چلا ہوا سیاسی کارتوس آزمائیں یا گیلا کارتوس؟


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

بھائی جانثار خان مظلوم نہایت اداسی کے عالم میں کپ میں چمچہ ہلا رہے تھے۔ ان کی نظریں ٹی وی پر جمی ہوئی تھیں۔ ہم نے ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔

ہم: بھائی پریشان مت ہو، ابھی عدالت کا فیصلہ آنے میں بہت وقت باقی ہے۔

جانثار خان مظلوم: ہم انصاف کی خاطر تحریک چلا رہے ہیں اور ظلم یہ ہے کہ ہمیں وہ انصاف نہیں ملتا جو ہمیں چاہیے۔

ہم: آپ اتنے دلبرداشتہ کیوں ہیں؟

جانثار خان مظلوم: عدالت میں ریمارکس دیکھو کیسے آ رہے ہیں۔ چھے ہزار صفحات کا ثبوت دیا ہے۔ اتنے بھاری ثبوت کو تو دیکھتے ہی ہمارے حق میں فیصلہ آ جانا چاہیے تھا۔ مگر الٹا ہمی پر الزام لگ رہا ہے کہ اتنے صفحات کو پڑھنے میں جتنا وقت لگے گا، اس کی وجہ سے تو مقدمہ تاخیر کا شکار ہو جائے گا اور تحریک انصاف والے اس کے ذمہ دار ہوں گے۔

ہم: ثبوتوں میں کیا تھا؟

جانثار خان مظلوم: ایک کتاب تھی سیاستدانوں کے کرتوتوں کے بارے میں۔ چند ہزار اخباری تراشے تھے۔
ہم: واقعی۔ اس ثبوت سے تو ہر ایک کو قائل ہو جانا چاہیے۔ چھپے ہوئے حرف کی حرمت ہوتی ہے۔ ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ چھپا ہوا حرف غلط نہیں ہو سکتا ہے۔

\"nawaz\"جانثار خان مظلوم: شکر ہے کہ آپ نے پہلی مرتبہ سچ بات کہی ہے۔ اخبارات ملکی تاریخ کے گواہ ہوتے ہیں اور کوئی ذی شعور شخص ان کی خبروں کو جھٹلا نہیں سکتا ہے۔

ہم: کل ایک مسلم لیگ ن والا ملا تھا۔ وہ خان صاحب کے بارے میں کچھ اخباری تراشے اور تصویریں دکھا رہا تھا اور ان کے کردار پر الزام لگا رہا تھا۔ کہتا تھا کہ وہ دفعات باسٹھ تریسٹھ کے تحت نااہل ہیں۔ کوئی رام کہانی سناتے ہوئے کسی سیتا وغیرہ کا ذکر کر رہا تھا۔

جانثار خان مظلوم: یہ اخبار والے ہوتے ہی بکاؤ مال اور جھوٹے ہیں۔ جو حکمران چاہے ان چیتھڑوں میں اپنی مرضی کی خبر لگوا دے اور کسی سچے شخص کی کردار کشی کر دے۔ میڈیا ہوتا ہی شیطان کا آلہ کار ہے۔

ہم: ویسے ایک بات ہے۔ خان صاحب کی شخصیت میں جو کشش ہے، اس کی کیا ہی بات ہے۔ اور ساتھ شیخ رشید صاحب ہوں تو دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں حق سچ بولتے ہوئے کچھ نہیں سوچتے ہیں۔ بلکہ حق سچ کیا، کوئی بات بھی ہو، سوچے سمجھے اور ڈرے بغیر دھڑلے سے کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے میڈیا ان کو ہی دکھاتا ہے، مسلم لیگ ن کے لیڈروں کو نہیں۔

\"hamid-khan-lawyer\"جانثار خان مظلوم: ہاں ان کو میڈیا پر دیکھ کر طبیعت خوش ہو جاتی ہے کہ کس طرح حکومت کے پول کھولتے ہیں۔ میڈیا واقعی حق کا ساتھ دیتا ہے ورنہ پی ٹی وی کو دیکھو، خان صاحب یا شیخ رشید کو کبھی دکھاتا ہی نہیں ہے۔
ہم: حامد خان کیس سے الگ ہو گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ عدالتی جنگ لڑ سکتے ہیں، مگر میڈیا پر ان کی جس طرح سے تضحیک کی جا رہی ہے، وہ ان کے لئے قابل برداشت نہیں ہے۔

جانثار خان مظلوم: میڈیا ظالموں اور حکمرانوں کا ساتھ دیتا ہے اور ان کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ حامد خان صاحب جیسے نفیس شخص کے بارے میں بری بری باتیں کر رہا ہے۔

ہم: خدانخواستہ کہیں میڈیا ان حکمرانوں کے اشارے پر ہی تو خان صاحب اور شیخ رشید کو اتنی کوریج نہیں دے رہا ہے؟ کہیں وہ ان کی باتیں اتنی زیادہ دکھا کر عوام کو ان کی شخصیت کے بارے میں منفی تاثر دینے کے مشن پر تو نہیں ہے؟ اب خود سوچیں، ایک مرتبہ میڈیا دکھاتا ہے کہ خان صاحب کہتے ہیں کہ سارے لیڈر جھوٹ ہیں لیکن میرا وعدہ ہے قوم سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا، اور پھر اگلے دن کچھ ایسا دکھا دیتا ہے کہ خان صاحب کے الفاظ ہلکے پڑ جاتے ہیں۔ مجھے تو اس میں حکومتی سازش دکھائی دے رہی ہے۔

جانثار خان مظلوم: آپ نے تو سوچ میں ڈال دیا۔ واقعی، میڈیا کو سب کچھ نہیں دکھانا چاہیے۔

\"bilawalہم: چلیں چھوڑیں۔ یہ پاناما والا کیس تو لٹکتا دکھائی دیتا ہے۔ کل ایک دوست مشورہ مانگ رہے تھے کہ اگلے الیکشن میں کس کو ووٹ دیا جائے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت سے تو وہ کافی شاکی ہیں۔ جماعت اسلامی کو وہ بلاوجہ ہی فاشسٹ اور ہر ڈکٹیٹر کی حامی قرار دیتے ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے متعلق ان کی عمومی رائے یہی ہے کہ ان کو مذہب پر توجہ دینی چاہیے، سیاست پر نہیں کیونکہ وہ اس فانی دنیا کے مسائل کی بجائے ابدی دنیا کے مسائل پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔ عمران خان صاحب کے متعلق ان کی رائے ہے کہ نہایت غیر مستقل مزاج ہیں، ایک بڑا اعلان کرتے ہیں، اور چوبیس گھنٹے بعد اس سے مکر جاتے ہیں، اور دہشت گردوں کے خلاف بات کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں۔ وہ یہ کہہ رہے تھے بلاول کو ہی ووٹ دیں گے۔ وہ واحد سیاست دان ہے جو دہشت گردوں کے خلاف بات کرتا ہے۔

جانثار خان مظلوم: بلاول؟ اس کل کے بچے کی حیثیت کیا ہے۔ ویسے بھی نام بلاول کا ہو گا، اصل حکومت تو زرداری کی ہو گی۔ ہم ان پرانے چہروں کو دس مرتبہ آزما چکے ہیں۔ یہ ڈیلیور نہیں کرتے ہیں۔ یہ چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ چلے ہوئے کارتوس سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے؟

\"imran-khan-perspiring\"ہم: وہ نہایت قنوطی شخص ہے۔ ہم نے اسے یہی کہا تھا کہ چلے ہوئے کارتوس سے جنگ نہیں لڑی جاتی ہے۔ وہ کہنے لگا کہ آدمی کو یہ پتہ ہو کہ اس کے پاس چلا ہوا کارتوس ہے تو وہ یہ سوچ کر پہلے ہی اپنی حکمت عملی بنا لیتا ہے کہ کارتوس کے بغیر اس نے سنگین سے کیسے لڑنا ہے اور بچ بھی جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص دشمن کو للکار کر میدان میں لے آئے، اور ڈھائیں کر کے گولی داغنے کی کوشش کرے اور اسے پتہ چلے کہ اس کا کارتوس گیلا ہے، تو وہ مارا جاتا ہے۔ وہ ہم سے پوچھنے لگا کہ چلا ہوا کارتوس بہتر ہے یا گیلا کارتوس؟

جانثار خان مظلوم: وہ پٹواری ہو گا۔ خان صاحب گیلے کارتوس نہیں ہیں۔ وہ تو نہایت خشک شخصیت کے مالک ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments