پاکستان سفارت کاری میں ’بھائی‘ کیوں تلاش کرتا ہے؟


وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین کے صوبے ہنان میں وزیر خارجہ وانگ ای کی قیادت میں چینی وفد کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں۔ ان اسٹریٹیجک مذاکرات میں دونوں ملکوں نے باہمی تعاون کی صورت حال پر اطمینان کا ظاہر کیا اور متعدد شعبوں میں مل کر کام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں پاک چین دوستی کو ’آہنی بھائیوں‘ جیسے تعلقات قرار دیا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خارجہ تعلقات میں پاکستان کو دوستوں اور اصولوں پر اتفاق کرنے والے ممالک کی بجائے بھائیوں کی تلاش کیوں رہتی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی ملک کے بارے میں پاکستانی قیادت کی طرف سے بھائی ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہو۔ خارجہ امور پر بات کرتے ہوئے برادرانہ کے علاوہ ہمالہ سے اونچی، سمندروں سے گہری دوستی جیسی اصطلاحات کا استعمال بھی عام ہے۔ مفادات کی بنیاد پر عقلی لحاظ سے مثبت تعلقات استوار کرنے کے عمل کو رشتوں اور پہاڑوں و سمندروں کی اونچائی اور گہرائی کے مماثل قرار دینے سے دو مقصد ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ الف) کسی ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں پائے جانے والے سقم کو عام نگاہوں اور نتیجتاً تنقید سے دور رکھنا ۔ ب) ایسے جذباتی الفاظ استعمال کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو یقین دلانا کہ کسی ایک ملک کے ساتھ ایسے تعلقات ہیں کہ وہ کسی بھی مشکل وقت میں ایک دوسرے کے لئے کوئی بھی قربانی دینے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔

چین کی طرح سعودی عرب بھی پاکستان کا ممدوح رہا ہے۔ اس کے ساتھ دوستی کو بھی حقیقی بھائیوں جیسی قرار دیا جاتا ہے۔ البتہ شاہ محمود قریشی کے سخت بیان اور سعودی عرب کے رد عمل کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ اب اس بیان سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔ مہذب انداز میں پاکستانی وزیر خارجہ نے صرف یہ کہا تھا کہ سعودی عرب کو مقبوضہ کشمیر کے سوال پر اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔ اگرچہ یہ بیان ایک ٹی وی ٹاک شو میں دے کر ریاض کو اشتعال دلانا ہی مقصود ہوگا لیکن اسلام آباد کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ یہ تیر نشانے پر نہیں لگا۔ اس تنقید سے پہنچنے والی تکلیف کو پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ ریاض بھی رفع کرنے میں کامیاب نہیں ہؤا ۔ اسی لئے اب وزیر اعظم سے لے کر وزارت خارجہ کے ترجمان تک مختلف نوع کے بیانات سے ریاض کو ایک بار پھر رجھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔

سعودی عرب نے ہر موقع پر پاکستان کی بھرپور مالی مدد کی ہے۔ گو کہ سفارتی سطح پر اس کا تعاون اتنا متاثر کن نہیں رہا جیسا چین نے پاکستان کو فراہم کیا ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں پاکستانی ماہرین اور مزدور بھی سعودی عرب میں کام کرتے ہیں جو ملک کے لئے قیمت زر مبادلہ بھیجنے کا سبب ہیں۔ دوسری طرف پاکستان نے بھی ہر معاملہ پر سعودی عرب کی غیر مشروط حمایت کی ہے۔ حرمین شریفین کی حفاظت کے نام پر پاکستانی حکومت اور فوج کسی بھی بحران میں سعودی عرب کو عسکری امداد فراہم کرنے کا وعدہ کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود شاہ محمود قریشی کے ایک بیان کو ’ہضم‘ کرنے یا اس کی تردید کے لئے کوئی سفارتی پیغام بھیجنے کی بجائے سعودی قیادت نے پاکستان کی مالی امداد محدود کرکے اس کا سخت جواب دینا ضروری سمجھا۔ پاکستان نے پھر بھی سفارت کاری میں جذبات کی آمیزش کا طریقہ ترک نہیں کیا۔

2015 میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ مل کر یمن کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی تھی۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے اس جنگ میں سعودی عرب کا ساتھ دینے سے انکار کردیاتھا۔ اس انکار کے بعد سعودی عرب کی طرف سے درپردہ اور یو اے ای کی طرف سے کھلم کھلا دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا گیا تھا۔ تاہم جب پاکستان نے کئی ہزار فوجی مشیر عسکری بیک اپ کے طور پر سعودی عرب روانہ کئے اور سابق پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سعودی قیادت میں نام نہاد اسلامی فوجی اتحاد کی کمان سنبھال لی تو سعودی عرب کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ ہوگیا اور تعلقات بحال ہونے لگے۔ اس کا کھلا اظہار اکتوبر 2018 میں دیکھنے میں آیا جب تحریک انصاف کی نئی نویلی حکومت کو شدید مالی بحران سے نکالنے کے لئے سعودی عرب نے تین سال کے لئے 6 ارب ڈالر کا امدادی پیکیج دیا۔ ان میں سے تین ارب ڈالر اسٹیٹ بنک میں زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لئے رکھے گئے اور تین ارب ڈالر کا خام تیل تین سال کے دوران فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔

شاہ محمود قریشی کی طرف سے او آئی سی کے کردار پر انگلی اٹھانے اور سعودی عرب کو متحرک ہونے کا مشورہ دینے کے بعد سعودی عرب نے فوری طور سے اسٹیٹ بنک سے اپنے ڈالروں میں سے ایک ارب ڈالر واپس مانگ لئے اور قرض پر تیل دینے کا معاہدہ بھی سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ سعودی ناراضی کا سب سے کھلا اور سخت اظہار یہ تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دو روزہ دورہ پر ریاض جانے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات سے گریز کیا۔ سفارتی ہزیمت کے اس تجربے کے بعد بھی پاکستانی قیادت یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے کہ ملکوں کے تعلقات رشتہ داری نہیں ہوتے۔ وہ اس وقت تک قریبی اور خوشگوار رہتے ہیں جب تک دونوں ممالک ان سے استفادہ کرتے رہیں۔ جوں ہی ایک ملک کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ملک سے تعلقات اس کے مفادات کے لئے بوجھ بن رہے ہیں تو انہیں تبدیل کرنے میں تاخیر نہیں کی جاتی۔ اسی لئے سفارت کاری میں گراں مایہ توصیفی اصطلاحات کی بجائے نپے تلے ٹھوس الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ ارادہ اور مقصد بھی واضح ہو اور کسی غلط فہمی کا امکان بھی نہ رہے۔

پاکستان میں اس کے باوجود شاہ محمود قریشی کے دورہ چین کے موقع پر دونوں ملکوں کو ’آہنی بھائی‘ قرار دینے پر فخر و کامیابی کی علامت سمجھا جارہا ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی اسی طرح دو طرفہ مفادات پر استوار ہیں جس طرح سعودی عرب کے ساتھ معاملات ہیں۔ اسی لئے جیسے سعودی عرب کی شان میں ’گستاخی‘ کے بعد تقریباً معافی مانگنے کی صورت حال پیدا ہوئی ہے، اسی طرح اگر پاکستان نے کسی مرحلے پر کوئی ایسا فیصلہ کیا جو چین کے سفارتی، اسٹریٹیجک اور اقتصادی مفادات کے برعکس ہؤا تو اس آہنی بھائی بندی کو موم کی ناک بنتے دیر نہیں لگے گی۔ چین اگر سی پیک منصوبوں کے تحت پاکستان میں سرمایہ کاری کررہا ہے تو یہ دونوں ملکوں کی بھائی بندی، شاہ محمود قریشی کی سفارتی مہارت یا عمران خان کے شخصی کرشمہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ سی پیک صدر ژی جن پنگ کے عالمی مواصلاتی و اقتصادی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ کا لازمی حصہ ہے۔ گوادر کی بندرگاہ اور سنکیانگ تک مواصلاتی روٹس سے چین کثیر تجارتی و اسٹریٹیجک فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اور امریکہ اس منصوبہ کے خلاف ہیں۔ پاکستان کی سفارت کاری اور چین سے دوستی کا اصل امتحان اس وقت ہوگا جب پاکستان سی پیک کے خلاف امریکی دباؤ کا مناسب جواب دینے پر تیار ہوگا۔

چین کے ساتھ حالیہ اسٹریٹیجک مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رکھنے اور متعدد سیاسی، اسٹریٹیجک اور سفارتی معاملات پر مکمل اتفاق رائے کا اظہار کرتے ہوئے اشتراک عمل کا اعلان کیا ہے۔ اعلامیہ میں یہ فقرہ بھی شامل ہے: ’ پاکستانی وفد نے بعض ایسے معاملات پر چین کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا جو چین کے لئے بنیادی تشویش کا سبب ہیں۔ ان میں تائیوان، سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ کے معاملات شامل ہیں‘۔ دنیا جانتی ہے کہ تائیوان کے علاوہ باقی تینوں خطوں میں بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی اقلیتوں کی آزادی کا مسئلہ درپیش ہے۔ دنیا تبت میں بدھوں اور سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے خلاف چینی حکومت کے استبداد کی مخالفت کرتی ہے۔ پاکستانی قیادت مگر اس معاملہ پر چین کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کررہی ہے۔

کیا شاہ محمود قریشی اور عمران خان اعلامیہ کے اس حصہ کی وضاحت کرتے ہوئے بتائیں گے کہ سنکیانگ میں کون سے عوامل چینی حکومت کے لئے تشویش کا سبب بنے ہوئے ہیں اور لاکھوں ایغور مسلمانوں کو حراستی مراکز میں بند کرکے انہیں ’تربیت گاہوں‘ کا نام کیوں دیا گیا ہے۔ کیا پاکستان نے کسی بھی سطح پر سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کی حالت زار پر آواز اٹھانے یا چینی مظالم کو مسترد کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے؟ دو روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ اگر فلسطینیوں کا علیحدہ وطن بننے سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرلیا گیا تو پاکستان کشمیر پر اپنا مقدمہ ہار جائے گا۔ کیا عمران خان کو علم ہے کہ سنکیانگ میں بھی مقبوضہ کشمیر کی مسلمان آبادی کے مساوی ایغور مسلمان آباد ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کے برعکس ایغور مسلمانوں کو تو اپنے مذہبی شعائر پر عمل کرنے کی آزادی بھی نہیں ہے۔ لیکن عمران خان ایک حرف شکایت زبان پر نہیں لائیں گے۔

ملکوں کے تعلقات مشترکہ مفادات کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں۔ دونوں اپنا مفاد دیکھتے ہوئے ایک دوسرے کی ایسی کمزوری سے صرف نظر کرتے ہیں جس سے ان کے مفادات متاثر نہ ہوتے ہوں۔ بین الملکی تعلقات بھائی بندی نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ اتنے مستحکم ہوتے ہیں کہ انہیں کبھی تبدیل نہ کیا جاسکے۔ ایک غیر محتاط بیان ایسی بھائی بندی کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سعودی عرب کے بارے میں یہ تجربہ کیا جاچکا ہے۔ پھر بھی یقین نہ ہو تو وزیر خارجہ ایغور مسلمانوں کی بہبود کا معاملہ زبان پر لاکر دکھائیں۔

 بہتر ہوگا کہ بلند بانگ نعروں اور دعوؤں سے عوام کو مسحور کرنے کی بجائے، حقیقت پسندی کی بنیاد پر خارجہ تعلقات استوار کرنے کا چلن اختیار کیاجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali