ہمارے چار قدیمی خوف اور چار ناگزیر امکانات


ولادی میر لینن کو ایک روسی کہاوت بہت پسند تھی۔ خوف کی بڑی بڑی آنکھیں ہوتی ہیں۔ لینن یہ کہاوت اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بندھانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ \"wajahat1\"ہمارے شاعر ظہور نظر نے اسی کیفیت کو ایک ضرب المثل مصرع میں بیان کیا، جان لیوا خوف تھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں…. 1984 ءمیں اٹک سازش کیس کے ملزم میجر آفتاب احمد نے بارانی پنجاب کے ایک بزرگ کا ایک جملہ دہرایا تھا؛ \”ہم ساری زندگی ناگہانی کے خوف میں مبتلا رہے، ناگہانی ہوئی تو نہیں لیکن ہمیں اس خوف نے جینے نہیں دیا\”۔ نفسیات دان خوف کا تجزیہ کرتے ہوئے نامعلوم اور غیر حقیقی جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ اندھیرا خوف کا نشان ہے اور روشنی اعتماد کی علامت۔ ہم نے اپنے ملک میں چار خوف پال رکھے ہیں۔ ہمیں جمہوریت سے خوف لاحق ہے۔ جمہوریت کے لئے جدوجہد کی ایک طویل اور روشن روایت کے باوجود ہمارا مرکزی بیانیہ جمہوریت کو ایک اجنبی، غیر ضروری اور موہوم تصور سمجھتا ہے۔ ہماری اجتماعی نفسیات میں جبر ایک مانوس طرز حیات کے طور پر موجود ہے۔ ہم جمہوری معاشروں کے نتائج کی خواہش ضرور رکھتے ہیں لیکن جمہوریت کے بنیادی اصول یعنی شہریت کی مساوات کو قبول کرنے کی بجائے جمہوریت کو اکثریت کے جبر کا آلہ کار سمجھتے ہیں۔ الطاف گوہر نے 1972 میں بھٹو صاحب کو یاد دلایا تھا کہ انہوں نے ووٹ کے ذریعے حکومت کا حق حاصل کیا ہے، پاکستان کو فتح نہیں کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بھٹو صاحب کو ڈان کا یہ اداریہ پسند نہیں آیا تھا۔ کئی برس بعد سائیں جی ایم سید نے لکھا کہ جمہوریت کے نتیجے میں سندھ ہمیشہ کے لئے پنجاب کی عددی اکثریت کا غلام رہے گا۔ متحدہ ہندوستان میں ہمیں ہندو کی اکثریت سے خوف تھا۔ پاکستان میں ہمیں بڑے صوبے کی بالادستی کے خوف نے آن لیا۔ ہم نے مشرقی بنگال کی اکثریت کو پیرٹی کے اصول کی مدد سے کچلنا چاہا۔ ہم یہ سادہ اصول نہیں سمجھ سکے کہ جمہوریت میں مستقل اقلیت اور مستقل اکثریت کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ جمہوریت میں لسانی، ثقافتی اور مذہبی شناخت کا احترام کیا جاتا ہے لیکن ہم کسی زبان، عقیدے یا ثقافتی گروہ کی بجائے مساوی شہریت کے اصول پر جمہوری بند و بست میں شریک ہوتے ہیں۔ ہم نے جمہوریت کی خواہش اور جمہوریت کے خوف کے درمیانی نیم تاریک منطقے پر پڑاو ¿ ڈال رکھا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے اخبارات اور ٹیلی وڑن کی سکرین پر جمہوریت کی مذمت کو وہ پذیرائی کبھی نہیں ملتی جو ہم گزشتہ آٹھ برس سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔

ہمارا دوسرا خوف جدیدیت کی مزاحمت سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم جدید کے خوف میں مبتلا ہیں اور قدیم کی سادہ تقویم میں واپس جانا چاہتے ہیں۔ ہم نے یہ سادہ سی بات سمجھنا نہیں چاہتے کہ جدیدیت کوئی قائم بالذات مظہر نہیں۔ علم، معیشت اور تاریخی تجربات کے نتیجے میں جنم لینے والے نئے زمینی حقائق لمحہ موجود کی جدیدیت ہوتے ہیں۔ علم اور معیشت کی منطق ناقابل مزاحمت ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جسے قبول نہ کیا جائے تو فرد اور معاشرے میں الجھاو  پیدا ہوتا ہے۔ اقبال نے آئین نو اور نقش کہن کو ایک ہی مصرع میں باندھ کے یہی قضیہ سلجھانا چاہا تھا، ہم نے کان نہیں دھرے۔ ہمارا تیسرا خوف عورت کی آزادی اور مساوات سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم سو برس سے عورت اور مرد میں رتبے اور اختیار کا وہ قدیمی نمونہ قائم رکھنا چاہتے ہیں جو عصر حاضر میں ممکن ہی نہیں۔ اس سے ہمارے رویوں میں کجروی نے دخل پایا ہے۔ ہم نے اس نکتے پر شدید خواہش اور شدید خوف کے زیر اثر ایک غیر حقیقی حساسیت اختیار کر رکھی ہے۔عورت اور مرد کے حیاتیاتی اختلافات کو معاشی اور سیاسی کردار کی بنیاد قرار دینے نے ہمیں منافقت کی پسماندگی میں دھکیل رکھا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ میں نازیبا خیالات کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور گلی کوچوں میں ہماری بدن بولی پر عورت کے خوف کا تشنج طاری ہے۔ ہم خاندان، معیشت اور سیاسی شراکت میں عورتوں کی صلاحیت سے خوفزدہ ہیں۔ معاشی مفادات کے ممکنہ نئے نمونوں کے خوف نے معاشرے کو صنفی امتیاز کا یرغمالی بنا رکھا ہے۔ ہم عورتوں کے احترام کے نام پہ عورت کو بے اختیار رکھنا چاہتے ہیں۔ عملی طور پر ایسا ممکن نہیں چنانچہ ہماری معیشت اور معاشرت نے جمود کا طوق پہن رکھا ہے۔ ہمارا چوتھا خوف معیشت سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم زراعت، صنعت و حرفت، مصنوعات اور پیداوار کی بجائے مفت خوری کی نفسیات کا شکار ہیں۔ ہمیں خوف ہے کہ معاشی سرگرمی کو مرکزی ترجیح کے طور پر اپنایا گیا تو پیوستہ مفادات کے ڈھانچے تلپٹ ہوجائیں گے۔ ہم معیشت پر سنجیدہ توجہ کو اپنے شایان شان نہیں سمجھتے۔

خوف کے ان غیر حقیقی منطقوں کے پہلو بہ پہلو چار نئے امکانات بھی ابھر رہے ہیں۔ پاکستان میں ملائیت اور غیر جمہوری قوتوں کا گٹھ جوڑ اپنی افادیت ختم کر چکا ہے۔ اب اس امکان کی تجسیم میں کتنا وقت لگے گا، اس کا ٹھیک تخمینہ دینا ابھی ممکن نہیں لیکن مذہبی اشتعال انگیزی اور مسلح کارروائیوں کے ذریعے جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے کا تجربہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دوئم یہ کہ جغرافیائی تشکیل نو کا امکان ختم ہو رہا ہے۔ جغرافیائی تبدیلیوں کا موقف ایک نعرے کے طور پر شاید ابھی موجود رہے لیکن آئندہ برسوں میں معیشت کے تقاضے ہمیں سٹیٹس کو تسلیم کرنے کی طرف لے جائیں گے۔ سوئم پاکستان میں پہلی مرتبہ وفاق کے تقاضے سیاسی حرکیات میں اپنا جائز مقام حاصل کر رہے ہیں۔ 2014 کے دھرنے اور 2016 کے ہنگامہ پرور مہینوں میں یہ واضح ہوگیا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کی مدد سے جو راستے بنائے گئے تھے اب سیاست کا سفر انہی خطوط پر آگے بڑھے گا۔ وفاقی اکائیوں کے باہم انحصار، صوبائی حقوق اور جمہوریت کے ساتھ وفاقی بندوبست کا تعلق ایسے زاویے ہیں جن میں ہماری قوم کے استحکام اور ترقی کے امکانات موجود ہیں۔ چہارم یہ کہ ہم گھات کی حکمت عملی سے راہداری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بائبل مقدس کی زبان میں نیچی جگہوں کو بلند کیا جائے گا اور بلند چٹانوں کو ہموار کیا جائے گا۔ راہداری محض سڑکوں کا ایک جال نہیں، یہ وسیع تر ترجیحات سامنے لائے گی۔ اس میں مشکل یہ ہے کہ ہمارے چار قدیمی خوف ابھی موجود ہیں اور ابھرتے ہوئے امکانات کی ناگزیریت خوف کی ان صورتوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ ایک دوراہا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ہمارے فیصلہ ساز اور رائے عامہ تشکیل دینے والے خوف اور امکان کے ان دو متضاد نمونوں میں سمجھوتے کی کیا صورت نکالتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments