عمران خان۔۔۔ میڈیا کا عظیم محسن


\"usmanعمران خان پاکستانی نیوز انڈسٹری کی ایک ایسی پراڈکٹ تھا جو چند سو آدمیوں کے ساتھ بھی دھمال ڈالنے میں کمال رکھتا تھا۔

اشتعال کیسے پیدا کرنا ہے، سنسنی خیزی کو کیسے جنم دینا ہے، وہ میڈیا مارکیٹنگ کے بنیادی اصولوں سے واقف تھا۔

عمران خان چلتا تھا تو میڈیا کو خبریں ملتی تھیں، وہ رخ بدلتا تھا، وہ قدم اٹھاتا تھا، اس کی نظروں کے بدلتے تیور بھی خبریں دے جاتے تھے۔

ککری گراؤنڈ کراچی میں جلسے کے لیے آیا، دو بجے جلسہ گاہ کا رخ کیا، وہاں اکا دکا کارکن گھوم رہے تھے تو فورا ہی اس نے فائیواسٹار چورنگی پہنچنے کا فیصلہ کرلیا۔

اس دوران زبردست میڈیا کوریج ملی اور جب شام کو ککری گراؤنڈ میں عمران خان پہنچا تو اس کوریج سے متاثر ہوکر دو تین ہزار لوگ جمع ہوچکے تھے اور جو شخص میڈیا کا بھرم رکھے، میڈیا کیوں نہ اس کی پردہ پوشی کرے، تین ہزار لوگوں کو تین لاکھ دکھانا میڈیا کے لیے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کا کھیل تھا چنانچہ شام میں تمام نیوز چینلز کی شہ سرخی تھی کہ عمران خان نے پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری میں بھی شگاف ڈال دیا، وہ الگ بات ہے کہ ککری گراؤنڈ کے جلسے میں کوئی لیاری والا نہیں تھا، میڈیا کوریج کو دیکھ کر کراچی کے دوسرے حصوں سے لوگ آئے تھے، جن میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو \"imran-khan\"عمران خان کے قافلے کے ساتھ شوق شوق میں شامل ہوتے گئے

صرف عمران خان ہی نہیں، پوری تحریک انصاف میڈیا کی بیساکھیوں پر کھڑی رہی، چناچہ جیسے ہی نوازشریف کو پارلیمانی احتساب سے بچانے کے لیے عمران خان نے سپریم کورٹ میں پانامہ کیس لے جانے کا غیرمقبول فیصلہ کیا، تحریک انصاف کے اگلے تمام متواتر اجلاس میڈیا اسٹریٹجی کے حوالے سے تھے۔

سیاست دان پارلیمان میں کردار ادا کرتا ہے مگر تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ٹاک شوز میں اپنا کردار ادا کیا۔

سندھ کے ایک سینئر صحافی نے پی ٹی آئی رہنما عمران اسماعیل سے سوال کیا کہ سندھ اسمبلی کے رکن سردار شاہ نے ایوان میں بیان دیا ہے کہ یہ پاکستان بھٹو کا ہے، آپ اس پر کیا کہتے ہیں۔

عمران اسماعیل نے جواب دیا کہ آُپ کو کیسا ساٹ چاہیے؟ آپ صرف یہ بتائیں، ایسا ساٹ دے دوں کہ جس سے آپ کے باس آپ سے خوش ہوجائیں۔

ساٹ میڈیا کی زبان میں کسی بھی شخص کے مختصر ترین دورانئے پر مشتمل انٹرویو کے ویڈیو کلپ کو کہتے ہیں۔\"pti-azadi-march-with-girls\"

پی ٹی آئی رہنما نے اپنے ریمارکس دے کر صحافی کے باس کو خوش کرنے کی کافی بھرپور کوشش کی مگر ان کی ساٹ دینے کی اپروچ تحریک انصاف کے تمام سیاست دانوں کی مجموعی ذہنی سطح کی عکاس بھی ہے۔

شاہ محمود قریشی کے سامنے سے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے رہنما کو پولیس دبوچ کر لے گئی اور وہ میڈیا کے کیمروں کے سامنے سے ادھر ادھر ہونے کو تیار نہیں    ہوئے حالانکہ ان کی ذرا سی مزاحمت پر کارکن کو گرفتاری سے بچایا جا سکتا تھا۔

کراچی میں کام کرنے والے بااثر میڈیا ورکرز کا تعلق ایم کیوایم اور جماعت اسلامی سے ہے، جماعت اسلامی کی جانب جھکاؤ رکھنے والے میڈیا ورکرز بھی ایم کیوایم کی صرف جماعت اسلامی کے مقابلے میں مخالفت کرتے ہیں، اگر ایم کیوایم کو پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف کی وجہ سے کسی چیلنج کا سامنا ہو تو جماعت اسلامی کی جانب رجحان رکھنے والے میڈیا ورکرز بھی بالکل ایم کیوایم کے کارکن والا کردار ادا کرتے ہیں چناچہ اس کا مظاہرہ ہم نے پی ٹی آئی کے نشتر پارک کراچی کے جلسے میں دیکھا جب اسی میڈیا نے ایم کیوایم کے مقابلے میں آنے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی پول کھول کر رکھ دی، یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے گزشتہ تمام جلسے کراچی میں ایم کیوایم کے تعاون سے ہوئے، یہاں تک کے پی ٹی آئی کے جلسے کی سیکیورٹی کے انتظامات تک ایم کیوایم کے سیکٹر انچارجز کے پاس تھے

عمران خان کے زوال کے ساتھ ہی میڈیا کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوچکے ہیں اور اس تحریر کا مقصد انہی مسائل کو فوکس کرنا ہے

نیوز میڈیا پر دو طرح کی خبریں ہوتی ہیں، ایک وہ جو لائیو کوریج کے ذریعے ناظرین کو مل رہی ہوں اور دوسری وہ جو نیوز رپورٹس کی شکل میں پیش کی جائیں

مسلسل لائیو کوریج ریٹنگ میں اضافے کی وجہ بنتی ہے مگر لائیو کوریج کی کوئی وجہ بھی ہو اور یہ وجہ عمران خان تھا\"pti-girls-dance\"

اب نیوزچینلز کے پاس لائیو کوریج کی کوئی وجہ نہیں، جلسوں کے لیے تیار ہوتی خوب صورت لڑکیوں کے بدن کے مختلف زاویوں کو میڈیا نہیں دکھا سکتا، ناچتے گاتے لڑکوں کا جوش اور چیختے چنگھاڑتے الزمات کا شور تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے مک مکا کے ساتھ ہی کہیں دب چکا ہے

اب نیوز چینلز کے پاس سوائے عمدہ مواد نشر کرنے کا کوئی راستہ نہیں، لوگ اسی نیوزچینل کو دیکھیں گے، جس کے پاس عمدہ مواد اور خبروں کا بہترین انتخاب ہوگا جبکہ اس مواد کو پیش کرنے کے طریقہ کار میں پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا بہترین مظاہرہ بھی ضروری ہے

دسمبر میں اگر پیپلزپارٹی کوئی تحریک چلاتی ہے تو کیا وہ میڈیا جو خود کو اپوزیشن کا ترجمان قرار دیتا ہے، وہی کردار ادا کرے گا، جو تحریک انصاف کے معاملے میں کیا

ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو کیونکہ اس وقت ہر چینل اپنی پسند کی سیاسی جماعت کے تناظرمیں ملکی مفاد کو دیکھ رہا ہے تاہم عوامی ترجیحات چینلز کی ترجیحات سے مختلف ہوتی ہیں، عوام احتجاجی تحریکوں کو پسند کرتے ہیں اور پی پی کی احتجاجی تحریک کی صورت میں جو چینل اس کو کوریج دیں گے، وہ نمایاں جگہ بنا سکتے ہیں\"22\"

نیوز چینلز کے لیے سنسنی پیدا کرنے کے لیے ایشوز ڈھونڈنا کبھی کوئی مشکل کام نہیں رہا تاہم عمران خان نے اس حوالے سے جتنا مستقل اور بھرپور کردار ادا کیا ہے، اس کی نظیر پاکستانی میڈیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، میڈیا نے اربوں روپے کمائے، میڈیا ورکرز کے گھروں میں خوش حالی آئی، پوری انڈسٹری کی زندگی سنور گئی، عمران خان کو تاریخ میں میڈیا کے ایک عظیم محسن کے طور پر ہمیشہ سنہری لفظوں سے یاد رکھا جائے گا

عمران خان کے زوال کے بعد اب نیوزچینلز کی ریٹنگ میں بڑا فرق جلد نظر آنے والا ہے، اوپر کے نمبروں پر آنے والے نیوزچینلز زوال پذیر ہوسکتے ہیں جبکہ کچھ نئے چینلز کو بھی ٹاپ سلاٹ میں جگہ بنانے کا موقع مل سکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments