وزیر اعلیٰ پنجاب راجہ یاسر ہمایوں۔۔۔؟


(معاون مصنف: اجمل جامی)

انتخاب ہوئے، تبدیلی آئی، تبدیلی سرکار برسر اقتدار آئی تو اہم مرحلہ وزیر اعلی پنجاب کے لئے کسی نرالے اور وکھرے شخص کا انتخاب تھا۔ سردار عثمان بزدار کا نام جولائی کی آخری ساعتوں میں عمران خان کے سامنے آیا، امر واقع یہ ہے کہ اگلے ہی لمحے کپتان اس نام کو رد کر چکے تھے۔ یہ نام کیوں منظر عام پر آیا اس کی کیا اہم وجوہات تھیں، قارئین بخوبی واقف ہیں۔ عرض یہ تھی کہ انہی دنوں جب بنی گالہ کی ایک خوشگوار شام عمران خان تحریک انصاف کے ایک نو منتخب نوجوان ایم پی اے کو مبارکباد دے رہے تھے تو عمران خان کا وفادار پالتو کتا ان کے قدموں کے پاس اٹکھیلیاں کر رہا تھا، کبھی آنکھیں موند لیتا تو کبھی جاگ اٹھتا، کبھی نیم مدہوش تو کبھی انتہائی ہوشیاری سے چست، گویا وہ اپنے باس کے دل کے اندر اٹھنے والے سیاسی تلاطم اور فیصلہ سازی کی رم جھم کے رنگ خوب بھانپ چکا ہو۔

اسی اثنا میں کپتان کے سامنے بیٹھے نومنتخب نوجوان ایم پی اے خاموشی سے اور انتہائی انہماک سے اپنے رہنما کی گفتگو سن رہے تھے۔ ان کے لہجے سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اپنے نو منتخب نوجوان ایم پی کو گویا کوئی بڑا سرپرائز دینے جا رہے ہیں، اور پھر یہی ہوا؛ کپتان مختصر تمہید کے بعد گویا ہوئے ؛ میں آپ کو پنجاب میں اہم ذمہ داری دینے والا ہوں، آپ کو معلوم ہے؟ نوجوان ایم پی نے فوراً عرض کی کہ سر! مجھے بس پنجاب کا فنانس منسٹر نہ لگائیے گا۔ کپتان یہ سن کر مسکرا دیے، بنی گالہ کے اس ڈرائنگ روم میں کچھ دیر خامشی کا راج رہا۔ اور پھر کپتان نے ٹانگ سے ٹانگ ہٹائی، سیدھے ہو کر بیٹھے اور قدرے نیم جذباتی لیکن پر اعتماد انداز میں گویا ہوئے ؛ راجہ یاسر ہمایوں سرفراز! میں آپ کو وزیر اعلی پنجاب لگانا چاہتا ہوں، یہ سن کر راجہ یاسر کے اوسان خطا ہو گئے اور ان کے دل کی دھڑکنیں تیز سے تیز تر ہو گئیں۔ وہ جواب میں کچھ بھی نہ کہہ پائے۔ ملاقات روایتی انداز میں ختم ہوئی اور پھر فیصلہ سازی کا مرحلہ تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔

راجہ یاسر کو کپتان نے تین بنیادی وجوہات کی بنیاد پر وزیر اعلی پنجاب کے لئے منتخب کیا تھا، ایک یہ کہ وہ ایماندار ہیں دوسری یہ کہ وہ کسی کے آدمی نہیں سوائے اپنے کپتان کے اور تیسری یہ کہ وہ پڑھے لکھے اور نسبتاً متوازن شخصیت کے مالک ہیں۔ عمران خان کا یہ فیصلہ جب تحریک انصاف کے دیگر سرکردہ اور با اثر سیاسی رہنماؤں تک پہنچا تو جانے انجانے میں ان کے ہاں ایک کہرام برپا ہو گیا، عمران خان کے ایک انتہائی قریبی اور سیاسی طور پر با اثر دوست نے کپتان کو فوری سمجھایا کہ حضور آپ یہ غلط فیصلہ لے رہے ہیں، راجہ یاسر ہمایوں اگر پنجاب کا چیف منسٹر ہوگا تو جنوبی پنجاب محاذ تحریک اور نئے صوبے کی بنیاد کی روح متاثر ہوگی۔

عمران خان کے قریبی دوست اور اس با اثر سیاسی شخصیت نے انہیں قائل کیا کہ آپ وزیر اعلی کے لئے جنوبی پنجاب سے کسی شخص کا انتخاب کریں تاکہ وزیر اعلی کو اعتماد کا ووٹ لیتے ہوئے بھی کوئی دقت نہ ہو اور جملہ سیاسی روایات میں اپنا قد کاٹھ بھی بلند ہو۔ معتمد ذرائع بتاتے ہیں کہ وزیر اعلی کے نام کے لئے فیصلہ سازی کے دوران کپتان کے ہاں ایک اور اہم مدعا پختون خوا کے سابق وزیر اعلی پرویز خٹک سے جڑے کچھ مسائل بھی تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ خٹک صاحب کی رپورٹنگ لائن کپتان کے علاوہ مذکورہ بالا قریبی سابقہ سیاسی دوست رہے ہیں اور وہ انہی کا ایجنڈا پروان چڑھاتے ہیں۔ لہذا اس بار کپتان کو یکسوئی کے ساتھ صرف ایک سمت میں رپورٹنگ کرنے والا وزیر اعلی درکار تھا۔

تحریک انصاف کے اندر ونی حلقوں میں چہ مگوئیاں جب پروان چڑھیں اور کسی حد تک دباو میں بھی اضافہ ہوا تو راجہ یاسر کا نام جو بارہ اگست تک عمران خان کے کاغذوں میں فائنل تھا وہ فیصلہ سازی کی سلیٹ سے مٹ گیا۔ کپتان نے راجہ یاسر کا نام سائیڈ پر تو کر دیا لیکن پارٹی کے اندرونی دباؤ کو بھی خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کرتے ہوئے بزدار سرکار کو ہی وزیر اعلی کے طور پر چن لیا۔

عثمان بزدار وزیر اعلی بن گئے، سیاسی حرکیات کے کسی پیمانے پر وہ اپنا نقش نہ جما سکے، تنقید کی زد میں رہے، لیکن کپتان کی تھپکی بدستور شامل حال رہی، ان حالات و واقعات کے تناظر میں مارچ دو ہزار انیس میں کپتان نے اپنے وزیر اعلی کو فائنل وارننگ دی۔ بلکہ بقول شخصے ایک سال قبل تو کپتان بزدار سرکار کو تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی کر چکے تھے، اور تو اور میاں اسلم اقبال وزیر اعلی کی کرسی کے قریب قریب دکھائی دیے، باریک وجوہات آڑے آئیں اور کپتان اس سوچ پر زیادہ فوکس نہ کر سکے۔ اٹک سے اپنے یاور بخاری بارے بھی رپورٹنگ ہوئی، بظاہر کھرے انسان ہیں، لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی۔ اہم شخصیات نے براہ راست اور بالواسطہ مشورے بھی دیے، کپتان اپنے فیصلے پر قائم رہے اور اس بیچ افواہوں کا بازار بھی خوب گرم رہا۔

ابھی چند ہفتے پہلے عمران خان سے مراد راس، سبطین خان اور محسن لغاری کی ملاقات ہوئی، جانے مانے بلکہ یوں کہیے کہ مشہور تجزیہ نگاروں کے ہاں تاثر رہا کہ گویا یہ وزیر اعلی کے لئے امیدواروں کے انٹرویو ہو رہے ہیں۔ مگر حقیقت اس کے برعکس تھی؛ مراد راس وزیر اعظم کو پیف کے مسائل پر اعتماد میں لینے گئے تھے، سبطین خان میانوالی میں کچھ سڑکوں اور طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے ملے اور محسن لغاری کی ملاقات بھی اپنی وزارت سے جڑے معاملات کے تناظر میں طے تھے۔ راجہ بشارت بھی خبروں میں رہے کہ انہیں اہم شخصیات کی تائید حاصل ہے اور وزیر اعظم کو ان کے بارے میں بھی مفید مشورے دیے گئے۔

لیکن اب صورتحال یکسر بدل چکی، نیب حرکت میں ہے، کیس ہے، الزام ہے، گواہ ہیں، باریک بینی ہے، ماحول ہے، کسی اونچے مقام پر کھڑے ہو کر جائزہ لیا جائے تو ٹھنڈی میٹھی فلم کسی بھی وقت کوئی بھی ڈرامائی موڑ لے سکتی ہے۔ کپتان کے انتہائی قریبی ذریعے نے تصدیق کی ہے کہ کپتان کچھ ہفتوں سے بزدار سرکار کے بارے میں ہلکی طنزیہ گفتگو فرما رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے قریبی دوست یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ نیب کی باریک بینی کے ہنگام بزدار سرکار کے سر سے شفقت کا ہاتھ کسی حد تک سرکتا دکھائی دے رہا ہے۔

کپتان حکومت کے دو سال مکمل ہوتے ہی بزدار بحران شدت اختیار کر تا دکھائی دے رہا ہے اگر کسی وقت تبدیلی ضروری ہو گئی تو پھر کیا کپتان فیصلے کی سلیٹ پر لکھے اگست دو ہزار اٹھارہ والے نام کو دوبارہ لکھ کر نافذ کر پائیں گے یا اس بار پھر نام کے چناو میں مصلحت آڑے آئے گی؟ آنے والے دن انتہائی دلچسپ ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).