سلامتی اور معاشی پالیسیوں میں ہم آہنگی کی ضرورت


پاکستان اپنے خطے کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو اپنے قیام کے بعد سے اب تک اپنے مشرق اور مغرب کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ اختلافات حل نہیں کر سکا ہے۔ باہمی تنازعات کا کوئی حل نہ نکل سکنے کے باعث پاکستان معاشی جمود کا شکار ہے جس کی وجہ سے سیاسی طور پر بھی وہ عدم استحکام سے مستقل دو چار رہتا ہے۔

پاک بھارت تعلقات میں تناؤ اور کشیدگی، طاقت ور غیرجمہوری عناصر کے لئے ضروری ہے۔

تین دہائی پہلے بھارت کی سیاسی اور کارپوریٹ قیادت نے فیصلہ کیا تھا کہ ہندوستان کی اہم ترجیح پائیدار معاشی ترقی ہے لہذا بڑے معاشی اہداف کے حصول کے لئے پاکستان سے کسی بڑی جنگ کو ہر قیمت پر روکنا اس کے مفاد میں ہو گا۔ پاکستان اسی طرح کے اسٹریٹیجک فیصلے کبھی نہ کر سکا۔ پاکستان میں قومی سلامتی اشرافیہ کسی ایسی پالیسی کی تشکیل یا تائید کرنے سے گریزاں ہے جو ملک کی معاشی ترقی اور سلامتی کی ضروریات کے درمیان توازن قائم رکھ سکے۔

بھارت میں بھی ہارڈ لائنرز کی کوئی کمی نہیں ہے اور وہ پاک بھارت تعلقات میں پیشرفت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ بھارت حتی الامکان کوشش کرتا ہے کہ ہارڈ لائنرز کو پالیسی پر کنٹرول حاصل نہ کرنے دیا جائے۔ کیونکہ ان کے سخت گیر بیانات سے مستقبل کی کسی بھی سفارتی پیشرفت اور معاشی ترقی کے پائیدار عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

سلامتی پالیسی پر کنٹرول کھونے کا خدشہ سویلین حکومتوں کے خلاف دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے جارحانہ اقدامات کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ سول اور دفاعی مقتدرین کے درمیان حکمت عملی کا واضح فرق پچھلے کئی سالوں کے دوران کئی بار سامنے آیا ہے۔

بھارت، پاکستان اور افغانستان کے حالات میں خرابی کی بنیادی وجہ کشمیر اور ڈیورنڈ لائن کے تنازعات ہیں۔ تاہم دفاعی پالیسی اگر پائیدار معاشی پالیسیوں سے ہم آہنگ نہ ہو تو دونوں پالیسیوں کی ناکامیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک معیشت اور سلامتی کی کوئی متفقہ حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی ہے۔ منتخب سیاسی قوتوں سے بالخصوص نواز شریف سے ٹکراؤ میں بھی یہی تضاد کار فرما نظر آتا ہے۔

سنہ 1950 کی دہائی سے ملکی دفاعی پالیسی جیوسٹریٹجک نکتے پر مرکوز ہے۔

تاریخی طور پر ہندوستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات ہیں۔ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات بھارت کی دفاعی حکمت عملی سے منسلک ہیں لہذا پاکستان بھی اپنی سکیورٹی کی مجموعی حکمت عملی میں دونوں ممالک کو ساتھ جوڑنے پر مجبور ہے۔

سنہ 2001 میں امریکی فوج کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد بھی اس پالیسی کو ترک نہیں کیا گیا۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد، بھارت نے افغانستان کو معاشی اور فوجی امداد فراہم کی ہے جسے پاکستان اپنے لیے شدید خطرہ محسوس کرتاہے۔ تاہم جس چیز کو نظرانداز کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ مضبوط تاریخی اور ثقافتی تعلقات ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مماثلت اور قدرتی وابستگی موجود ہے اس لئے ہندوستان اور افغانستان کے درمیان جو بھی تعلقات ہوں ان سے پاکستان کے لئے زیادہ خطرہ پیدا نہیں ہو گا۔ لہذا اس پالیسی کو غیر منسلک کرنے اور دونوں ممالک کے ساتھ الگ الگ اکائیوں کی حیثیت سے تعلقات میں بہتری لانا ایک بہتر نقطہ نظر ہوگا۔

پاکستان جغرافیائی طور پر مشرق وسطی سے لے کر ہندوستان اور چین تک اور ہندوستان سے وسط ایشیاء تک روایتی کاروباری مراکز کے سنگم پر موجود ہے۔ پاکستان کے لئے منطقی بات یہ ہے کہ وہ معاشی اور کاروباری نمو کے لئے اپنے جغرافیائی محل وقوع کے فوائد کو استعمال کرے مگر پاکستان کے اصل حکمران عناصر کا زور ہمیشہ جغرافیائی صورتحال کے دفاعی پہلو پر مرکوز رہا ہے اس حوالے سے سماجی و سیاسی اور سماجی و اقتصادی حالات کے تناظر پر شاید ہی کبھی کوئی توجہ دی گئی ہے۔

معاشی پہلوؤں کو پیش نظر رکھ کر کبھی بھی جنگ یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں بات نہیں کی جاتی ہے جس کی وجہ سے منصوبہ ساز غیر روایتی مقامات پر وسائل تلاش کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ فوری حل کی تلاش نے متعدد ترقی پذیر ممالک کو معاشی بھنور میں ڈالا ہے اور انہیں آسان حل کی طرف راغب کیا ہے۔ پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران نجی شعبے میں سرمایہ کاری پیمانے اور وسعت کے حوالے سے بہت محدود ہے۔ ریاست بڑے پیمانے پر اپنے منصوبوں کے لئے غیر ملکی مالی اعانت یا حمایت حاصل کرنے سے قاصر رہی ہے جس نے آخر کار بجلی کی فراہمی اور گھریلو گیس کی فراہمی کا بہت بڑا بحران پیدا کیا۔

سنہ 1970 کی دہائی سے پاکستان کی عسکری قیادت نے فوج کے معاشی بوجھ کو کم کرنے کے لئے مختلف کاروبار سے آمدنی پیدا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے تا کہ بظاہر سرکاری بجٹ پر کم بوجھ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ غیر سیاسی جتھوں کا منظم کیا تاکہ ہندوستان اور افغانستان کے ضمن میں اپنے دفاعی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ ان اہداف میں خاص طور پر بھارت سے کشمیر لینا اور بھارت کے کشمیر کنٹرول کی لاگت میں اضافہ کرنا شامل ہے۔

مشرقی سرحدوں پر غلط حکمت عملی زیادہ بہتر نتائج حاصل نہیں کر سکی۔ اس کے نتیجے میں گھریلو عسکریت پسندی اور دہشت گردی پھیل گئی۔ عسکریت پسندوں کی طرف سے دراندازی اور سیاسی جماعتوں کو لاحق دھمکیوں نے سیاسی جماعتوں کو متحرک رہنے سے روک دیا ہے اور اس سے سے ملک کا انتظامی ڈھانچہ کمزور ہوا ہے۔

بھارت کی طرف سے کسی خطرے کا احساس پاکستان کے اندر دفاعی سوچ پر ضرب لگاتا ہے اور دفاعی مقتدرین کو سیاسی راستے فراہم کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین مشترکہ جڑوں تاریخ اور ثقافتی مماثلتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن اس مقصد کے لیے پاکستان کی سیاسی قوتوں کے کردار کو زیادہ گنجائش دینے کی ضرورت ہے۔

آج کی بدلی دنیا میں سرد جنگ کے دور کی جنگی حکمت عملی کار گر ثابت نہیں ہو گی۔ اگر پڑوسی ملکوں سے تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوتا ہے تو پاکستان مسلسل معاشی اور سیاسی بحران کی زد میں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).