مکہ شریف سے مدینہ منورہ تک آمدو رفت اونٹوں پر تیس دنوں میں طے ہوتا تھا، اب موٹروں پر وہی سفرآمدو رفت چار دن میں آرام و آسائش سے طے ہوجاتا ہے۔ پانی کی بے حد فراوانی ہے۔ عدیم النظیر امن و امان قائم ہے۔ بے حد و حساب برکات کا راستہ کھل گیا ہے۔ کوئی خطرہ نہیں رہا۔

(بشکریہ: ماہنامہ ”البدر“ ساہیوال)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments