کراچی کمیٹی کی تشکیل یا پردہ داریاں


مجھے چار پانچ برس پہلے کی یہ بات خوب اچھی طرح یاد ہے جب پاکستان میں سب سے خراب ترین حکومت، حکومت سندھ قرار دی جا رہی تھی۔ یہ دور قائم علی شاہ کے زمانے کا تھا اور ہر آنے والا دن کسی نہ کسی گورنر راج کی کہانیاں سناتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ کراچی میں روز ایک گرماگرم میٹنگ ہوتی تھی جس میں آرمی چیف راحیل شریف صاحب تشریف فرما ہوا کرتے تھے اور باخبر ذرائع بتایا کرتے تھے کہ آصف علی زرداری کو اول تو ان میٹنگوں میں گھسنے تک کی اجازت نہیں تھی اور اگر وہ شریک ہو بھی جاتے تھے تو بھیگی بلی کی طرح کسی کونے میں منھ چھپائے دکھائی دیا کرتے تھے۔

اکثر نواز شریف کو بھی شریک دیکھا گیا تھا۔ اس وقت لندن والی ایم کیو ایم بھی اجلاس میں شریک ہوا کرتی تھی جو ایم کیو ایم پاکستان ہی کے نام سے پہلے بھی ”میدان“ میں موجود تھی اور آج بھی ایم کیو ایم پاکستان ہی کہلاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب ”میدان“ ہی نہیں زمین بھی ان کے پاؤں سے نکل چکی ہے۔ قائم علی شاہ بت بنے بنا کوئی آواز نکالے ایک جانب بیٹھے نظر آتے تھے اور راحیل شریف صاحب سب شرکا کو شیر کی نظر سے گھور گھور کر اس طرح دیکھ رہے ہوتے تھے جیسے کسی وقت بھی وہ ان پر جھپٹ پڑیں گے۔

بات چند ہفتوں میں خاص قسم کے آپریشن کے سلسلے میں قانون سازی کا تھی لیکن اس وقت بھی دبے الفاظ ہی میں سہی، ایم کیو ایم کی قیادت یہ ضرور کہتی نظر آتی تھی کہ بظاہر قانون سازی تو پاکستان بھر کے ہر قسم کے متشدد گروہوں کے خلاف کی جا رہی ہے لیکن قیادت کو یقین ہے کہ گزشتہ دور کی طرح سارا نزلہ ان ہی پر گریگا۔ ان کا یہ کہنا کتنا غلط تھا اور کتنا درست یہ الگ بحث ہے لیکن جب تک قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ رہے، سند حکومت پر وفاق اور افواج پاکستان کا شدید دباؤ رہا۔ اسی دوران اندرون سندھ کئی مقامات پر رینجرز پر حملے بھی ہوئے اور ایسا بھی ہوا کہ ان سے ان کے ہتھیار بھی چھین لینے اور ان کے ساتھ بد سلوکی کے واقعات بھی سامنے آئے۔

ایک جانب پورے سندھ کی صورت حال یہ تھی تو دوسری جانب اچانک قائم علی شاہ کے تخت کا تختہ کر دیا گیا اور مراد علی شاہ تخت سندھ پر براجمان ہو گئے۔ پھر نہ جانے کیا ہوا، کراچی کے علاوہ پورا سندھ فرشتوں سے بھر گیا اور سارے شیاطین کراچی میں ایسے پھیلے کہ اسے شیاطین سے پاک صاف کرنے کے لئے افواج پاکستان کا سہارا لینا پڑا۔ وہ دن اور آج کا دن، اندرون سندھ میں پاکستان نہ کھپے کا نعرہ مستانہ گونجتے رہنے کے باوجود بھی سب کے سب محبان پاکستان میں شمار ہونے لگے اور کراچی ضرب عضب کے غضب کا ایسا شکار ہوا کہ آج تک اس کے حالات پاکستان کی صوبائی حکومت، وفاق اور افواج پاکستان کے قابو میں نہیں آ سکے اور ہر آنے والا دن کسی نہ کسی عجیب و غریب دھما چوکڑی کا شکار نظر آنے لگا۔

سیاسی مسائل تو جانے کب حل ہوں گے ، صفائی ستھرائی تک کے معاملات اس حد تک بگڑ کر رہ گئے کہ اس کے لئے پہلے فوج اور وفاق کو کودنا پڑا پھر یہ فیصلہ ہوا کہ کہ بنا سندھ کی شرکت معاملات کی ”پرداہ داری“ ناممکنات میں سے ہو جائے گی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کراچی کو کراچی بنانے میں صوبائی حکومت کی مکمل ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے پہلے اسے وفاقی حکومت کے توسط سے درست کرنے کی کوشش کی گئی، پھر وفاق نے اپنی بے بسی کو محسوس کرتے ہوئے ندی نالوں تک کی صفائی جیسے مسئلے کے لئے پاکستان کے اہم ادارے کی خدمت لینا ضروری سمجھا تو پھر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی ناکامیوں کے باوجود اس بات کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی کہ اس کام کے لئے جو کمیٹی بنائی جائے اس میں وہی پٹے ہوئے مہرے شامل کیے جائیں؟

خبروں کے مطابق وفاق اور سندھ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے پھر کمیٹی بنانے پر متفق ہوگئے۔ ترجمان وزیر اعلیٰ ہاؤس سندھ کے مطابق اسلام آباد میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے ملاقات کی، جس میں وزیر بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ اور وزیر تعلیم سعید غنی کے علاوہ چیئرمین این ڈی ایم اے نے بھی شرکت کی۔ ملاقات کے دوران سندھ بالخصوص کراچی کے مسائل کے حل پر تبادلہ خیال کیا گیا اور وفاق و سندھ کے درمیان 6 رکنی رابطہ کمیٹی بنانے پر اتفاق کیا گیا جو پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم پر مشتمل ہوگی۔

کوئی تو ایسی بات ہوگی جو ماضی میں قائم علی شاہ کے وزیر اعلٰ ہوتے ہوئے ممکن نہیں رہی ہوگی اور مراد علی شاہ کے آتے ہی ممکن ہو گئی ہوگی اور کوئی تو ایسی بات ہوگی جو اب بھی مراد علی شاہ کے بغیر نہیں کی جا سکتی ہوگی لیکن جو صوبائی حکومت پاکستان کا پیٹ پالنے والے شہر کی سڑکیں، گلیاں، گٹر، گندگی سے بھرے نالے تک صاف رکھنے میں ناکام رہی ہو، جس پر ہر روز گورنر راج کی تیزدھار تلوار لٹکی رہتی ہو اور جو وفاق اور فوج کی بیڈ بک میں شمار کی جاتی ہو وہ قائم علی شاہ کے جاتے ہی اور مراد علی شاہ کے آتے ہی اتنی طاقتور کیسے ہو گئی کہ نہ تو وفاق کے قابو میں آ رہی ہے اور نا ہی طاقتور ادارے اس پر اپنا دباؤ برقرار رکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔

ان سوالوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک ہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ یقیناً قائم علی شاہ کے ہٹائے جانے اور مراد علی شاہ کو لائے جانے میں کسی نہ کسی سمجھوتے کا کوئی نہ کوئی عمل دخل تو ضرور رہا ہوگا۔ ورنہ باقی حکومت، اس کے وزیر وزرا اور مشیران تو اوپر سے نیچے تک وہی کے وہی ہیں اور کراچی سمیت پورے سندھ کی صورت حال بد سے بد تر تو ضرور ہوئی ہے، بہتری کی جانب اس نے ایک انچ بھی سفر نہیں کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).