عدالتی آمریت بھی ناکام ہوگی


\"mujahidپاکستان میں سیاست کی باگ ڈور سپریم کورٹ کے ہاتھ میں دینے کے بعد یہ بحث کی جا رہی ہے کہ کیا سیاسی معاملات میں عدالت عظمیٰ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنا مناسب ہے یا ایسے مسائل سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کو عدالت سے باہر اور پارلیمنٹ میں ہی طے کر لینے چاہئیں۔ اس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ سیاسی معاملات طے کرنے کی سب سے بہتر جگہ پارلیمنٹ ہے۔ اپوزیشن برسر اقتدار جماعت سے مقابلے میں اقلیت میں ہونے کے باوجود موثر اور قابل ذکر کردار ادا کر سکتی ہے۔ کیوں کہ اسے میڈیا کی اعانت حاصل ہوتی ہے اور قوم حکمرانوں کی بداعمالیوں اور عاقبت نااندیشوں کے بارے میں مخالفین کی رائے کو غور سے سنتے ہیں۔ لیکن اس مقصد کےلئے ملک کے سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کا پارلیمنٹ پر اعتبار ہونا بے حد ضروری ہے۔ اس کے بعد یہ اہم ہے کہ منتخب نمائندے پارلیمنٹ کے اجلاس میں باقاعدگی سے شریک ہوں اور اہم قومی امور پر مکمل تیاری کے ساتھ ایوان کے مباحث میں حصہ لیں۔ یہ مزاج پاکستانی پارلیمانی سیاست میں مفقود ہے۔ اس لئے حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ملک کی سیاست میں پارلیمنٹ کوئی اہم کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی اپنی عددی اکثریت کی بنا حکومت قائم کرکے پارلیمنٹ اور اس کے ارکان کو بھول جاتی ہے اور اپوزیشن انتخابات ہارنے کے بعد حکومت کو زچ کرنے یا اقتدار سے اٹھا کر باہر پھینکنے کےلئے پارلیمنٹ کے سوا کوئی بھی راستہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتی۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برس کے دوران دھاندلی پر ہنگامہ ، دھرنا دینے کا ہتھکنڈہ اور دارالحکومت بند کرنے کی دھمکیاں دینے کے بعد بالآخر سپریم کورٹ کو پناہ گاہ سمجھ لیا گیا ہے۔ جو پارٹیاں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما پیپرز کا معاملہ سپریم کورٹ میں لے کر گئی ہیں، ان میں سے تحریک انصاف کے سوا کسی کو بھی پارلیمنٹ میں قابل ذکر نمائندگی حاصل نہیں ہے۔ اب یہ ساری پارٹیاں سپریم کورٹ سے جو انصاف مانگ رہی ہیں وہ یہ نہیں ہے کہ اقتدار کے باعث مالی وسائل حاصل کرنے والے سیاستدانوں کا احتساب کیا جائے اور ان کے جرائم پر انہیں سزا دی جائے۔ (اگرچہ یہ موضوع اپنی جگہ پر متنازعہ ہے کہ سپریم کورٹ کس حد تک سیاستدانوں کے اعمال کا جائزہ لینے اور ان پر حکم صادر کرنے کا مجاز ادارہ ہے) تحریک انصاف نے جو موقف اختیار کیا ہے اور جماعت اسلامی اور شیخ رشید جس کی تائید کرتے ہیں، وہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کا مطالبہ ہے۔ یہ پارٹیاں عدالت عظمیٰ سے بدعنوانی کے خلاف کوئی میکنزم استوار کرنے کا مطالبہ کرنے کی بجائے ایک شخص کو اقتدار سے محروم کرنے کی خواہش کر رہی ہیں۔ اس طرح اب سپریم کورٹ سے وہی توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں جو اس سے پہلے عام طور سے فوج سے لگائی جاتی تھیں۔ گو کہ فوج سے بھی پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کے مصداق، رابطہ قائم رکھتے ہوئے، ملک و قوم کی ابتر حالت کا مرثیہ پڑھ کر وزیراعظم کی گوشمالی کی خواہش دلوں میں پلتی رہتی ہے لیکن ملک میں کسی حد تک ابھرنے والے عوامی شعور ، میڈیا کے اثر و رسوخ اور فوج کی عدم دلچسپی کے باعث اب محروم و مجبور سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کو اپنی امیدوں کا محور بنایا ہے۔ اس سے امید کی جا رہی ہے کہ پاناما پیپرز چونکہ عالمی میڈیا میں منکشف ہونے والا ایک اہم اسکینڈل ہے، جس کے سبب متعدد ملکوں کے سیاسی لیڈر بدحواسی کا شکار ہوئے ہیں یا انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا ہے، اس لئے اب پاکستان کی سپریم کورٹ بھی اپنے ملک کے وزیراعظم کو ناہل قرار دینے کا اعلان کرے۔\"imran-khan\"

عمران خان اور ان جیسے سیاسی لیڈروں کے دلوں میں پلنے والے اس خواہش کے تحت پاناما پیپرز میں ذکر کو نواز شریف اور ان کے اہل خاندان کی ثابت شدہ بدعنوانی قرار دے کر خود کو اور سپریم کورٹ کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ نواز شریف کے خلاف جرم ثابت ہو چکا ہے۔ بس اب عدالت کی طرف سے ان کے جرم کی سزا سنانے کی دیر ہے۔ یہ رویہ ملک کے مروجہ اصول قانون و انصاف سے لگا نہیں کھاتا۔ اس وقت پاکستان کی عدالتیں جس عدالتی نظام کے تحت کام کرتی ہیں، اس کے تحت الزام عائد کرنے والے کو شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ الزام ثابت کرنا پڑتے ہیں۔ مدعا علیہ کو اپنی صفائی میں دلائل اور شواہد لانے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں کوئی بھی عدالت اگر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہے گی تو وہ ’’ہم اس معاملہ سے جلد فارغ ہونا چاہتے ہیں‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے فریقین پر دباؤ نہیں ڈال سکتی۔ البتہ اگر اس معاملہ کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے سیاسی مقاصد کے حصول کا معاملہ سمجھ کر دیکھا جائے تو واقعی فریقین کو بھی اس مقدمہ سے فارغ ہونے کےلئے جلدی کرنے کی ضرورت ہے اور سپریم کورٹ کو بھی جلد از جلد اس سیاسی معاملہ سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس طریقہ پر عمل کرتے ہوئے نہ تو انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں اور نہ سپریم کورٹ اپنے اختیار اور مینڈیٹ کے مطابق اقدام کرے گی۔

سپریم کورٹ کو یہ طے کرنا ہے کہ پاناما پیپرز کے حوالے سے وہ جن معاملات کی سماعت کر رہی ہے، ان میں قانون سے انحراف کا پہلو کتنا مستحکم ہے۔ اگر اسے یہ اطمینان ہے کہ ملک کے قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور برسر اقتدار شخص قانون شکنی کے نتیجہ میں اپنے بچوں کو بے پناہ مالی وسائل فراہم کرنے کا سبب بنا ہے تو اسے ضرور اس معاملہ کو مروجہ طریقہ کار کے مطابق نمٹانا چاہئے۔ یعنی وہ متعلقہ اداروں پر یہ ذمہ داری عائد کرے کہ وہ اس معاملہ کے نشان زدہ پہلوؤں کی تحقیقات کرکے نتائج سامنے لائیں۔ اگر یہ اندیشہ ہو کہ یہ ادارے کمزور ہیں اور ملک کے وزیراعظم کی غیر قانونی حرکتوں کا احتساب کرنے اور اس حوالے سے نظام عدل کی معاونت کرنے سے قاصر ہیں تو پارلیمنٹ سے درخواست کی جائے وہ متعلقہ اداروں کو مضبوط ، خود مختار اور طاقتور بنانے کےلئے قوانین بنائے تاکہ سپریم کورٹ غیر ضروری طور سے اپنا وقت نہ ضائع کرے۔ سپریم کورٹ کو یہ دھیان میں رکھنا ہوگا کہ نہ تو وہ تحقیقاتی ادارہ ہے کہ کسی جرم کا سراغ لگانے کےلئے تحقیقات کا آغاز کرے۔ اور نہ ہی پارلیمان ہے جو قانون سازی کی مجاز ہے۔

حتیٰ کہ جس عدالتی کمیشن کے قائم کرنے کی بات کی جا رہی ہے، وہ بھی تحقیقاتی ادارے کا رول ادا کرنے کا مجاز نہیں ہو گا۔ اسے بھی جرم کے بارے میں معلومات کے حصول کےلئے پولیس ، ایف آئی اے یا احتساب بیورو جیسے اداروں سے ہی تعاون حاصل کرنا ہو گا۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ عدالتوں کے فاضل جج مقدمات کی سماعت کے دوران ان اداروں یا دیگر محکموں کے افسران کی اہلیت ، ناقص کارکردگی اور حسب توقع نتائج فراہم نہ کرنے کے حوالے سے ریمارکس دیتے رہتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کو یہ دیکھنا ہو گا کہ اس قسم کے ریمارکس کس حد تک فاضل ججوں کے آئینی اختیار کی حدود کے مطابق ہوتے ہیں اور کیا ایسے ریمارکس دے کر عدالتیں سرکاری اداروں اور محکموں کی کارکردگی بہتر کروانے میں کامیاب ہو سکی ہیں۔ سپریم کورٹ سمیت ملک کی تمام عدالتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے جج حضرات خود یہ یقین کر سکیں کہ ان کی گفتگو ، تبصرے ، ریمارکس اور فیصلے قانون کی روح اور آئینی تقاضوں کے عین مطابق ہوں۔ بصورت دیگر ملک کے دیگر اداروں کی طرح اعلیٰ عدالتیں بھی ایسے کام کرنے کی مرتکب ہو سکتی ہیں جو ان کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔

پاناما پیپرز کے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو یہ اہم فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ سیاسی جماعتیں مدعی کی صورت میں یا \"edit\"عدالتی کارروائی کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی تماشائی کے طور پر عدالت سے ایسے فیصلہ کی توقع کر رہی ہیں جو ان کےلئے سیاسی طور سے سودمند ثابت ہو سکے۔ سپریم کورٹ ایسی کسی خواہش کو پورا کرنے کےلئے اقدام نہیں کرسکتی۔ اسے سختی سے یہ طے کرنا ہوگا کہ زیر بحث مقدمہ کو پہلے غیر سنجیدہ FRIVOLOUS قرار دینے کے بعد آخر بعد میں سماعت کےلئے کیوں قبول کیا گیا۔ تاریخ کا طالب علم یہ سوال ضرور اٹھائے گا کہ کیا معزز عدالت کے قابل احترام جج اس معاملہ سے منسلک سیاسی اہمیت کی سنسنی خیزی سے متاثر ہوئے تھے یا انہوں نے واقعی جرم کی سنگینی اور اصول قانون کے میرٹ پر اس مقدمہ پر غور کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ عدالت اگر سیاسی جماعتوں کی سیاسی توقعات پوری کرنے میں آلہ کار کے طور پر استعمال ہوگی تو اس عمل میں کہیں نہ کہیں انصاف کے تقاضے ضرور مجروح ہوں گے۔ اس لئے سپریم کورٹ پر لازم ہے کہ وہ یہ طے بھی کرے اور فریقین پر واضح بھی کرے کہ عدالت سیاسی فیصلہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے فاضل ارکان ملک کے سیاسی ماحول کی پیچیدگیوں سے ناواقف نہیں ہو سکتے۔ وہ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے کہ بعض عناصر فوج کو سیاست میں دخل اندازی پر آمادہ کرنے میں ناکام ہو کر اب انہی مقاصد کےلئے سپریم کورٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ماضی میں ملک میں سیاسی انارکی کی وجہ سے فوج کے مختلف کمانڈروں نے حالات کو درست کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ چار فوجی حکومتوں کی قانونی حیثیت پر بحث نہ بھی کی جائے اور صرف اس کے سیاسی اثرات پر غور کیا جائے تو بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان فوجی ادوار میں بھی اصلاح احوال کےلئے کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہو سکی۔ بلکہ ہر فوجی آمریت کے بعد مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہوا اور ملک میں جمہوری روایت کو شدید نقصان پہنچا۔ اسی بار بار کی دخل اندازی کی وجہ سے پاکستان میں نظام حکومت کمزور ، ادارے غیر موثر اور بدعنوانی کا کلچر راسخ ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ دیکھنا اور سمجھنا ہے کہ جو کام چار فوجی حکومتیں طویل مدت تک برسر اقتدار رہنے کے باوجود نہیں کر سکیں، وہی فریضہ سپریم کورٹ ایک سیاسی فیصلہ کی صورت میں کیوں کر سرانجام دے سکتی ہے۔ یہ ملک فوج کی جمہوریت پر حکمرانی کے تاریک دور سے نکلنے کے بعد اب کسی عدالتی آمریت کے دور میں داخل ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وقتی طور پر اس صورتحال میں دلکشی ضرور محسوس ہوسکتی ہے اور یہ محسوس کرتے بھی دیر نہیں لگتی کہ ہم اس اہم موڑ پر قوم کی خدمت کا عظیم فریضہ ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ ہیجان خیزی صرف اس ملک کے نظام عدل کو نقصان پہنچائے گی اور عدالتیں اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر سیاسی معاملات میں ملوث ہوکر کوئی قومی خدمت سرانجام نہیں دے سکیں گی۔ اس ملک کے عوام فوجی آمریت کے چار ادوار کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے کے بعد اب جوڈیشل ایکٹو ازم یا عدالتوں کے ’سیاسی درست‘ رویہ کو برداشت نہیں کرسکتے۔

ملک کے سیاستدان جمہوریت ، نظام کے استحکام اور عوام کی بہبود کی بات کرتے نہیں تھکتے۔ لیکن فوج کے بعد عدالتوں کو سیاست میں کھینچنے کی کوششیں فعال جمہوری نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ عوام کے ووٹ لے کر منظرنامہ پر آنے والے لوگوں کو کسی طور یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ فوج سے مایوس ہو کر عدالتوں کے ذریعے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ یہ روایت قائم کرنے پر مصر رہیں گے تو جو پھندا وہ آج دوسروں کےلئے تیار کر رہے ہیں، کل کو وہ ان کے گلے میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ ان لیڈروں کو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرکے عدالتوں میں حاضری لگوانا زیب نہیں دیتا۔ ان کا اصل کام پارلیمنٹ میں ہے جہاں وہ جلد یا بدیر مسلسل محنت سے نظام کی بہتری کےلئے خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔

امریکی صدر باراک اوباما نے گزشتہ دنوں جمہوریت پر ایک تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جمہوریت کے نتائج کی صورت میں وقتی طور پر مشکلات پیش آ سکتی ہیں لیکن اسی کے ذریعے ان مشکلات کا حل بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے‘‘۔ پاکستانی سیاستدانوں کو بھی جمہوریت سے پیدا ہونے والے مسائل کو جمہوری طریقوں سے حل کرنے کا سبق سیکھنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments