پشاور کے کمرۂ عدالت میں توہین رسالت کے ملزم کا قتل: سہولت کاری کے الزام میں جونیئر وکیل جیل منتقل


پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں توہین رسالت کے ملزم طاہر نسیم کے قتل کے لیے سہولت کاری کے الزام میں گرفتار جونیئر وکیل طفیل ضیا کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تین روزہ ریمانڈ کے بعد جیل بھیج دیا ہے۔

29 جولائی کو توہین رسالت کے الزام میں گرفتار ملزم طاہر احمد نسیم کو ملزم فیصل خالد نے سیشن جج کی عدالت میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ طفیل پر الزام ہے کہ انھوں نے اس قتل میں سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔

سنیچر کو پشاور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مبینہ سہولت کار کو پیش کیا گیا۔ ان کے وکیل شبیر حسین گگیانی نے بتایا کہ طفیل ضیا نے عدالت میں ملزم کو سہولت فراہم کرنے کے الزام سے انکار کیا ہے۔

ان کا دفاع کرتے ہوئے وکیل کا کہنا تھا کہ طفیل ضیا کے بقول ان کا اس سہولت کاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم عدالت نے طفیل ضیا کو جیل بھیج دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

توہین رسالت کے ملزم کو کمرۂ عدالت میں گولی مار دی گئی

توہین مذہب: لیکچرار جنید حفیظ کو سزائے موت کا حکم

انڈیا: پیغمبر اسلام کے بارے میں ’توہین آمیز‘ پوسٹ پر پاکستان کا احتجاج

پیغمبرِ اسلام کی گستاخی ’آزادیِ اظہار‘ نہیں ہے: یورپی عدالت

جونیئر وکیل طفیل ضیا کو پولیس نے منگل کے روز سہولت کاری کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

پشاور پولیس کے افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طفیل ضیا پر الزام ہے کہ انھوں نے توہین مذہب کے ملزم طاہر احمد نسیم پر فائرنگ کرنے والے ملزم فیصل خالد کو پستول پہنچایا تھا اور اس بارے میں پولیس مختلف زاویوں سے تفتیش کر رہی ہے۔

پشاور، توہین رسالت

پشاور میں توہین رسالت کے ملزم کے قتل کے بعد فائرنگ کرنے والے کے حق میں مظاہرہ کیا گیا

سہولت کس نے فراہم کی تھی؟

ملزم فیصل خالد کو پستول کس نے فراہم کیا تھا اس بارے میں پولیس تحقیقات کر رہی ہے۔

پولیس تھانہ شرقی کے اہلکاروں نے بتایا کہ دوران تفتیش انھیں معلوم ہوا کہ ملزم فیصل خالد کو سہولت فراہم کرنے میں مبینہ طور پر جونیئر وکیل طفیل ضیا ملوث ہیں جن پر تحقیقات کے لیے انھیں گرفتار کیا گیا۔

جونیئر وکیل طفیل ضیا کو بدھ کے روز عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں عدالت نے انھیں تین روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔ آج جب طفیل ضیا کو عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نے انھیں جیل بھیج دیا۔

پشاور کے وکلا کے مطابق طفیل ضیا جونیئر وکیل ہیں اور ان دنوں سینیئر وکلا کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق انھوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے اور لائسنس کے لیے درخواست دی ہوئی ہے۔

مقتول طاہر احمد نسیم کے خلاف درخواست 2018 میں مدرسے کے ایک طالبعلم نے دی تھی۔

وکلا نے بتایا کہ مدرسے کے طالبعلم کی جانب سے طفیل ضیا جونیئر وکیل کے طور پر پیش ہوتے رہے ہیں۔ پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ 29 جولائی کو جب طاہر احمد نسیم کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا تو اس وقت فیصل خالد نے ان پر فائرنگ کر دی تھی۔

طفیل ضیا پر الزام ہے کہ انھوں نے ملزم کو سہولت فراہم کی تھی۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس بارے میں مزید تفتیش کی جا رہی ہے اور اس بارے میں وہ کوئی زیادہ بات نہیں کر سکتے۔

ہوا کیا تھا؟

پولیس کے مطابق طاہر احمد نسیم کے خلاف 25 اپریل 2018 میں تھانے سربند میں توہین رسالت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس ایف آئی آر میں دفعات 295 اے بی سی، 298، 153 اے درج کیے گئے تھے۔

پشاور، توہین رسالت

پشاور کی کمرۂ عدالت میں قتل کے بعد مقتول کی لاش ایمبولینس میں لے جائی جا رہی ہے

ایف آئی آر کے مطابق تھانہ سربند کو اسلام آباد کے مدرسے کے طالبعلم کی جانب سے درخواست ملی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ طاہر احمد نسیم توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس بارے میں یو ایس بی میں تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں۔

پولیس کو دی گئی تحریری درخواست میں کہا تھا کہ ان کی طاہر احمد کے ساتھ تعلق فیس بک پر ہوا اور پھر ان کی ملاقات پشاور میں ہوئی جہاں طاہر احمد نے ایسی باتیں کیں جو توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہیں۔

کیا فیصل خالد کم عمر ہیں؟

توہین رسالت کے ملزم طاہر احمد نسیم پر عدالت میں فائرنگ کر کے ہلاک کرنے والے ملزم کی عمر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کم عمر ہیں یعنی ان کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے۔

اس بارے میں فیصل خالد کے وکیل شبیر حسین گگیانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کی عمر کی تصدیق کے لیے سکول سرٹیفیکیٹ دیکھا جاتا ہے اور اگر سکول سرٹیفیکیٹ نہ ہو تو شناختی کارڈ یا فارم ب سے مدد لی جاتی ہے اور اگر وہ بھی نہ ہو تو پھر میڈیکل بورڈ اس بارے میں فیصلہ کرتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ پہلے ایک مدرسے کا سرٹیفیکیٹ لایا گیا لیکن وہ مدرسہ رجسٹرڈ نہیں تھا جس کے بعد پولیس ایک پرائمری سکول کا سرٹیفکیٹ لائی ہے جس میں فیصل خالد کی عمر 17 سال اور چھ یا سات ماہ بتائی گئی ہے۔

توہین مذہب کے ملزم طاہر احمد نسیم کے پاس امریکہ کی شہریت تھی اور وہ 2018 سے جیل میں تھے۔

29 جولائی 2020 کو ان کے مقدمے کی سماعت تھی جس کے لیے انھیں پشاور میں سیشن جج کی عدالت میں لایا گیا تھا۔

طاہر احمد نسیم کو عدالت کے احاطے میں فیصل خالد نامی نوجوان نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا ۔ قتل کا یہ مقدمہ اس وقت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔

فیصل خالد کی جانب سے وکلا نے پہلے ضمانت کی درخواست دی تھی جسے واپس لے لیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp