ایک سال مکمل ہو گیا


گذشتہ برس نومبر کے تیسرے ہفتے میں نیویارک میں کشمیری پنڈتوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی قونصل جنرل سندیب چکرورتی نے فرمایا ، ’’میرے خیال میں (کشمیر میں) امن و امان کی صورت بہتر ہو رہی ہے۔ آپ جلد ہی واپس لوٹ سکیں گے کیونکہ آپ کے تحفظ کے لیے پہلے ہی سے ایک ماڈل موجود ہے۔ اس ماڈل پر عمل نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسرائیل اس پر کامیابی سے عمل کر رہا ہے۔ یہودیوں نے فلسطین سے نکلنے کے بعد اپنی ثقافت کو برقرار رکھا اور پھر وہ دو ہزار برس بعد واپس لوٹے۔ آپ کو بھی کشمیری ثقافت زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ کشمیری کلچر دراصل بھارتی کلچر ہے اور بھارتی کلچر ہندو کلچر ہے۔ ہم نے کبھی بھی اکثریت ہونے کی طاقت سے کام لیا اورنہ ہی ہندو ثقافتی قوت کو استعمال کیا۔ مگر کب تک‘‘۔

یہ تقریر کسی ریٹائرڈّ سفارت کار نے نہیں کی کہ جسے اس کے ذاتی خیالات قرار دے کر نظرانداز کر دیا جائے۔ یہ تقریر گذشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی خودمختاری اور حقِ شہریت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر اور آرٹیکل پینتیسں اے کے خاتمے کے تین ماہ بعد اور ریاست جموں و کشمیر کے انتظامی وجود کو اکتیس اکتوبر کو تحلیل کر کے اسے دو وفاقی خطوں میں بدلنے کے ڈیڑھ ماہ بعد کی گئی۔

آج کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کا ایک برس مکمل ہو گیا۔ اس عرصے میں مودی حکومت نے جس برق رفتاری سے کشمیر کی شناخت و نفسیات بدلنے کے لیے ایک کے بعد ایک قانون کا پھندہ بنایا ہے۔ اس پھرتی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔

پچھلے ایک برس کے دوران سری نگر ہائی کورٹ اور زیریں عدالتوں میں حبسِ بے جا کی جتنی بھی درخواستیں دائر ہوئیں ان میں سے ننانوے فیصد کی شنوائی نہیں ہو سکی۔ جب کہ دلی میں قائم بھارتی سپریم کورٹ میں کشمیری خود مختاری کے خاتمے اور اندھے لاک ڈاؤن کو چیلنج کرنے سے متعلق جتنی بھی آئینی درخواستیں دائر کی گئیں ان میں سے ہر ایک کی سماعت مسلسل ملتوی ہو رہی ہے تاکہ مرکزی حکومت دلجمعی سے اپنا کشمیر ایجنڈا مکمل کر لے۔

گذرے برس میں کشمیری شناخت پر دو دھاری حملہ ہوا۔ اول جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کے تحت لداخ کو ہمیشہ کے لیے ریاست سے الگ ایک انتظامی یونٹ (مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ) بنا دیا گیا ہے۔ جب کہ جموں و کشمیر کو بطور ایک عام بھارتی ریاست نئے انداز میں بحال کرنے سے پہلے پہلے نئی اسمبلی حلقہ بندیاں مکمل کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔

نئی مجوزہ ریاستی اسمبلی میں جموں کی نشستیں وادی کی نشستوں سے زیادہ ہوں گی۔ کالعدم ریاستی اسمبلی میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور چین کے زیر انتظام آکسائی چن کے علاقے کی جن چوبیس نشستوں کو علامتی طور پر خالی رکھا گیا تھا۔ انھیں اگلے انتخاب میں آزاد کشمیر اور پاکستان سے ریاست میں آ کر آباد پناہ گزینوں سے پر کیا جائے گا۔ یہ پناہ گزین تقریباً سب کے سب ہندو یا سکھ ریفیوجیز ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ نئی ریاست میں اقتدار کا توازن پہلی بار وادی کی مسلم اکثریت کے بجائے جموں کے ہندو اکثریتی پلڑے کو منتقل ہو جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ وادی کی مسلم شناخت کو غیر مسلم آباد کاری کے ذریعے بے اثر کرنے کی کوششوں کی رفتار بھی تیز تر کی جا رہی ہے۔

مثلاً پاکستان سے آنے والے پناہ گزینوں کو اب تک ریاست کی مکمل شہریت نہیں دی گئی تھی۔ مگر اکتیس مارچ سے نافذ ہونے والے نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت نہ صرف ان لگ بھگ پانچ لاکھ مہاجرین کو جموں و کشمیر کا ڈومسیائیل لینے کا حق حاصل ہو گا۔ بلکہ بھارت کے کسی بھی علاقے سے کشمیر میں گذشتہ پندرہ برس سے رہنے والے باشندے کو ریاستی شہریت کا اہل تصور کیا گیا ہے۔ نیز جو شخص سات برس تک ریاست کے کسی کالج یا اسکول میں زیرِ تعلیم رہا ہو یا اس نے میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کا امتحان ریاستی تعلیمی بورڈ کے تحت دیا ہو وہ بھی کشمیری ڈومیسائل حاصل کرنے کا اہل ہے۔ اور ڈومیسائیل کا مطلب نہ صرف ریاستی شہریت بلکہ جائیداد و زمین خریدنے، ریاست کے لیے مختص سرکاری ملازمتوں کے کوٹے میں حصہ داری اور ریاست میں زراعت و صنعت و سروس سیکٹر میں سرمایہ کاری کا حق بھی حاصل ہو گا۔

نئے قانون کے نفاذ سے پہلے صرف ان لگ بھگ ایک لاکھ کشمیری پنڈتوں کے لیے ریاست میں دوبارہ واپسی اور بحالی کا حق قانوناً تسلیم شدہ تھا جو انیس سو نواسی نوے کے پرآشوب دور میں وادی سے جموں نقل ِ مکانی کر گئے تھے۔ اب ان پنڈتوں کی نمایندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ ریفیوجیز کی تعداد سات لاکھ ہے۔ مگر یہ تنظیمیں اس سوال پر بٹی ہوئی ہیں کہ آیا کشمیری پنڈتوں کو ازسرِ نو ڈومیسائیل لے کر یہودی آباد کاروں کی طرح فوجی سنگینوں کے سائے میں بسانا ٹھیک ہے یا پھر انھیں ریاست میں آباد ہونے کے صدیوں پرانے حق کے تحت بھارتی قوم پرستی کے بجائے کشمیریت کے جذبے کے تحت اپنے آبائی گلی محلوں میں جا کر بسنا چاہیے۔ جہاں مقامی مسلمان آبادی کو ان کی گھر واپسی پر کوئی اعتراض نہیں۔ پہلی صورت میں پنڈتوں کو قابض طاقت کا دم چھلا سمجھا جائے گا اور دوسری صورت میں وہ بطور فرزندِ زمین قابلِ قبول ہوں گے۔

کشمیری پنڈتوں کی خصوصی حیثیت سے قطع نظر جن جن طبقات کو نئے ڈومیسائل قوانین سے فائدہ ہو گا۔ ان میں وہ زرعی، صنعتی و گھریلو مزدور بھی شامل ہیں جو پچھلے تیس چالیس برس سے بہار، یوپی، بنگال وغیرہ سے کشمیر آ کر یہاں کے کھیتوں، کولڈ اسٹوریج اور گھروں میں کام کرتے ہیں۔ سرکردہ کشمیری صحافی نعیمہ احمد مہجور کے مطابق جموں و کشمیر میں روزانہ کام کاج کے لیے لگ بھگ پچاس ہزار مزدوروں اور کارکنوں کی ضرورت ہے۔ ان میں مقامی مزدور تقریباً ایک فیصد ہیں۔ کیونکہ مقامی لوگ کچھ مخصوص محنت طلب کاموں کو چھوڑ کر ہر طرح کے کام میں ہاتھ ڈالنے سے ہچکچاتے ہیں۔

دو ہزار سولہ میں برہان وانی کی شہادت کے بعد بدامنی کی شدید لہر کے سبب غیر کشمیری مزدور بڑی تعداد میں واپس چلے گئے تو لاسی پورہ انڈسٹریل اسٹیٹ کے کولڈ اسٹوریجز کو تالا لگ گیا۔ کیونکہ مقامی افرادی قوت انھیں چلانے کے لیے مناسب حد تک تربیت یافتہ نہیں تھی۔ یہی نہیں بلکہ اس وقت جموں و کشمیر کی مساجد میں مقامی امام اور موزن بھی کم کم ہیں۔ زیادہ تر خدمتی عملے کا تعلق یوپی، بہار، بنگال وغیرہ سے ہے اور بیشتر یہاں اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ تیس تیس برس سے آباد ہیں۔ اس کے علاوہ جو سرکاری ملازم اور ریٹائرڈ فوجی و پولیس اہلکار وادی میں برسوں سے مقیم ہیں ان کی تعداد بھی لاکھ سے اوپر ہے۔

ریاست میں سب سے زیادہ ملازمتیں دینے والا شعبہ سرکار ہے۔ یہ ملازمتیں اب تک نیم خودمختار ریاست کے نوجوانوں کے لیے مختص تھیں۔ لیکن ڈومیسائیل کھلنے کے بعد اب یہ ملازمتی تحفظ بھی شدید خطرے میں ہے۔ پرانا پبلک سروس کمیشن کالعدم ہے اور نیا اب تک نہیں بنا۔

جموں و کشمیر بینک کی لگ بھگ ڈیڑھ ہزار خالی آسامیوں کو بھرنے کے لیے دو برس قبل ابتدائی ٹیسٹ اور انٹرویوز ہو چکے تھے۔ لیکن اس سال فروری میں سابقہ سلیکشن پروسس منسوخ کر دیا گیا۔ دو ماہ پہلے جون میں بینک کی ان آسامیوں کے لیے نئے ڈومسیائیل قوانین کی روشنی میں تازہ درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔

اسی طرح جو ہیلتھ ورکرز ایک مدت سے عارضی کنٹریکٹ پر کام کر رہے تھے، انھیں مستقل کرنے کے بجائے نئے کنٹریکٹ دینے کا عمل بھی روک دیا گیا۔ حالانکہ کورونا کے دگرگوں حالات کے سبب ان ورکروں کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ شائد ان کی جگہ اب نئے ورکر لیے جائیں گے۔

اس وقت ریاست ڈبل لاک ڈاؤن میں ہے۔ ایک انتظامی لاک ڈاؤن جو سال بھر سے جاری ہے اور دوسرا کورونا کے نام پر اضافی لاک ڈاؤن۔ اعلی ریاستی بیوروکریسی میں نوے فیصد سے زائد افسر دلی سے بھیجے ہوئے ہیں۔ ان کا کام کشمیریوں سے بات کرنا نہیں بلکہ ان پر مرکز کے فیصلے تھوپنا ہے۔ نیشنل کانفرنس سمیت بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے نچلے کیڈر کو اس شرط پر رہا کیا گیا ہے کہ سیاسی سرگرمیوں سے باز رہنا ہے۔ علیحدگی پسند حریت کانفرنس ساکت ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے متعدد رہنما اور کارکنان دور دراز جیلوں میں منتقل کیے جا چکے ہیں۔ سرکار یہ بھی بتانے پر آمادہ نہیں کہ گرفتاریوں کی تعداد کتنی ہے؟

مختلف جماعتوں سے توڑے گئے کارکنوں کی مدد سے اسمبل کی جانے والی ’’اپنی پارٹی’’ کو کام کرنے کی اجازت ہے۔ اس کی قیادت نظربند رہنما محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی کے ایک منحرف رہنما الطاف بخاری کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ اپنی پارٹی دراصل مودی امیت شاہ جوڑی کا بغل بچہ ہے۔

مگر کیا کشمیر پر لاگو یہ زبردستی کا امن قائم رہے گا؟ فی الحال اس سوال کا جواب بھی کشمیر کی طرح معلق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments