بلریا گنج سے جنت البقیع تک


اعظم گڑھ (بھارت) سے مدینۃ النبیﷺ تک پھیلی ایک مُشکبو کہانی کا آخری باب بھی تمام ہوا۔ کٹر ہندو خاندان کا بیٹا ’’بانکے رام‘‘ اپنے عہد کا سب سے بڑا محدث بن کر ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن اعظمی کے نام سے وہاں چلا گیا جہاں ہم سب کو جانا ہے۔ ’’بلریا گنج‘‘ کی مٹی، جاودانی رفعتوں سے ہم کنار ہو کر جنت البقیع کی کہکشاں میں جذب ہو گئی۔

پندرہ برس پہلے لکھا گیا اپنا کالم ’’گنگا سے زمزم تک‘‘ میرے سامنے رکھا ہے۔ اپریل 2005 میں اعظمی صاحب سے ہونے والی ملاقات کی ساری جزئیات میری نگاہوں میں ہیں۔ ہزاروں کتابوں سے آراستہ مختصر سا کمرہ۔ علم کی ایک چھوٹی سی بستی۔ اس بستی کے بیچوں بیچ بیٹھا ایک فرد جس نے زندوں کی طرح اپنی دنیا آپ پیدا کی۔ سید مودودیؒ کی کتاب ’’دینِ حق‘‘ نے بلریا گنج کے نوجوان اور شبلی کالج کے نوعمر طالب علم ’’بانکے رام‘‘ کے دل میں ایمان و یقین کا جو بیج بویا وہ اللہ کی بارانِ رحمت تلے پھیلتا، پھولتا اور پھلتا چلا گیا۔ جامعتہ الاسلامیہ مدینہ منورہ، جامعہ اُم القریٰ مکہ معظمہ اور جامعتہ الازہر قاہرہ سے کسب فیض کرنے والے ضیاء الرحمٰن نے بارگاہ رسالتﷺ کے فیصلوں کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ برسوں مدینہ یونیورسٹی میں کلیہ حدیث کا پروفیسر اور ڈین رہا۔ رابطہ عالم اسلامی کے اہم عہدوں پر فائز ہوا۔ جلیل مقاصد اور قلیل امیدیں رکھنے والا خوش بخت شخص۔ نبیﷺ کے شہر میں بیٹھا، اس دنیا کی کھیتی میں ایک اور دنیا کے لالہ و گل کاشت کرتا رہا۔

تب اعظمی صاحب مستند احادیث مبارکہ کی تدوین کے عظیم الشان منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر اعتبار سے مستند اور ثقہ ہونے کے کڑے معیار پر پورا اترنے والی کم و بیش پندرہ ہزار احادیث، ایک سو سے زائد کتابوں میں بکھری پڑی ہیں۔ چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود انہیں یکجا نہیں کیا جا سکا۔ میری ملاقات ہوئی تو انہیں اس کار عظیم کا بیڑا اٹھائے تین سال ہو چکے تھے۔ رخصت ہوتے وقت انہوں نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پہ رکھا اور بولے ’’صدیقی صاحب! میرے لئے دعا کریں، اللہ تعالیٰ صحت و تندرستی کے ساتھ مجھے بارہ برس اور عنایت فرما دے۔ اپنا کام مکمل کرنے کے لئے مجھے اتنا وقت چاہئے‘‘۔

’’وہ مدینہ منورہ میں میرے قیام کا آخری دن تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد میں روضہ رسولﷺ پر درود و سلام کی سوغات پیش کر رہا تھا کہ مجھے اپنے شانے پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔ پلٹ کر دیکھا کوئی نہ تھا۔ مجھے اعظمی صاحب کی التجا یاد آ گئی۔ میں نے دعا کی ’’اے اللہ! اپنے نیک بندے ضیاء الرحمٰن کو کم از کم بارہ برس کی مزید زندگی عطا فرما دے کہ وہ تیرے نبیﷺ کی احادیث مبارکہ کی جمع بندی کر سکے‘‘۔

میں کیا اور میری دعا کیا؟ لیکن اعظمی صاحب اس کے بعد کوئی پندرہ برس زندہ رہے۔ اللہ سے کئے گئے وعدے کے مطابق انہوں نے بارہ برس میں اپنا کام مکمل کر لیا۔ ریاضت کے طویل شب و روز پر محیط عشق و جنوں کا یہ سرمایہ سولہ ہزار پانچ سو چھیالیس (16546) مستند احادیث کی دستاویز بندی کی شکل میں ’’الجامع الکامل‘‘ کے نام سے مرتب ہوا۔ انیس جلدوں اور پندرہ ہزار صفحات پر مشتمل، بلاشبہ یہ اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا مجموعہ احادیث ہے۔ درجنوں دیگر تصانیف میں ہندی زبان میں قرآن کریم کا انسائیکلوپیڈیا بھی شامل ہے۔ ہندی ہی میں لکھی گئی ان کی کتاب ’’قرآن کی شیتل چھایا‘‘ (قرآن کی ٹھنڈی چھائوں) بہت مقبول ہوئی جس کے متعدد ایڈیشن اور تراجم شائع ہو چکے ہیں۔

سچے بندۂ مومن کی طرح اعظمی صاحب نے غنی اور بےنیاز دل پایا تھا۔ کوئی باور کر سکتا ہے کہ پندرہ برس کی عرق ریزی سے تیار ہونے والا عظیم علمی اثاثہ، وہ کسی معاوضے یا رائلٹی کے بغیر کسی بھی ایسے فرد یا ادارے کو دینے پر آمادہ تھے جو اس کی طباعت اور اشاعت کا اہتمام کر سکے۔ ترجمان القرآن کے مدیر برادر سلیم مقصود خالد نے ایک کوشش کی۔ حسن صہیب مراد بخوشی آمادہ ہو گئے لیکن ایک حادثے میں حسن صاحب کے انتقال کے باعث بات آگے نہ بڑھ سکی۔ چھ سات ماہ قبل مجھے اعظمی صاحب کا ایک خط اور دو کتابیں موصول ہوئیں۔ سلام و دعا کے بعد لکھا ’’آپ اور دیگر حضرات سے مودبانہ درخواست ہے کہ میرے متعلق جتنا کچھ لکھا جا چکا ہے وہ بہت کافی ہے۔ اب مزید کچھ نہ لکھیں کیوں کہ اس سے نفس میں عجب (غرور۔ تکبر) داخل ہو جاتا ہے جو اجرِ آخرت سے محروم کر دیتا ہے۔ وہ بڑے آدمی تھے۔ میرے لئے تو یہ اعزاز بھی حاصلِ زندگی ہے کہ اِن دنوں وائرل ہو جانے والی تصویر میں، میری کتاب ’’مکہ مدینہ‘‘ ان کے مبارک ہاتھوں میں ہے۔

لگ بھگ ڈیڑھ ہزار سال پہلے، اصفہان کے آتش پرست ’’یوذخشان‘‘ کے ہاں پیدا ہونے والا ’’مابہ‘‘ نامی بچہ بھی شک اور گمان کے دھندلکوں میں بھٹکتا مدینہ منورہ پہنچا اور ابو عبداللہ سلمان فارسیؓ کہلایا۔ اس جلیل القدر صحابی کے مشورے پر دفاعِ مدینہ کے لئے خندق کھودی جا رہی تھی۔ سلمانؓ کا جوش و جذبہ دیکھ کر مہاجرین نے کہا ’’سلمانؓ تو ہم میں سے ہے‘‘ انصار بولے ’’سلمانؓ تو ہمارا ہے‘‘۔ حضورﷺ نے سنا تو فرمایا ’’سلمانؓ تو میرے گھر والوں میں سے ہے‘‘۔

30؍ جولائی یوم الحج نماز مغرب کے بعد مسجد نبوی میں اعظمی صاحب کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ وہی مسجد نبوی جہاں وہ برسوں سے احادیث کا درس دے رہے تھے۔ مجھے نہیں معلوم ان کی قبر جنت البقیع کے کس منطقے میں بنی جہاں صحابہ کرامؓ، صحابیاتؓ، اہلِ بیتؓ اور حضورﷺ کے جگر گوشوں سمیت دس ہزار سے زائد پاک ہستیاں آسودئہ خاک ہیں۔ جانے اعظمی صاحب کی قبر کو کس کی ہمسائیگی کا شرف ملا۔ جانے جنت البقیع میں سپرد خاک ہونے والے ضیاء الرحمٰن کی روح کس دروازے سے جنت الفردوس میں داخل ہوئی ہوگی؟ جانے اس کا استقبال کس طرح کیا گیا ہوگا لیکن موسم بہار کی ’’شیتل چھایا‘‘ جیسا یہ خیال میرے دل و دماغ میں ہلکورے لیتا رہتا ہے۔ کیا خبر نبی کریمﷺ نے آغوش رحمت وا کرتے ہوئے فرمایا ہو ’’ضیاء الرحمٰن تو میرا ہے‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments