فکر اقبال کو رد کیجئے، جناح کا نظریہ اپنائیے


\"yasser-latif-hamdani\"کچھ عرصے پہلے میں نے ایک بلاگ میں گزارش کی کہ فکر اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ میں بڑا فرق تھا جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ واضح ہو رہا ہے۔ بہت سے دوست اس پر بہت برہم ہوئے۔ کچھ نےمجھ پر پاکستان دشمنی کا الزام داغ دیا۔ عرض یہ ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا ایک پاکستانی کی حیثیت سے لکھا ہے۔ علامہ اقبال ایک عظیم شاعر تھے اور ان کی خدمات سے بالکل انکار نہیں مگر میرے نزدیک پاکستان کو آگے جانے کے لئے ان کی سوچ کو رد کرنا پڑے گا اور اس نظریے کو اپنانا پڑے گا جو جناح نے گیارہ اگست 1947 کو پیش کیا اور جس پر وہ عملی طور پر کاربند رہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں مسئلہ مسلمانوں کو سیاسی طور پر متحرک کرنے کا تھا وہاں جناح نے اقبال کا سہارا بھی لیا مگر وہاں بنیادی مسئلہ مسلمانوں کی سیاسی اور اقتصادی حقوق کا تھا۔ جب پاکستان بن گیا تو مسئلہ پاکستان کی بقا کا تھا۔ قائد اعظم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ دو قومی نظریے سے ملک حاصل تو کیا جاسکتا پر اس کو چلانے کے لئے دوسرے نظریہ کی ضرورت ہے۔ اسی لئے انہوں نے ایک ہندو وکیل کے ہاتھ میں وزارت قانون کا قلمدان سونپا۔

وہ دکھا دینا چاہتے تھے کہ اس مسلم اکثریت کی ریاست میں مذہب کے نام پر کوئی تفریق نہ ہوگی۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا کے حامی تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب ہندو اور مسلمان کی سیاسی تفریق پاکستان میں ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے اس بات کا بھی اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر پاکستان نے مذہب کے نام تفریق کی تو یہ تفریق بہت جلد فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لے گی اور شیعہ سنی مسئلے میں بدل جاے گی۔

اقبال ایک نظریاتی فلسفی تھے۔ ان کی تمام تر کاوشیں اسلام کے گرد گھومتی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کے وہ ایک قسم کا اجتہادی پارلیمانی نظام چاہتے تھے جس میں مسلمان اپنے تمام معاملات اجماع الامت سے حل کریں۔ اس دائرے کے اندر ان کی سوچ ایک جدید اسلامی معاشرے کی عکاسی کرتی تھی۔ مگر اسی سوچ کا دوسرا رخ بھی تھا۔ اس سوچ میں اسلام کے چھوٹے فرقوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ان کا ریاستی ڈھانچہ کچھ اسی طرز کا تھا جو امام خمینی نے اسلامی جمہوریہ ایران میں قائم کیا۔ پاکستان میں بھی جو احمدی فرقے کے ساتھ کیا گیا وہ اسی سوچ کی کڑی تھی۔ اقبال کا ہی مطالبہ تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ تاہم جناح نے مسلم لیگ میں اس مطالبے کی مخالفت کی تھی کیونکہ ان کے نزدیک جو بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتا تھا وہ ہی مسلمان تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قائد اعظم مسلمانوں کی فرقہ وارانہ تقسیم کے سخت مخالف تھے اور سمجھتے تھے کہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دینے سے مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا۔ پاکستان نے اس مسئلے میں فکر اقبال کو جناح کی سوچ پر فوقیت دی۔ اس فیصلے کا ثمر ہمارے سامنے ہے۔

علامہ اقبال کی سوچ ایسے معاشرے میں تو کارآمد ہو سکتی ہے جہاں صرف اور صرف ایک ہی فرقے کے لوگ رہتے ہوں مگر پاکستان کے مختلف النوع معاشرے کے لئے ایسے فلسفے کا اطلاق ایسی ریاست کی تباہی کا باعث ہوگی۔ فکر اقبال کی بنیاد پر قائم ریاست کسی نہ کسی طور تکفیری ریاست میں تبدیل ہو جائے گی جو کہ 1974 سے وطن عزیز کا مقدر بن چکی ہے۔ پاکستان کو بچانے کے لئے ہمیں اقبال کی سوچ کو خیرباد کہنا پڑے گا۔ اس کا یہ قطعی طور پر مطلب نہیں کہ ہم اقبال کی مسلمانان ہندوپاک کے لیے گراں قدر خدمات بھول جائیں۔ اقبال ایک عظیم شاعر اور مفکر تھے۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کا تاریخ میں اپنا مقام ہے اور پاکستان کی تحریک میں ان کے خطبہ الہ آباد کی وجہ سے ان کا مقام کوئی نہیں چھین سکتا۔ تھامس جیفرسن امریکہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے آزادی کا اعلامیہ تحریر کیا۔ مگر ان کے لاتعداد سیاہ فام غلام بھی تھے۔ تو کیا امریکہ نے انسانی غلامی کا خاتمہ نہیں کیا؟ ہمیں بھی اقبال کی خدمات کو یاد رکھنا چاہیے مگر ان کے افکار کو جو جدید ریاست سے متصادم ہیں رد کردینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments