جستجو کیا ہے


\"eruj\"

دھیرج سے ایرج
وہ بھی دیکھا
یہ بھی دیکھ
کتنے خوابوں کے بعد
لمبی مفارقت کے بعد
ادھر جانے کی سبیل پیدا ہوتی ہے
دل راستے بھر دھکڑ پکڑ کرتا رہا
اور اب یہ حال
کہ اپنی بستی
اندر جانے کے رستے سمیٹ
گم سم ہو گئی ہے
میں نے باہر سے ٹکریں مار مار
اندر جانے کا رستہ پا بھی لیا
مگر وہاں
ایک آوارہ خواب
میرا راستہ روکنے کو آن پہنچا
ناد علی پڑھی
اے بھائی ہم کہاں ہیں
کون سا رستہ کدھر کو جاتا ہے
زمانے نے
ایک ایک کر کے
ساری نشانیاں مٹا ڈالی ہیں
مگر پوری چھوٹی بزریا میں
یہاں سے وہاں تک
بھیڑ ہی بھیڑ ہے
اجنبی صورتیں
درودیوار
وہ بھی اجنبی
وہ پچھلے درودیوار کہاں گئے
جہاں شام پڑے
رات مقرر آتی تھی
آسمان سے خوان اترتے تھے
نہ یہاں چامندا نظر آرہی ہے
نہ ہماری وہ کربلا
جس کی بغل میں
املی کے پیڑوں پہ
بندر جھولتے رہتے تھے
نہ گنگا کی وہ پتلی دھار
جو چھوئیے کے نام سے بہتی تھی
نہ سنبھل والوں کی چوپال
نہ مالا گڑھیا کا امام باڑہ
انتظار حسین
اس بڑی دنیا میں
ہمیں رہنے کو ٹھکانا کہاں میسر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments