وہ خواتین جو \’کچھ نہیں کرتیں\’ کمال کرتی ہیں


\"sanaگھریلو خاتون بھی ایک عجیب اصطلاح ہے۔ یہ اپنے اندر اس خاتون کا ایک جامع تعارف لیے ہوئے ہے جو کوئی ایسا کام نہیں کرتی جس سے مالی فائدہ ہو، کوئی آمدن ہو یا معاشی ترقی کا باعث ہو۔ ایک ایسی خاتون جو گھر میں رہتی ہے اور جو \’\’کچھ نہیں\’\’ کرتی۔ جس کے بارے میں عام تاثر یہ ابھرتا ہے کہ وہ باہر کی دنیا کے متعلق کچھ نہیں جانتی، اگر کچھ جانتی بھی ہے تو صرف وہی کچھ جو وہ ٹی وی ڈراموں میں دیکھتی ہے۔ اس کی معلومات عامہ عاصم جوفا کے برینڈڈ کپڑوں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں آف سیزن سیل لگی ہے پہ ختم ہوتی ہے۔ بہت ہی باخبر ہو تو مارننگ شو دیکھ کے یہ سیکھ لیتی ہے کہ بستے کا بوجھ زیادہ ہو تو بچے کی ہڈیوں کی افزائش مناسب نہیں ہو پاتی۔ ان موضوعات پہ لاکھوں لطیفے بنے ہیں۔ اور کوئی غیر معمولی صلاحیت کی خاتون ہوں تو بحث کی جرات بھی کر لیتی ہیں جس کا نتیجہ عموماََ یہی ہوتا ہے کہ عافیت اسی میں ہے کہ اس کی بات مان لی جائے ورنہ آپ کی جان کو آ جائے گی۔ یہ تاثر اتنا گہرا ہے کہ کہ اس سے باہر نکل کے سوچنے کا نہ تو کسی کے پاس وقت ہے نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔

انسانی فطرت ہے کہ وہ ان چیزوں کو جو اسے قدرتی طور پہ عطا کی گئی ہوں اور جنہیں کھونے کا اندیشہ نہ ہو ان پہ نہ تو وہ شکر گزار ہوتا ہے نہ ہی ان کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ ان کے بارے میں سوچنا، محسوس کرنا یا ان رشتوں اور چیزوں کی اہمیت کا ادراک کرنا تو بہت دور کی بات ہو جاتی ہے۔ گھریلو خاتون انہیں میں سے ایک ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ عورت کا دل اتنا بڑا کیسے ہوتا ہے کہ وہ اپنی خوشیاں، سکھ، آرام اور خواہشیں اپنی اولاد، خاوند، بہن بھائیوں اور دیگر رشتوں کے لیے تج دیتی ہے؟ وہ کون سا جذبہ ہوتا ہے جو اسے اتنا عطا کر دینے والا بنا دیتا ہے کہ اس کی اپنی ذات کہیں کھو ہی جاتی ہے؟ جواب ہے محبت جو کوئی تقاضا نہیں کرتی جو دینے میں اتنا سکون محسوس کرتی ہے کہ صلے کی تمنا ہی نہیں کرتی۔ وہ عورت جو اپنے صبح شام اپنے خاندان کے آرام و سکون کے لیے صرف کرتی ہے وہ کتنی عظیم ہے۔ لیکن معاشرہ نہ تو اس کی قدر کرتا ہے نہ ہی اس کی خدمات کا اقرار کرتے ہوئے شکر گزار ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس اس کا تصور کسی بے عقل اور بے زبان مخلوق کے طور پہ پیش کرتا ہے۔

ایک طرف شہر میں بسنے والی گھریلو خواتین ہیں جو یا صرف گھر کے تمام کام خود کرتی ہیں یا اپنے زیر نگرانی کرواتی ہیں تو دوسری طرف دیہی خواتین ہیں جو نہ صرف گھریلو کام سر انجام دیتی ہیں بلکہ کھیتوں میں خاندان کے مرد افراد کے شانہ بشانہ بھی کام کرتی ہیں لیکن اس کے بدلے میں کوئی معاوضہ وصول نہیں کرتیں۔ معاشی اصطلاح میں ایسی خدمات کو مخفی بے روزگاری کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے کسی قسم کی آمدن میں اضافہ نہیں ہوتا۔ یہاں برٹرنیڈ رسل کی کہی ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ جو عورتیں گھر سے باہر کام کرتی ہیں اور گھریلو ذمہ داریاں بھی نبھاتی ہیں وہ اضافی بوجھ جھیلتی ہیں۔ بات درست ہے کیونکہ گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے بعد گھر سے باہر بھی کام کیا جائے تب بھی کسی طور یہ نہیں سوچا جاتا کہ عورت کو گھریلو کام میں مرد کے سہارے کی ضرورت اسی طرح ہے جس طرح وہ مرد کے شانہ بشانہ کوشش کر رہی ہے۔

لیکن اس وقت بات ہے ان خواتین سے متعلق جو \”کچھ نہیں \” کرتیں۔ یہ سنہرے ہاتھوں والی خواتین میرے لیے قابل احترام ہیں جو خندہ پیشانی اور کشادہ دلی سے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ جو صبح اس لیے نہیں اٹھیں کہ انہیں سکول، کالج یا آفس سے دیر ہو رہی ہوتی ہے بلکہ صبح خیزی اس لیے ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو خاوند کو، بہن بھائیوں کو یا اپنے سے منسلک دیگر رشتوں کو وقت پہ ان کے مقررہ مقام تک پہنچا سکیں۔ جنہیں اپنے سوا خاندان کے ہر فرد کی کھانے پینے کی پسند نا پسند کا خیال ہوتا ہے۔ جو سب کے گھر لوٹ آنے سے پہلے کھانا تیار رکھتی ہیں، جن کے کام کے کوئی مقررہ اوقات ہوتے ہیں نہ ہی ویک اینڈ کا تصور۔ جو مسکراتی ہیں تو ان لیے کہ اس کے خاندان کے افراد پر سکون رہیں۔ جو اپنی خواہشوں کو خاموشی سے قربان کر دیتی ہیں، جو کبھی یہ نہیں کہتیں کہ تھک گئی ہیں اور بریک چاہیے۔ سلام ہے ان خواتین کو جو بظاہر کچھ نہ کرتے ہوئے بھی کمال کرتی ہیں۔ جن کے ہاتھ میں وہ جادوئی چھڑی ہے جو گھر کے نظام کو بہ احسن و خوبی سنوارے ہوئے ہے۔ جن میں وہ طاقت ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی۔ لیکن جس کے بغیر لگتا ہے کہ چھوٹی سی کائنات جسے گھر کہتے ہیں ویران ہو جاتا ہے۔ یہ خواب گر ہیں جو آنکھوں میں خواب سجانا بھی جانتے ہیں اور ان کو پورا کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا بھی جانتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں وہ طاقت ہے جو نسلیں سنوارتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments