کیڈٹ محمد احمد کا قصور کیا تھا


\"hafeezلاڑکانہ کیڈٹ کالج میں ایک بچے محمد احمد پر ایسا روح فرسا اور دل دہلا دینے والا تشدد کیا گیا کہ وہ اپنے حواس کھو بیٹھا۔ لیکن اس کے حواس کھونے کی کہانی کو سننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب اپنے حواسوں میں رہیں۔ لیکن کیا کیجئے کہ اس ملک میں پانامہ اور دھرنا ڈرامہ کو لے کر عوام، ادارے اور حکومت اتنے محو ہیں کہ کسی کو کچھ سجھائی یا سمجھائی نہیں دے رہا۔ لیکن بات تو پھر بھی کرنی ہے۔ ہمیں تھوڑی دیر اس معذور بچے کی طرف دیکھ کر سوچنا ہے اور یہ سوال اٹھانا ہے کہ اس بچے کا قصور کیا تھا؟ یہ سوال کسی اور سے نہیں بلکہ ہم سب نے خود سے پوچھنا ہے۔ اپنے گلے سڑے اور بدبودار سسٹم سے پوچھنا ہے۔

اگر ہم غور کریں تو اس کا جواب بہت مشکل بھی نہیں۔ دراصل ہم نے اپنے بچوں کو گھوڑوں کی طرح تعلیم اور کیرئیر کے ریس ٹریک پر بھگا رہے ہیں۔ ہمیں ان سے نتائج چاہیں اور ان نتائج کو حاصل کرنے کے لئے ہم نے جوکیوں کو پوری چھوٹ دے رکھی ہے۔ جوکیوں کو تو بس فتح کی ریکھا کراس کرنی ہے۔ چاہے اس چکر میں ان کے نیچے موجود گھوڑا اپنی جان سے چلا جائے یا پھر معذور ہوجائے۔

لیکن ٹھہریے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں اس بات پر متفق ہوجانا چاہیے کہ ہمارے بچے گھوڑے نہیں ہیں۔ یہ سماجی جانور ضرور ہیں لیکن جنگلی یا پالتو جانور نہیں۔ اگر ہم نے اس بات پر اتفاق کرلیا یا اس کو مان لیا تو شاید بات سمجھنے میں آسانی ہو۔

کیڈٹ کالج اور مدرسہ ایک جتنی بھیانک جگہیں ہیں۔ لیکن یہاں پر اپنے بچوں کو چھوڑ کر جانے والے والدین کی آنکھوں پر دو انتہاؤں کے چشمے چڑھے ہوتے ہیں۔ مدرسہ میں بچہ چھوڑنے والا کہتا ہے کہ یہاں نہ صرف اس کو دو وقت کی روٹی ملے گی بلکہ اس کی اور میری آخرت سنور جائے گی۔ قیامت والے دن میرے سر پر تاج ہوگا اور جنت میں اعلیٰ مقام ملے گا۔ جب کہ دوسری طرف کیڈٹ کالج میں بچہ چھوڑنے والے والدین کا نظریہ ہوتا ہے کہ بچہ دنیا میں کامیاب ہوگا، نام بنائے گا اور ہماری نیک نامی کا باعث بنے گا۔

مدرسہ کا استاد بھی مدرسہ کا پڑھا ہوتا ہے۔ وہ وہی کچھ اپنے طلباء کو منتقل کرتا ہے جو کچھ اس کے ساتھ ہوا ہوتا ہے۔ دوسری طرف کیڈٹ کالج کے اساتذہ کی اکثریت سابق فوجیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔  بھلا ساری عمر یس سر یس سر کرنے والا کوئی افلاطون تھوڑی ہوتا ہے جو اپنے بچوں کو اکیڈمی میں پڑھا کر ارسطو بنائے گا۔ وہ بھلا منطق، علم اور فلاسفی کو کیا گھاس ڈالے گا جس نے ساری عمر ہاں ہاں کی ہو۔ ایسا بندہ تو بس ہاں ہی سننا چاہتا ہے۔اگر خدانخواستہ کسی نے اس کے حکم پر یس سر نہیں کہا تو پھر وہ ہرحد پار کر دیتا ہے اور یہی کچھ لاڑکانہ کیڈٹ کالج کے اساتذہ نے کیا۔ اور محمد احمد کی گردن کی پانچ ہڈیاں توڑ دیں اور والد کے بیان کے مطابق اس کا گلا گھونٹ کر مارنے کی کوشش بھی کی۔ اگر کوئی سنار کا کام لوہار سے کرائے گا تو نتیجہ اس قسم کا ہی برآمد ہوگا۔

مدرسہ اور کیڈٹ کالج میں بچے بھیجنے والے کئی والدین صرف اولاد پیدا کرنا جانتے ہیں اور اس کے بعد ان کو سمجھ نہیں آتی کہ ان کی روٹی اور تعلیم و تربیت کے لئے کیا کرنا ہے۔ اول الذکر تو روٹی کے لئے خوار ہوتے ہیں موخر الذکر نام، عہدے اور پہچان کے بھوکے ہوتے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے والدین قابلِ تعزیر ہیں۔ کیونکہ دونوں اپنی اپنی کوتاہیوں، نالائقیوں، ہڈ حرامیوں اور حماقتوں کا بوجھ اپنے بچوں کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی تشنہ خواہشوں کا بار ان کاندھوں پر پھینک دیتے ہیں جن سے ابھی اپنے بیگ کا بوجھ بھی نہیں اٹھایا جا رہا ہوتا۔

محمد احمد کا والد بھی ان لوگوں میں سے ہے۔ وہ بھی اس جرم میں اتنا ہی شریک ہے کہ جتنا لاڑکانہ کیڈٹ کالج کے سفاک اساتذہ ہیں۔ اس کا ایک ٹی وی انٹرویو سنا جس میں وہ کہہ رہا تھا کہ میں اپنے بیٹے کو سی ایس پی آفیسر یا فوج کا کپتان بنانا چاہتا تھا پر ان ظالموں نے میرا بچہ مفلوج کر دیا۔ لیکن ایسے میں کوئی اس باپ سے یہ سوال کرنے والا نہیں کہ تم نے ایک بار بھی محمد احمد سے پوچھا کہ بیٹا تم کیا بننا چاہتے ہو۔ والدین کی طرف سے اسی پریشر کی وجہ سے لاڑکانہ کیڈٹ کے دو بچے خودکشی بھی کرچکے ہیں۔ کیونکہ والدین کی آرزوئیں اور جوکیوں کا تشدد ان کے لئے ناقابلِ برداشت ہوگیا تھا۔

ایسے میں ایک شکوہ ہمارے انسان دوست اور روشن خیال احباب سے ہے۔ ہمارے ان دوستوں کو مدارس میں ہونے والے مظالم تو نظر آتے ہیں لیکن اس بھیانک واقعہ پر کسی کو دو لفظ لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ دنیا جہان کے موضوعات پر خامہ فرسائی ان کے بائیں ہاتھ کی انگشت کا کام ہے لیکن نجانے اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے کیوں ہاتھ ساتھ نہیں دے رہے۔ کیڈٹ کالجز کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لیکن ان کالجز کا نام کوئی کیوں نہیں لیتا۔ مدارس میں طلباء کو زنجیریں ڈال کر رکھی جاتی ہیں تو کیا کیڈٹ کالج کی خار دار تاروں والی چاردیواریاں اور ان کے اندر ہونے والا بھیانک تشدد، مدارس سے ملتی جلتی کہانی نہیں سناتا۔ مبینہ طور پر مدارس جتنی کجی، جنسی اور جسمانی تشدد وہاں بھی موجود ہے۔ لیکن کیا صرف اس لئے ان کا نام نہیں لیا جا رہا کہ وہاں سے ڈاکٹر، انجئنیر، فوجی اور بیوروکریٹ نکلتے ہیں۔ ڈنڈے کھا کر اور ذلت سہہ کر بنا آفیسر کیا کسی کے ساتھ بہتر اور انسانی سلوک کر سکتا ہے۔

خیر بات ہو رہی تھی کہ محمد احمد کی جو کہ باپ کی خواہشات اور جوکیوں کے ڈنڈوں کے درمیان پس گیا ہے، ہار گیا ہے۔ ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔ اب جوکی غائب ہیں جب کہ باپ مگرمچھ کے آنسو بہا رہا ہے۔ اگر مندرجہ بالا باتوں سے کسی کو اتفاق نہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ محمد احمد کا قصور کیا تھا۔ یہ وہ سوال ہے جو ہم سب نے خود سے اور اپنے گلے سڑے اور بدبودار سسٹم سے پوچھنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments