احساس کمتری کے ڈیفنس کا لنڈا بازار


مجھے فخر ہے کہ میں ایک پیدائشی ’مڈل کلاسیا‘ ہوں۔ آپ میرے اس جملے پر مجھے حقارت سے دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں مگر اس فخر کی وجہ یہ نہیں کہ ’ہائی کلاس‘ کے انگور کھٹے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہمارے وطن کی نام نہاد ’ہائی کلاس‘ بھی اپنے تصور ذات میں اس قدر کمتر ہے تو ایسے سماج میں مڈل کلاس ہونا حقیقتاً کسی نعمت سے کم نہیں۔ شاید نام کی مناسبت سے مڈل کلاس احساس کمتری میں بھی اوسط ہو؟ لیکن کیا احساس کمتری صرف سماج کے بالائی طبقے تک محدود ہے؟ نہیں، یقیناً غریب طبقے میں ہی احساس کمتری سب سے زیادہ ہے۔ لیکن بالائی طبقہ بھی احساس کمتری میں ناک تک ڈوبا ہوا ہے۔ آخر اس معاشرے میں کوئی بھی ایسا طبقہ یا فرد ہے جو احساس کمتری یا احساس برتری کے سرطان سے محفوظ اور ایک متوازن تصور ذات رکھتا ہو؟

علم نفسیات کو احساس کمتری پر سب سے اعلیٰ نظریہ فراہم کرنے والے ایلفریڈ ایڈلر ؔنے انسانوں کے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش کو ہی انسانی فطرت کی سب سے بنیادی تحریک قرار دیا تھا۔ اس تحریک کی بنیاد میں احساس کمتری ہی کارفرما ہوتا ہے۔ ایڈلر کے مطابق انسان کمتر نہیں رہنا چاہتا، وہ برتر بننا چاہتا ہے، لیکن اس کا رستہ ہر شخص مختلف چنتا ہے۔ کچھ لوگ وہ راستے چنتے ہیں جو کہ ان کو تو برتر بناتے ہیں لیکن ان کے اس برتری کے سفر سے کسی کو تکلیف نہیں ہوتی۔ جبکہ کچھ افراد وہ طریقے اختیار کرتے ہیں کہ جن میں دوسرے انسانوں کو نیچا کر کے انسان خود کو برتر بناتا ہے۔

کاش ایڈلر ہمارے معاشرے میں ابھی کے انسانوں کا نفسیاتی تجزیہ کر پاتا۔ کیونکہ یقینی طور پر ہمارا معاشرہ سو فیصد ’ایڈلرئین‘ سماج بن چکا ہے۔ اس بات کی دلیل میں کئی مشاہدات ذیل میں پیش کر رہا ہوں۔

ایک مرتبہ میرا ڈیفنس کے لنڈا بازار جانا ہوا۔ میرے ذہن میں یہ خیال تھا کہ لنڈا بازار غریبوں کی یا حد سے حد مڈل کلاسیوں کی شے ہے، اس سے امیروں کا کیا تعلق؟ لیکن ڈیفنس کے لنڈا بازار جا کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہاں بڑے ’برگر‘ قسم کے افراد تیزی سے لنڈے پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ وہ چیزوں کے برانڈز کے Tag دیکھتے اور ان کو خرید لیتے۔ مارکیٹنگ ریسرچ کی کتابوں میں یہ بات کئی تحقیقات کے حوالے سے درج ہے کہ برانڈز کے دیوانے ہونے کے پیچھے ایک پست تصور ذات بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے کہ اس طرح لوگ اپنی کمی کو برانڈ کی شخصیت میں چھپا کر خود کو مکمل کرتے ہیں۔

لیکن مہنگی برانڈز کو رکھنا خود ایک طرح سے دھونس جمانے کا کام بھی دیتا ہے۔ ہمارے امرا سوچتے ہیں کہ وہ مہنگی گاڑی سے اتریں گے اور مہنگے گھر میں رہیں گے تو کون شک کرے گا کہ وہ لنڈے کے کپڑے یا جوتے پہنتے ہیں؟ یعنی ان کو کو اپنی کمتری کو چھپانے کے لئے لنڈے کا پیوند چاہیے۔ میرے ایک عزیز سے ان کی اولادوں نے 25 سال پرانی گاڑی محض اس لیے بکوا دی کہ اس گاڑی میں کہیں آنے جانے سے ان کو شرم آتی تھی۔ یعنی سواری بھی سفر کا ذریعہ نہیں بلکہ دھونس جمانے کا ایک اوزار ہی ہے۔

میری یونیورسٹی کے زمانے کی بات ہے کہ میرا ایک کلاس فیلو، عرفان لائبریری میں بیٹھا ایک جونیئر لڑکی سے اپنا تعارف کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ اس نے لڑکی کو بتایا کہ وہ ڈیفنس میں رہتا ہے۔ میں نے فوراً اپنی کمینی فطرت سے مجبور ہوکر ٹانگ اڑائی کہ اگر ایسا ہے تو پھر وہ کورنگی کے پوائنٹ پر یونیورسٹی کیوں آتا ہے؟ اب ’ڈیفنس والے‘ عرفان کی حالت دیدنی تھی۔

اس ملک میں لوگ اپنے غریب یا پسماندہ نظر آنے والے رشتہ داروں سے سب کے سامنے ملنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ پورا معاشرہ ہی اپنی زبان پر اتنا شرمندہ ہے کہ اداکارہ میرا ہی بنا جا رہا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس ملک میں بیوٹی پارلر اور انگلش لینگوئج سینٹر ہر روز کسی وائرس رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔ عورت، مرد، جوان، بوڑھے الغرض سب ہی خوبصورت نظر آنے چاہتے ہیں اور انگریزی دان بننے کی فکر میں ہیں۔ لوگوں کو اپنی کھال، اپنے بالوں اور اپنی آنکھوں کا رنگ پسند نہیں۔ اپنی زبان اور بولی پسند نہیں۔ اپنے علاقے، اپنی سواری الغرض اپنی کوئی چیز پسند ہی نہیں۔ لوگ جن چیزوں پر غرور کر تے ہیں وہ بھی دراصل دوسروں کے تناظر میں ورنہ وہ چیزیں بھی ان کے لئے اپنی ذات میں فخر کا باعث نہیں۔

2008 ء میں لاہور میں میرے ایک دوست نے مخصوص لاہوری مہمان نوازی سے مغلوب ہو کر مجھے اور میرے خاندان کو لاہور دکھانے کی ذمہ داری اٹھائی۔ وہ ہم لوگوں کو لاہور کے جدید حصے (جیسے فورٹریس مال وغیرہ) دکھانا چاہتا اور بار بار یہ بولتا جاتا کہ ’لاہور بھی اب بہت‘ ماڈ ’ہو گیا ہے‘ اور ہم لوگ اس سے بار بار لاہور کے قدیم اور ثقافتی رخ کی تعریف کرتے۔ میں نے اس کو قدیم روثے کے ذکر پر تقریباً شرمندہ پایا۔ اس ملک کے اکثر لوگ اپنے شہروں، قصبوں، گاؤں پر شرمندہ ہیں۔ بہت بڑی تعداد اپنے شہر میں اپنے علاقے اور اپنے گھرپر بھی شرمندہ معلوم ہوتی ہے۔ لوگ کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے پر جشن مناتے ہیں۔ لوگ گاڑیوں، ٹی وی، فرج، کمپیوٹرز کے ساتھ فخر سے تصویریں بنواتے ہیں۔ فیئرنس کریم اور فارمولا کریم لگا لگا کر جلد کے کینسر کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اسلام آباد کو ہی لیجیے کہ صرف ہمارے وطن کا ہی مرکز نہیں بلکہ ہمارے وطن کے احساس کمتری کے شکار افراد کا مرکز بھی ہے۔ ہر کوئی ہر وقت اپنے علاقے، اپنے گھر، اپنے لان، الغرض اپنی ہر شے کی یا تو دھونس مارتا ہے یا اس پر شرم سے زمین میں گڑا جاتا ہے۔ یا تو یہ بات ہوتی ہے کہ ’ہم F۔ 7 میں رہتے ہیں!‘ یا یہ بات ہوتی ہے کہ ’یار ہم تو F۔ 7 میں نہیں رہتے، ہم تو اپنا پتہ بھی کسی کو نہیں بتا سکتے۔‘

خیر احساس کمتری کی یہ قومی دوڑ ہر قصبے، ہر قریے، ہر حلقے، ہر طبقے اور ہر پیشے کے لوگوں میں بڑے جذبے سے جاری ہے۔ ہماری وہ حالت ہو گئی ہے کہ ایک صاحب بس میں سفر کرکے گلگت سے کراچی تشریف لائے اور سب کو یہ بتاتے ہوئے پائے گئے کہ ان کی گلگت سے کراچی کی فلائٹ تھوڑی Delay ہو گئی تھی۔ ہمارے وطن میں لوگ بس کے سفر پر فخر نہیں کر سکتے اور جہاز کا سفر افورڈ نہیں کر سکتے۔ اس لیے جھوٹ کی فلائٹ سے اس خلا کو پاٹتے ہیں۔ جھوٹ احساس کمتری کے مریضوں کی سب سے پسندیدہ اور سب سے ’افورڈایبل‘ برانڈ ہے۔ یہ برانڈ احساس کمتری کے لنڈا بازار میں بہت زیادہ مل جاتی ہے۔ جھوٹ کے محدب عدسے سے چیونٹی کے برابر تصور ذات بھی ڈائنا سار معلوم ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).