پاناما گیٹ کی کھجوریں


\"Shahzadیار لوگ بہت شرارتی ہیں۔ کہتے ہیں ڈیڑھ لٹر والی سافٹ ڈرنک کی بوتل لو پھر اس کا کڑوا محلول مزے مزے لے کر پیو۔ جب بوتل الف ننگی ہو جائے تو اسے ڈھکن والی طرف سے معمولی سا پچکا دو پھر اس کی  کنواری گردن پر ہاتھ  پھیرواور تھوڑا ساخم دے کر ڈرائنگ روم کی زینت بنادو تو جب بھی چائے کی چسکی لیتےآپ اسے دیکھیں گےتو ایک ایسی سیاسی شخصیت کا  خاکہ آپ کے ذہن میں نمودار ہوگا جس کےنام لینے کی میں جسارت تو نہیں کرسکتا کہ میں بول نہیں لکھ رہا ہوں شاید بلاگ کےآخرمیں بلاگ بلسٹر ہو کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے، ویسے حکمران دودھ کے اتنے دھلے بھی نہیں ہیں پھر بھی یہ محاورہ ضرور استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی جیسے گندے کپڑے پہنے گوالے اس بہشتی مائع کا ہمیں اصل ہونےکا یقین دلاتےہیں انہیں کیا پتہ کہ دنیاوی دودھ میں تو پہلے ہی ستاسی فیصد پانی ہوتا ہےاور پھروہ جو کارنامےانجام دیتے ہیں تواس سے تو دودھ دودھ نہیں رہتا آب دودھ بن جاتا ہےاب یہ آب دودھ جو پئےگا اس سے پروان چڑھنے والے بچےبھی ناخالص ہوں  گےاب ہم لاکھ ٹی وی پر کہتے پھریں کہ بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں پر ہوتے وہ پورے دنوں کے ہیں۔اب وہ بہن بھائیوں کی جائیداد ہڑپ کریں یا قومی خزانے کو لوٹیں یہ ان کے سیاسی ذہن کی پراگندگی پرمنحصرہے ۔

پاکستان کی سیاست کو کرپشن اوراقربا پروری کی گندگی سے آلودہ کرنے والےسیاست دان زندہ ہوں تو برے، مرجائیں تو  فرشتے،لیکن ایک سیاسی شخصیت ایسی بھی ہے جو بن مرے اور بن پروں کا فرشتہ ہے اور وہ مرد حق ہےسراج الحق ،جو رات تورات دن کو بھی حقانیت کاچراغ ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں اب جو منصورہ لاہورمیں علما و مشائخ کانفرنس کےبعد  انہوں نےجو فرمایا تو کارکن تو بغیر وضو ان کےنام لینے کو گناہ تصور کرنے لگے ہیں۔ فرماتے ہیں سعودی عرب اور قطر تو ان کا بھی آنا جانا لگا رہتا ہےلیکن انہیں تو کسی نے اسٹیل ملزاور فلیٹس تحفے میں نہیں دئیے آب زم زم اور کھجوریں تھما دی جاتی ہیں ۔

حضرت جی!ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سےبادشاہوں کا ہی سلوک کرتا ہے۔ آپ ٹھہرے مرد  قلندر، دیر کے پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے والے، آپ کا دستر خوان خاک پر بچھتا ہے (ویسےآپ کےسیاسی بڑوں نےخاکیوں کی خدمت بھی تو بہت کی ہے)  مانگے تانگے کی گاڑی اورگھرآپ کے پاس ہیں تو آپ کوفرنگی فلیٹوں کی بھلا کیا ضرورت؟ کھجور خور بنیں اوراس کی طاقت سے بدعنوانی کے الزامات تلےدبے حکمران کی کرسی کو ہلانے کی کوشش کریں اور شاباش ہو آپ کی سوشل میڈیا ٹیم کی جو ڈھولچی بنے پھرتے ہیں کہ امیر صاحب نے وزیراعظم کو نکیل ڈال دی۔ امیر صاحب نےانہیں سپریم کورٹ کے کورٹ روم ون میں باندھ دیا، اب سمجھ میں آیا کہ انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام کیسے لکھوایاجاتا ہے۔

منصورہ کے مرد درویش نے بادشاہ وقت پر یہ بھی واضح کیا کہ یہ قطری شہزادے کاخط انہیں نہیں بچا سکے گا یہ تو ہمارے معصوم لیڈر کو وقت ہی بتائے گا کہ قطری\"sirajul-haq-slams-women-protection-bill-1456677312-7595\" شہزادہ ہو یا پاکستانی شہزادے شہزادیاں، کون کس کو بچاتا ہے اور کون کس کو بچانے کے لئے وقت گزارنے کی پڑیاں خریدتا ہے آپ کی ٹوپی تلے کشادہ ماتھے پر ویسے بھی ایسے کئی جھومر لٹک رہے ہیں جو پی ٹی آئی کے اتحادی ہوتے ہوئے بھی نوازشریف کو بچانے کی دلالت کرتے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ آئین توڑنے پر آمروں اور کرپشن کرنے پر سیاست دانوں کو سزا دینے کی کوئی  نظیر نہیں ہےاوراس کی وجہ یہ ہے کہ  نظیر قائم کرنے کے لئے ایسے شخص کا ہونا چاہئے جو بے نظیر کےساتھ باضمیر بھی ہو۔ اس لئے وزیر اعلیٰ پنجاب کی اہلیہ تہمینہ درانی کی شریف فیملی کی جائیداد سے متعلق ٹوئٹ ہو یا پھر چودھری پرویز الہیٰ کو پاناما خط کے پیچھے قطری شہزادے کے بجائے فطری شہزادہ سیف الرحمان نظر آ رہا ہو، تبدیلی والی جماعت کے وکلا کی  تبدیلی کا معاملہ ہو یا بلاول بابو کی27 دسمبرکو دمادم مست قلندر کرنے کی کال، سب پاناما کے ہنگامے میں مست ہیں عوام کےبنیادی مسائل حل کرنے کے لئے ان کے پاس وقت نہیں کہ ان کے اپنے مسائل بہت ہیں ایسے میں پاناما کے ٹیڑھے پہاڑ کو پاتال تک بھی کھود ڈالیں تو اس میں چوہا تو کیا چوہیا بھی  بھی نہیں نکلےگی ہاں مستقبل کے بچے دورپانامی کی سرخی تلے اس کی تفصیلات اپنی نصابی کتابوں میں ضرور پڑھا کریں گے۔

سراج صاحب نے پاناما کے ڈبے سے جو کھجوریں ڈھونڈ نکالی ہیں وہ شاید انہیں نہ کھائیں کہ یہ سیاسی کھجوریں ہیں اور امیر صاحب نے چونکہ سپریم کورٹ میں پاناماگیٹ سے متعلق ایک درخواست بھی دائرکررکھی ہے اس صورت میں تو ان کا ان کھجوروں اور کھجور کے درخت سے بنی کسی بھی چیزکو ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں لیکن لوہے کو موم بنانا آپ سے بہترکون جانتا ہے ویسے بھی  آپ  ٹھہرے درویش صفت سینیٹر جن کا ایک بینک اکاؤنٹ تک نہیں اتنے سادہ ہیں کہ تبدیلی کے دعوے دار عمران خان (معلوم نہیں وہ زوجہ کے علاوہ  اور کس قسم کی تبدیلی چاہتے ہیں) نے 2014 کے دھرنے میں شرکت کے لئے انہیں باربار قائل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ حضرت نہ مانے بلکہ مانسرہ کے جلسے میں انہوں نے عمران خان اور نوازشریف کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دے دیا۔ اب بھلا یہ  بات ہمارے دبلے پتلے کپتان کو کہاں ہضم ہو نی تھی انہوں نےبھی تڑاق سے جواب دیا سراج  صاحب وکٹ  کے دونوں  طرف کھیلنا بند کریں جماعت فیصلہ کرے کہ وہ ن لیگ کے ساتھ ہے یا میری تحریک کے ساتھ۔ دھرنے میں سراج الحق کی جماعت نےشرکت کیا کرنا تھی بعد میں دھرنا ختم  کرانے کے لئے وہ ثالث بن بیٹھے۔ جماعت کی یہی ادائیں ہیں جو نواز لیگ سرکار کو بہت بھاتی ہیں اوراب انہوں نے امیر جماعت کے سینے پربابائےجمہوریت کا تمغہ سجا دیا۔ سراج الحق بنیادی طور پراسکول ٹیچرہیں اگر ملک کی اعلیٰ سیاسی قیادت یوم اساتذہ پر بھی ان کی حوصلہ افزائی کردیا کریں توان کی تابعداری دوچند ہو سکتی ہے اور وہ عین نوازش کے بجائے نون نوازش ہو گی لکھا کریں گے ۔

جہاں تک سراج صاحب کی غریبی کا تعلق ہےتو وہ تو ایسے ہی غریب ہیں جیسے گاندھی وادھی، ہندؤں کے باپو کے متعلق سروجنی نائیڈو نے کہات ھا، باپو کو غریب رکھنے کے لئے کانگریس کو ہر مہینےاسی ہزارروپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ہمارے سراج الحق  چونکہ جدید قائد ہیں اس لئے وہ جماعت کو ہزاروں میں تو نہیں لاکھوں میں ضرور پڑتے ہوں گےلیکن بھر بھی کارکن ان کےبوسہ زن ہی رہیں گےاس لئے کھجوریں کھائیں اور طاقت والی لمبی عمر پائیں بھلا کھجوریں پاناما مارکہ اور قطری شہزادے کے کسی باغ  کی ہی کیوں نہ ہو۔

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments