برٹش انڈین آرمی سے اکیسویں صدی کی پاکستان آرمی تک!


میں کسی ادارے کا ترجمان نہیں ہوں، اس لئے میں نہیں جانتا کہ ادارہ کیا سوچ رہا ہے۔ میں تو ایک از کار رفتہ سپاہی ہوں، اپنے جیسوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ اسی لئے جانتا ہوں کہ کراچی کی صورت حال پر شدید بے چینی کے باوجود شہر کی صفائی ستھرائی فوج کے حوالے کیے جانے پر مجھ جیسے خوش نہیں ہیں۔ پوچھا جا رہا ہے یہ فوج کے کرنے کے کام ہیں تو سندھ حکومت کس کام کے لئے ہے۔

بیسویں صدی عیسوی کے آغاز کے ساتھ ہی برٹش انڈین آرمی کی تنظیم نو کی گئی تو ملک کے طول و عرض میں پھیلی یونٹوں کو سمیٹ کر گیریژنز میں تعینات کرنے کا فیصلہ ہوا۔ آرمی کا دفاعی رخ شمال مغربی سرحد اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں کی طرف تھا۔ اسی ضرورت کے مدنظر کنٹونمنٹ تعمیر کئے گئے۔ شہری آبادیوں سے قدرے فاصلے پر قائم کی گئی چھاؤنیاں ارد گرد دھول اڑاتے ویرانوں میں شاداب جزیروں کی طرح ہوتیں، جن کے مکینوں کا سیاست اور سول معاملات سمیت، سویلین آبادیوں سے رابطہ نہ ہونے کے برابر رہتا۔

برٹش انڈین آرمی کے لئے برطانیہ سے آنے والے افسران متوسط طبقے سے تعلق رکھتے اور خالصتاً میرٹ پر منتخب کیے جاتے، جو خاندانی حسب و نسب پر کنگز کمیشن پانے والے برطانوی رؤساء کے بچوں کے بر عکس کہیں بہتر پیشہ وارانہ کار کردگی کا مظاہرہ کرتے۔ متوسط گھرانوں کے ان بچوں کے لئے کمیشن لینے کے بعد برطانیہ میں مقیم یونٹوں کی بود و باش اور میسز میں اٹھنے والے اخراجات کو اپنی تنخواہوں میں برداشت کرنا ممکن نہ ہوتا، چنانچہ بیشتر کو گرم و مرطوب ہندوستان بھیج دیا جاتا۔

زمانہ امن میں یہ افسران علی الصبح پولو کھیلتے، سہ پہر میں کرکٹ اور ٹینس سے دل لبھاتے۔ شامیں کر و فر کے ساتھ میسوں میں گزارتے۔ میلوں لمبی گھڑ سواری پر جاتے اور ہفتوں گھنے جنگلوں کے اندر تاریک شکار گاہوں میں چیتے کا شکار کھیلتے۔ چھاؤنیوں کی لہو گرم رکھنے والی زندگی ہو یا افغانستان کی سرحد پر جان گسل شب و روز، نا موافق موسموں کے تھپیڑے کھاتے، برٹش انڈین آرمی کے افسران کندن بن کر نکلتے۔ کمان کرنے کے لئے ان افسران کو پنجابی مسلمانوں اور سکھوں کے علاوہ شمال سرحدی صوبے کے پٹھان اور نیپال کے گورکھا جوان دستیاب رہتے۔ صدی کے تیسرے عشرے میں ایک تدریجی عمل کے تحت میرٹ کی مکمل پاسداری کے ساتھ مقامی افسروں کی فوج میں شمولیت کا آغاز کر دیا گیا۔ بلاشبہ برٹش انڈین آرمی اپنے دور کی ایک بہترین لڑاکا فورس تھی۔ برٹش انڈین آرمی کا حصہ ہونا محض ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک طرز زندگی تصور کیا جاتا۔

ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ آخری مہینوں میں ہوا۔ برٹش انڈین آرمی کی قیادت تقسیم کی مخالفت میں آخر دم تک پیش پیش رہی۔ عسکری قیادت کی طرف سے بتایا گیا کہ کئی عشروں سے ایشیاء کے اندر محض تین ایسی درجہ اول کی حامل افواج ہیں کہ جو خطے میں سکیورٹی توازن بر قرار رکھے ہوئے ہیں۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد جاپانی فوج کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد اگر برٹش انڈین آرمی بھی تقسیم کر دی جاتی ہے تو سویت یونین کی سرخ فوج کی گرم پانیوں تک رسائی کو روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسی بناء پر تجویز دی گئی کہ اگر برصغیر کی تقسیم نا گزیر ہی ہے تو کم از کم برٹش انڈین آرمی کو مشترکہ کمان کے نیچے متحد رکھا جائے۔ قائد اعظم نے ایسے کسی بھی بندو بست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

قیام پاکستان کے ساتھ ہی متعین فارمولے کے تحت بالآخر برٹش انڈین آرمی بھی تقسیم ہو گئی۔ حتی الامکان کوشش کی گئی کہ دونوں آزاد ملکوں کو ملنے والی افواج میں روایتی یونٹوں اور فارمیشنوں کو برقرار رکھا جائے۔ بھارت کا حصہ بننے والی یونٹس میں مسلمان افسروں اور جوانوں، اور پاکستان آرمی کی یونٹس کے غیر مسلم افراد کو حق دیا گیا کہ وہ چاہیں تو بالترتیب پاکستان اور بھارت کی افواج میں شامل ہو جائیں۔ نتیجے میں، جہاں دو اطراف سول آبادی کی ہجرت انسانی تاریخ کا سانحہ بن کر سامنے آئی، برٹش انڈین آرمی کی تقسیم کا عمل اس کے افراد کی سیاسی یا فرقہ وارانہ وابستگیوں سے ماورا ہونے کی بناء پر پر امن طریقے سے مکمل ہوا۔ ایک ساتھ نمو پانے والی دونوں پیشہ ور افواج کچھ ہی عرصے بعد کشمیر کے پہاڑوں پر ایک دوسرے کے سامنے آن کھڑی ہوئیں۔

بھارتی حکومت کی پاکستان دشمنی پر مبنی حکمت عملی نے نوزائیدہ مملکت کی قیادت کو مجبور کیا کہ وہ اپنے بے حد محدود وسائل کو پہلی ترجیح میں افواج کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کو استعمال میں لائے۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر منڈلاتے خطرات کی بناء پر پاکستان کی پالیسی سازی میں مسلح افواج کا کردار فطری طور پر غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا۔

1819 ء میں کلکتہ میں ہندو کالج کے قیام اور صدی کی آٹھویں دہائی میں علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھنے میں 60 سال کا وقفہ ہے۔ مختار مسعود کا خیال ہے کہ برصغیر کے مسلمان یہ تعلیمی فاصلہ آج تک طے نہیں کر سکے۔ نوزائیدہ ریاست میں کمی کھل کر سامنے آ گئی تھی۔ انڈین نیشنل کانگرس کی صورت میں جہاں بھارت کو زیرک و جہاندیدہ رہنماؤں پر مشتمل ایک قدیم سیاسی جماعت دستیاب تھی، تو وہیں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد امور مملکت ان نیم خواندہ ٹوڈی سیاست دانوں کے ہاتھوں میں آ گئے کہ جن میں سے بیشتر تحریک پاکستان کے آخری مہینوں میں مسلم لیگ کا حصہ بنے تھے۔ کئی کے آباء سر سید کو ملحد اور وہ خود قائد اعظم کو کافر اعظم کہہ کر پکارتے تھے۔ نئی مملکت میں اب یہ وزرائے اعظم کو تگنی کا ناچ نچاتے۔ انہی سالوں میں سرحد پار سے نہرو بولے کہ وہ تو اس قدر پاجامے تبدیل نہیں کرتے جس رفتار سے پاکستان میں پردھان منتری بدلتے ہیں۔

متروکہ املاک کی تقسیم اور مہاجرین کی آباد کاری میں بدعنوانیاں، خوراک میں ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کے علاوہ امپورٹ لائسنسوں اور پرمٹوں کی سیاست نے بد عنوانی اور لوٹ مار کے ایک ایسے کلچر کی بنیاد رکھی جو اب بھی ہماری رگوں میں دوڑتا ہے۔

برٹش انڈین آرمی کا تکبر لئے جنرل ایوب اور ان کے ساتھی نخوت اور زعم برتری کے ساتھ، حالات کو بغور دیکھ رہے تھے۔

سنہ 1953 ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ لے کر اٹھنے والی تحریک بے قابو ہو گئی تو لاہور جو اس زمانے میں پاکستان کا سب سے بڑا شہر تھا، فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ امن و امان بحال ہوا تو لاہور شہر کی صفائی ستھرائی اور آرائش کا کام بھی فوج کو ہی سونپ دیا گیا۔ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل اعظم اور ان کے جوانوں نے عوام سے خوب داد سمیٹی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوج کو اپنی تمام تر توجہ مشرقی اور مغربی سرحدوں سے اٹھنے والے خطرات کے پیش نظر اپنی پیشہ وارانہ استعداد کار بڑھانے پر مرکوز رکھنے کو کہا جاتا، جبکہ قومی قیادت بتدریج سول اداروں کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرتی۔

اس کے برعکس فوج کو مسلسل ایسے امور میں الجھائے رکھے جانے کا سلسلہ جاری رہا جو اس کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں شامل نہیں تھے۔ مشرقی پاکستان کے سائیکلون زدہ علاقوں کی بحالی میں سول اداروں کا ہاتھ بٹانا قابل فہم تھا۔ تاہم پٹ سن کی بھارتی بنگال کو سمگلنگ روکنے جیسے معاملات میں بھی فوج کو ملوث کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ فوج نے سمگلروں پر ہاتھ ڈالا تو پہلی بار مشرقی پاکستان کے بازاروں میں پاکستان آرمی کو ’پنجابی فوج‘ کہہ کر پکارا اور وفاقی حکومت سے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔

ذخیرہ اندوزی، چور بازاری اور ملاوٹ کرنے والے مافیاز کے خلاف متعلقہ اداروں کی بجائے فوج کا بے دریغ استعمال مسلسل جاری رہا۔ اس کے برعکس اسی دور میں جب بھارت کے اندر غذائی قلت پیدا ہوئی تو عمومی مطالبے کو رد کرتے ہوئے نہرو حکومت نے معاملات فوج کے حوالے کرنے کی بجائے سویلین اداروں کے ذریعے ہی نمٹانے کا فیصلہ کیا۔

سنہ 1958 ء میں قومی رہنماؤں کی باہم ریشہ دوانیوں اور اس کے نتیجے میں عوام کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی سے موقع شناس سول اور ملٹری بیورو کریسی کے گٹھ جوڑ نے پورا فائدہ اٹھایا۔ اس امر کے شواہد موجود ہونے کے باوجود کہ جنرل ایوب میں سیاسی مہم جوئی کے جراثیم بہت پہلے سے پائے جاتے تھے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاستدانوں نے ان کو حکومت سنبھالنے کا بھر پور موقع خود فراہم کیا۔ مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان ہوا تو عوام خوشی سے جھوم اٹھے۔ ذخیرہ اندوزوں نے گوداموں کے منہ کھول دیے۔ ملاوٹ زدہ خوراک بھاری مقدار میں راتوں رات ندی نالوں میں بہا دی گئی۔

آنے والے سالوں میں کس نے کیا کھویا کیا پایا؟ سیاسیات کی تجزیہ کاری سیاسی دانشوروں کا کام ہے، میں کہ ایک از کار رفتہ سپاہی، خون بہانے کے سوا جس نے ڈھنگ کا کوئی کام نہ سیکھا ہو، اپنی کوتاہیوں کا خراج خون سے دے چکا۔ برٹش انڈین آرمی بھی اسی قتل گاہ کے شعلوں میں کندن ہوئی تھی۔ اکیسویں صدی کی پاک فوج میں بھی شاید ہی کوئی ایسا ملے کہ جس کے جسم یا روح پر گہرا زخم نہ ہو۔
ہم جیسے خوش ہوں یا نہ ہوں، حالیہ تباہی کے بعد شہر کی کچرا کنڈیوں اور ندی نالوں کی صفائی فوج کے حوالے کیے جانے پر کراچی کے عوام بہرحال خوش نظر آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments