تماشا ختم کر دیں


وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار بھی نیب کی زد میں آگئے ہیں، آمر پرویز مشرف نے کیا خوب ادارہ بنایا ہے، اس ادارے نے 20 سال میں احتساب کو مذاق بنا کررکھ دیا ہے، ایاز امیر نے خوبصورت کالم لکھا تھا کہ بزدار کو دھرا بھی ہے تو کس کیس میں؟ نیب کو پنجاب کی اتنی بڑی حکومت میں کوئی چج (کام) کا کیس نہیں ملا تھا، اپوزیشن چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ نیب احتساب کرنے والا ادارہ نہیں بلکہ انتقامی ادارہ بن چکا ہے

میری ذاتی رائے میں نیب ایک ایسا جانور پالا گیا ہے جس کو ”مالک“ کے اشارے پر کسی پر بھی چھوڑ دیا جاتا ہے، صحافت کرتے ہوئے دو دہائیوں سے زیادہ کا وقت گزر گیا، عمر گزر گئی ایسے ڈرامے دیکھتے دیکھتے، نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا، نواز شریف، بینظیر بھٹو کے ادوار دو سے تین بار دیکھے، جمالی صاحب کا طرز حکومت بھی دیکھا، شوکت عزیز جیسے پپٹ کی حکومت بھی دیکھی

صحافت میں پانچ، چھ سال کام کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچ گیا تھا کہ اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے، اسٹیبلشمنٹ کہہ لیں یا کوئی بھی نام دے لیں، ملک کے اصل ”مالکان“ کی ایک ہی پالیسی ہے کہ اس ملک میں استحکام نہیں ہونے دینا، عوام ایسے جاہل ہیں ان کو کسی بھی تماشے پر لگا دوں، کام کاج چھوڑ کر سارا دن کھڑے تماشا دیکھتے رہیں گے

کبھی آصف زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ بنا دیا جاتا ہے، کبھی ملک کا تین بار وزیراعظم بننے وال چور قرار دیدیا جاتا ہے، کبھی طاہرالقادری جیسے عالم تماشا لگانے اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں، حلوے کی خوشبو آئے تو مولانا فضل الرحمن بھی جھوم اٹھتے ہیں اور اسلام کا نعرہ مستانہ بلند کرکے اسلام آباد تماشا لگاتے ہیں، پھر وہی مداری والا کھیل، تماشے کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا

ملک کے اصل ”مالکان“ نے کسی بھی حکومت کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے نہیں دی، کبھی بینظیرحکومت تو کبھی نوازحکومت دو سے تین سال میں ہی توڑ دی جاتی رہیں، حد تو یہ ہے کہ آمر پرویز مشرف نے اپنی ہی حکومت کے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی کو فارغ کرکے ڈسپوزایبل وزیراعظم شوکت عزیز کو میدان میں لے آیا، 2002 ءکے الیکشن میں منتخب ہونے والی حکومت نے پانچ سال تو پورے کیے مگر وزیراعظم تین آئے یا لائے گئے

بینظیر بھٹو کی شہادت کے صدقے میں پیپلزپارٹی کو ملنے والی حکومت میں بھی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دیدیا گیا پھر راجہ پرویز اشرف آگئے، نواز شریف جدہ یاترا کا ایک فائدہ ہوا ان کو تھوڑی سی عقل آئی مگر گیلانی کو ہٹانے کے لئے انہوں نے اپنا پورا زور لگایا، پھر اسی حکمت عملی کے تحت اپنی ہی حکومت میں نا اہل ہوگئے، جیل پہنچ گئے اور پھر کیوں نکالا؟ کا رونا روتے روتے لندن پہنچ گئے، اب اصل مالکان نے اپنی کامیاب حکمت عملی کے تحت بقول شخصے سلیکٹڈ وزیراعظم لے آئے۔

سلیکٹڈ وزیراعظم نے دوسال نواز، زرداری کی کرپشن کی کہانیاں سنانے میں گزار دیے، دو سال بعد جب ”مالکان“ کو شک گزرا کہ وہ اپنے پاؤں نہ جما لیں تو ملک کو ایک بار پھر عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے اس بار وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو استعمال کیا جا رہا ہے

عثمان بزدار پر کیس بھی کیسے بنائے جا رہے ہیں، کیا کیا الزامات لگا رہے ہیں، تازہ ترین نیب نے کیس کھولا ہے جو ٹھوکر نیاز بیگ گیٹ کی تعمیر کی لاگت بڑھنے کے بارے میں ہے، اب نیب کو کون سمجھائے کہ اس طرح کے منصوبوں میں استعمال ہونیوالی بجری جو دو سال قبل تین، پینتیس روپے فٹ تھی اب ساٹھ روپے فٹ ہو چکی ہے، ایسی صورت میں لاگت نہیں بڑھے گی تو اور کیا ہوگا

عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کا واحد مقصد ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے کیونکہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے، پنجاب میں ہلچل ہوگی تو اس کے اثرات وفاق تک جائیں گے، سندھ میں کوشش ناکام رہیں اور شاید تحریک انصاف والوں کو بھی کچھ عقل آ گئی ہے اور وہ پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم سے مل کر کراچی کے مسائل حل کرنے کے لئے اکٹھے ہوگئے ہیں

ملک جس نہج پر پہنچ چکا ہے یہ مزید عدم استحکام برداشت کر سکتا ہے؟ اگر عدم استحکام کا مقصد صرف سیاستدانوں کو ہی بدنام کرنا ہے تو پھر جمہوریت کا ڈرامہ رچانے کا کیا فائدہ ہے، مارکیٹ میں شوکت عزیز اور معین قریشی جیسے پپٹ بہت مل جاتے ہیں جیسے ان پپٹس سے ملک چلایا تھا اب بھی کسی پپٹ کو لے آئیں بلکہ اب تو چین نے مزید آسانی پیدا کردی ہے، شوکت عزیز اور معین قریشی جیسے پپٹ آرڈر پر تیار کروائے جا سکتے ہیں۔

ملک میں غریب مررہے ہیں، غربت ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہی ہے، حکومت بہت فخر سے بتاتی ہے کہ ایک سال میں جتنے موٹرسائیکل فروخت ہوئے ہیں اتنے تاریخ میں نہیں ہوئے، تو جناب یہ خوشحالی نہیں غربت کی نشانی ہے، جو سفید پوش اپنا بھرم رکھنے کے لئے کار رکھتے تھے ان کی مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے اور وہ کار چھوڑ کر موٹرسائیکل پر آگئے ہیں، خدارا ملک کو چلنے دیں، عوام کو خوشحال ہونے دیں، سیاستدانوں کو کام کرنے دیں، عوام خود ہی احتساب کر لیں گے، عوام کو بھی اختیار دیں، کب تک تماشے لگاتے رہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس کر دیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).