پارک لین ریفرنس میں آصف علی زرداری سمیت 10 ملزمان پر فردِ جرم عائد


وزیراعظم پاکستان

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے پاکستان کے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت 10 ملزمان پر پارک لین کمپنی ریفرنس میں فرد جرم عائد کر دی ہے تاہم تمام ملزمان نے صحتِ جرم سے انکار کیا ہے۔

نیب کی طرف سے دائر کیے گئے ریفرنس میں آصف علی زرداری کو پارک لین کمپنی کے ڈائریکٹر کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔

ملزم آصف علی زرداری عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور کراچی میں اپنی رہائش گاہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔

یہ پہلا مقدمہ ہے جس میں کسی اہم ملزم کے عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہو۔

سابق صدر کے وکلا کے مطابق ان کے موکل علیل ہیں جس کی وجہ سے وہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے۔

یہ بھی پڑھیے

’ہماری کمزوری تھی کہ نیب کا کالا قانون ختم نہ کر سکے‘

’جیل میں زرداری کا علاج ممکن نہیں‘، ضمانت منظور

اپوزیشن کی ’سرگرمیاں‘: سہیل وڑائچ کا کالم

پیر کے روز مقدمے کی کارروائی کے دوران سابق صدر نے احتساب عدالت کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں پتا ہے کہ فرد جرم کیسے عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ گذشتہ 30 سال سے ایسے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

سماعت کے دوران کیا ہوا؟

اُنھوں نے کہا کہ ان کے وکیل سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔ احتساب عدالت کے جج نے ملزم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو الزام پڑھ کر سناتے ہیں، آپ جواب دیجیے گا اور کہا کہ چارج شیٹ کے الزامات سننے کے لیے وکیل کی ضرورت نہیں ہے۔

نیب لوگو

آصف زرداری نے احتساب عدالت کہے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’مائی لارڈ آپ آرڈر میں لکھیں کہ میرا وکیل موجود نہیں ہے۔‘

اس کے بعد احتساب عدالت کے جج نے ملزم کو مِخاطب کرتے ہوئے کہا ’مسٹر آصف علی زرداری، میں آپ کو چارج شیٹ سنا رہا ہوں۔‘

آصف زرداری نے کہا کہ میرے پارٹنرز کے خلاف سِول کیسز بھی چل رہے ہیں جس پر احتساب عدالت کے جج نے ملزم ان سے کہا کہ وہ پوری فرد جرم سن لیں۔

نیب کی طرف سے دائر کیے گئے ریفرنس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے احتساب عدالت کے جج نے سابق صدر سے کہا کہ ’آپ نے جعلی فرنٹ کمپنی بنا کر نیشنل بنک کا قرض خردبرد کیا۔ اس کے علاوہ ملزم نے بطور صدر پاکستان نیشنل بینک پر دباو ڈال کر قرض لیا۔‘

اس دوران زرداری نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے فرد جرم کی صحت سے انکار کیا۔ ملزمان پر فرد جرم عائد کیے جانے سے قبل زرداری سمیت دیگر ملزمان کی حاضری لگائی گئی۔

فرد جرم عائد کیے جانے سے پہلے ملزمان کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ پہلے ان کی ان کے موکلوں سے ملاقات کروائی جائے جس کے بعد فرد جرم عائد کیے جانے کا مرحلہ شروع کیا جائے تاہم عدالت نے یہ استدعا مسترد کر دی۔

احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد تمام ملزمان کی ان کے وکلا سے ملاقات کروائی جائے گی۔

اس مقدمے کے شریک ملزمان انور مجید، شیر علی، فاروق عبد اللہ، محمد سلیم فیصل پر بھی ویڈیو لنک کے ذریعے فرد جرم عائد کر دی گئی جبکہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں موجود ملزم محمد حنیف پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اور تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔

واضح رہے کہ اس مقدمے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کو ضمانت پر رہا کیا ہوا ہے۔

نیب

پارک لین ریفرنس کیا ہے؟

اس مقدمے کی گونج دسمبر 2018 میں اس وقت سننے میں آئی جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو راولپنڈی نیب نے اسلام آباد کے نواحی علاقے سنگجانی میں قیمتی اراضی کو سستے داموں خریدنے کی الزام میں بلایا۔

نیب نے ان پر الزام عائد کیا انھوں نے پارک لین اسٹیٹ نامی اپنی نجی کمپنی کے ذریعے سنہ 2009 میں 2460 کنال زمین جس کی اصل مالیت دو ارب روپے سے زیادہ ہے اسے صرف 6 کروڑ 20 لاکھ روپے میں خریدا ہے۔

پارک لین اسٹیٹ کمپنی آصف زرداری، بلاول بھٹو اور دیگر افراد کی مشترکہ ملکیت ہے اور سکیورٹی ایکسچینج کمشین آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ریکارڈ کہ مطابق اس کمپنی کے ایک لاکھ 20 ہزار شیئرز ہیں جن میں سے بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری 30، 30 ہزار شیئرز کے مالک ہیں۔

یہ مقدمہ نیا نہیں اس سے قبل بھی سنہ 1997 میں آصف علی زرداری پر اس وقت کے احتساب بیورو نےاسلام آباد کی نواحی علاقے سنگجانی میں 2460 کنال کی قیمتی اراضی کو سستے داموں خریدنے کے الزام میں دائر کیا تھا۔

تاہم ناکافی شواہد اور عدم ثبوتوں کے باعث اس مقدمہ کو بند کر دیا گیا۔

اس وقت احستاب بیورو کے سربراہ سیف الرحمان تھے۔

نیب ریکارڈ کے مطابق کراچی کی ایک نجی کمپنی پارک لین اسٹیٹ نے سنہ 2008 فیصل سخی بٹ نامی شخص سے سنگجانی کے قریب 2460 کنال اراضی 6 کروڑ 20 لاکھ میں خریدی تھی۔ جبکہ فیصل سخی بٹ نے بھی یہ اراضی امریکہ میں مقیم ناصر خان نامی شخص سے خریدی تھی۔

ناصر خان نے بھی یہ زمین سنہ 1994 میں 6 کروڑ 20 لاکھ کے عوض خریدی تھی اور احتساب بیورو کی جانب سے 1997 میں آصف علی زرداری پر قائم کیے گئے کیس میں ناصر خان نامی شخص کو آصف علی زرداری کا فرنٹ مین قرار دیا گیا تھا۔

زرداری اور بلاول

نیب ریکارڈ، اطلاعات اور اخباری تراشوں کے مطابق سنہ 1997 سے سنہ 2007 تک ناصر خان ہی اس زمین کا مالک رہا جبکہ سنہ 2008 میں فیصل سخی بٹ نامی شخص نے جو مبینہ طور پر آصف علی زرداری کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے نے اسلام آباد کے سول کورٹ میں ایک درخواست دائر کی۔

درخواست کے مطابق اس نے یہ 2460 کنال 13 مرلے کی زمین ناصر خان سے 6 کروڑ 20 لاکھ میں خریدی ہے اور اس کے عوض اسے 6 کروڑ 10 دس لاکھ ادا کر دیے ہیں جبکہ دس لاکھ کی ادائیگی باقی ہے اور وہ ادا کر کے زمین کی ملکیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔

سنہ 2008 کے وسط میں سول عدالت نے مقدمے میں فیصل سخی بٹ کے حق میں قرار دیتے ہوئے معاملے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجوا دیا جس کے جواب میں ناصر خان نے اپنے وکیل کے ذریعے امریکہ میں کاروباری مصروفیات اور بیماری کا عذر پیش کرتے ہوئے عدالت کے سامنے پیش ہونے پر معذرت کرتے ہوئے فیصلہ فیصل سخی بٹ کے حق میں ہونے دیا۔

سنہ 2008 کے آخر میں جب اسلام آباد عدالت کی جانب سے اس زمین کا انتقال فیصل سخِی بٹ کے نام کیا جانا تھا تب فیصل سخی بٹ کے وکیل کی جانب سے استدعا کی گئی ہے اس زمین کا انتقال پارک لین اسٹیٹ پرائیویٹ کے نام پر کیا جائے۔

تب پہلی مرتبہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی ملکیتی پارک لین اسٹیٹ کا نام منظر عام پر آیا۔ اور جنوری 2009 میں اس زمین کی ملکیت پارک لین اسٹیٹ کے نام کر دی گئی۔

اس کیس میں آصف علی زرداری کی گزشتہ برس گرفتاری ڈالی گئی جبکہ دسمبر 2019 کو ان کو اس کیس میں ضمانت ملی تھی۔

آصف زرداری پر اس کیس میں سستی اراضی خریدنے کے ساتھ ساتھ پروتھینون نامی ایک کمپنی قائم کر کے قرضے کی رقم میں غبن کا الزام بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp