پن بجلی: پاکستان میں موجودہ صلاحیت، وسائل اور چیلنجز


پن بجلی قابل تجدید توانائی کی وہ قسم ہے، جو گرتے ہوئے پانی اور اس کے تیز بہاؤ کی طاقت کو استعمال کر کے حاصل کی جاتی ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا قابل تجدید توانائی کا ذریعہ ہے۔ جس سے کم و بیش دنیا کی کل قابل تجدید توانائی کا 54 فیصدجب کہ دنیا کی کل توانائی کا 18 فیصد حاصل ہورہا ہے۔ زمانہ قدیم میں پانی کی طاقت کو مختلف قسم کی پانی کی ملوں، آب پاشی کے حصول اور مختلف قسم کے مکینیکل آلات جیسے چکی، آرے، کپڑے بنانے والے کھڈے، بڑے ہتھوڑے، ڈوک کرین، اور گھریلو لفٹ وغیرہ کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

انسویں صدی کے آخر میں پانی باقاعدہ بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ نارتھمبرلینڈ 1878 میں کرگسائیڈ پن بجلی سے چلنے والا پہلا گھر تھا۔ جب کہ پہلا تجارتی پن بجلی گھر 1879 میں نیاگرا فالز میں تعمیر کیا گیا۔ پن بجلی کا استعمال بیسویں صدی کے اوائل سے بڑھنا شروع ہوا، جو آج تک جاری ہے۔ توانائی کا یہ منصوبہ نہ صرف سستا بلکہ ماحول دوست بھی ہے۔ اسی لئے عالمی بینک جیسا ادارہ پن بجلی کو (جو فضا میں کاربن کی خاطر خواہ مقدار کو خارج کیے بغیر بجلی پیدا کرتا ہے ) معاشی ترقی کے ایک بڑے ذریعہ کے طور پر دیکھتا ہے۔

پن بجلی کے حصول کے لئے مختلف قسم کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پہلا ’ڈیم یا حوض‘ بنا کر پانی کو ذخیرہ کر کے ٹربائن کی مدد سے بجلی پیدا کرنا۔ دوسرا ’رن آف ریور‘ یعنی بہتے دریا میں پین سٹوک کے ذریعے جس میں ڈیم بنانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ تیسرا ’پمپڈ اسٹوریج‘ جس میں ذخیرہ پانی کو پمپ کی مد د سے کھینچ کر توانائی کے حصول کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مختلف اعداد و شمارکے مطابق ایک ڈیم کی اوسط عمر 50 سال کی ہے۔

مگر کئی ڈیم اپنی 100 سالہ زندگی گزار چکے ہیں۔ شعبہ توانائی کے مطابق 30 میگاواٹ سے زائد صلاحیت کے حامل منصوبے بڑے جب کہ 10 میگاواٹ یا کم کے منصوبے چھوٹے، اور 100 کلوواٹ کے منصوبے مائکرو پن بجلی کی اقسام میں تصور ہوتے ہیں۔ پن بجلی کے عمومی طور پرتین بڑے حصے ہوتے ہیں۔ جس میں ’حوض‘ جو پانی ذخیرہ کرنے کے لئے، ’ڈیم‘ جو پانی کے بہاؤ کو قابو کرنے کے لئے، اور ’بجلی گھر‘ جو بجلی بنانے کے لئے ہے۔ سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تو پانی میں موجود متحرک توانائی (کائنے ٹک توانائی) کو ڈیم میں نصب ٹربائن مکینیکل توانائی میں تبدیل کرتی ہے۔ جسے بعد ازاں جنریٹربجلی (الیکٹریکل توانائی) میں تبدیل کرتے ہیں۔

بات پاکستان میں توانائی کے بحران کی ہو تو یہ گزشتہ کئی دہائیوں سے چلتا آ رہا ہے۔ لوڈ شیڈنگ نے جہاں لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں، وہیں صنعتی محاذ پر ہم دنیا سے خاصا پیچھے رہ گئے ہیں۔ سیاسی رسہ کشی میں مگن مقتدر حلقوں نے عوام سے روشنیوں کے بلند و بانگ دعوے تو کیے مگر کبھی بھی توانائی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ گزشتہ کئی برسوں سے تیل اور گیس سے مہنگی توانائی کے حصول کی بدولت ملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ سی پیک میں موجود توانائی کے منصوبوں نے لوگوں کو امید کی ایک نئی راہ دکھائی ہے۔ گزشتہ دو ادوار میں توانائی کے منصوبوں پرکچھ پیشرفت ہوئی اور موجودہ حکومت بھی قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر دلچسپی لے رہی ہے۔ آج بہت سے منصوبوں پر کام جاری ہے اور کئی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔

”اکنامک سروے 2019۔ 20 کے مطابق پاکستان کی 2020 میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 37400 میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ صنعتی اور گھریلو زیادہ سے زیادہ طلب 25000 میگاواٹ تک ہے۔ جب کہ ترسیل کی صلاحیت تقریباً 22000 میگاواٹ پر تعطل کا شکار ہے“ ۔ پاکستان میں ترسیل کا نظام خاصا پرانا ہے، اس کی صلاحیت کو نہ صرف بڑھانے بلکہ اس میں جدید تقاضوں کے تحت تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان میں توانائی کا ایک بڑا حصہ لائن لاسز اور بجلی چوری کی نظر ہو جاتا ہے۔ متعلقہ اداروں کو سوچنا ہو گا کہ کون سے عوامل کی بنا پر بجلی کی ترسیل میں مشکلات پیش آ رہی ہیں؟ آخر توانائی کی وافر مقدار کے ہوتے ہوئے بھی لوڈشیڈنگ کے مسائل سے کیوں دو چار ہیں؟

’یونائٹیڈ اسٹیٹس گورنمنٹ‘ کے مطابق 2019 میں پاکستان 64 فیصد توانائی حیاتیاتی ایندھن، 27 فیصد پن بجلی، اور 9 فیصد دیگر قابل تجدید اور جوہری ذرائع سے حاصل کر تا رہا ہے۔ جب کہ ’واپڈا‘ کے مطابق 2020 میں ہائیڈل شیئر 32 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے۔

بات پاکستان میں نصب منصوبوں کی ہو تو تقسیم کے وقت پاکستان کو وراثت میں 31.5 ملین نفوس کے لئے 60 میگاواٹ توانائی کے منصوبے نصیب ہوئے تھے۔ واپڈا کے قیام کے وقت 1958 میں پاکستان کی پن بجلی کی مقدار بڑھ کر 119 میگاواٹ تک پہنچ چکی تھی۔ پھر سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کا حق 142 ملین ایکڑ فیٹ تک ٹھہرا تو وارسک ڈیم، منگلا، اورتربیلاجیسے منصوبے نصب کیے گئے۔ جو آج بھی پاکستان کے بڑے منصوبوں میں شما ر ہوتے ہیں۔

پاکستان میں پن بجلی کے موجودہ نصب چھوٹے بڑے فعال منصوبے 90 کے قریب ہیں۔ جن کی مجموعی صلاحیت 10132 میگاواٹ کی ہے۔ جس میں کم و بیش 5700 میگاواٹ کے پی کے، پنجاب 1800، آزاد کشمیر 2400، گلگت بلتستان 147 اور سندھ میں 0.5 میگاواٹ کے منصوبے نصب ہیں۔ پاکستان کے چند بڑے فعال منصوبے۔ تربیلا ڈیم جو دریائے سندھ پر ہری پور میں واقع ہے۔ یہ پاکستان کا زیر استعمال سب سے بڑا ڈیم ہے۔ جس کی صلاحیت 4888۔ 6298 میگاواٹ تک ہے۔ یہ منصوبہ 1976 میں مکمل ہوا۔

غازی بروتھا جو اٹک کے مقام پر دریائے سندھ سے منسلک منصوبہ ہے۔ یہ بہتے دریا پر نصب منصوبہ ہے۔ جس کی صلاحیت 1450 میگاواٹ تک ہے۔ منگلا ڈیم میر پور آزاد کشمیر کے مقام پر دریائے جہلم پر واقع ہے۔ جس کی پیداواری صلاحیت 1000 میگاواٹ ہے۔ جب کہ اس کو 15 فیصد اضافی بوجھ پر چلا رہے ہیں اور اس کی 1500 میگاواٹ تک توسیع کا منصوبہ مکمل ہو چکا ہے۔ نیلم جہلم، آزاد کشمیر میں جو 2018 میں فعال ہوا قریب 970 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کا منصوبہ ہے۔

ورسک ڈیم پشاور ویلی میں دریائے قابل پر واقع ہے۔ جس کی پیداواری صلاحیت 243 میگاواٹ ہے۔

اسی طرح دیگر کئی چھوٹے بڑے پن بجلی کے منصوبے کام کر رہے ہیں۔ بہت سے پرانے منصوبوں کے استعمال کی مدت ختم ہونے کے قریب ہے۔ مستقبل میں بڑھتی ہوئی توانائی کی کھپت کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو توانائی کے نئے منصوبے جلد تعمیر و فعال کرنا ہوں گے۔

اسی ضمن میں بہت سے نئے منصوبوں پر تعمیری کام ہو رہا ہے۔

پن بجلی کے 20 منصوبے ایسے ہیں، جوزیر تعمیر یا تعمیر کے لئے تیاری کے مرحلوں میں ہیں۔ جن کی مجموعی صلاحیت 12032 میگاواٹ کی ہے۔ جس میں کم و بیش 6683 میگاواٹ کے پی کے، 720 پنجاب، 48 آزاد کشمیر (اعداد و شمار میں آزاد پتن کا نیا منصوبہ شامل نہیں)، 4563 گلگت بلتستان، 13.6 سندھ اور 4.4 میگاواٹ کے منصوبے بلوچستان میں موجود ہیں۔

موجودہ حکومت نے گلگت بلتستان میں چلاس کے قریب دریائے سندھ پر واقع دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا اعلان کیا ہے، جس کی تکمیل 2028 تک متوقع ہے۔ یہ 4800 میگاواٹ کی صلاحیت کا منصوبہ ہے۔ اس کی تکمیل سے نہ صرف بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکے گا، بلکہ یہ منصوبہ 12 لاکھ ایکڑسے زائد رقبہ بھی سیراب کرے گا۔ داسو ڈیم جو 4320 میگاواٹ کا منصوبہ ہے وہ بھی زیر تکمیل ہے۔ اسی طرح حکومت نے سی پیک کے تحت آزاد پتن کے منصوبے پر بھی دستخط کر لئے ہیں اور اس کے مکمل ہونے کا عندیہ 2026 تک کاہے۔ اس سے 700 میگاواٹ تک بجلی حاصل کی جا سکے گی۔ گزشتہ سال مہمند ڈیم پر بھی تعمیر کا آغاز ہو چکا ہے۔

پن بجلی کے ایسے منصوبے جو زیر تجویز ہیں اور ان پر مستقبل میں کام ہو سکتا ہے 86 کے قریب ہیں۔ ’واپڈا‘ کے مطابق بیس کے قریب منصوبوں پر مستقبل میں کام کیا جا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ان کی صلاحیت 47700 میگاواٹ کی ہے۔ جن میں کم و بیش کے پی کے 11000 میگاواٹ، پنجاب 870، آزاد کشمیر 5500، گلگت بلتستان 30000، سندھ 37.2 اوربلوچستان 3.8 میگاواٹ صلاحیت کے منصوبے زیر غور ہیں۔ جن میں 15000 میگاواٹ کا کتزارہ ڈیم جو شیوک، سکردو کے قریب واقع ہے اور 7100 میگاواٹ کا بنجی ہائیڈرو پراجیکٹ جو استور، گلگت بلتستان میں واقع ہے شامل ہیں۔

اگر پاکستان میں پن بجلی کی ممکنہ استعداد کا اندازہ لگایا جائے تو باخوبی علم ہوتا ہے کہ اللہ نے پاکستان کو پانی جیسی عظیم قدرتی نعمت سے نوازا ہے۔ لیکن ہم اس عظیم نعمت کو بروقت استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ واپڈا کے مطابق پاکستان کے پاس پن بجلی پیدا کرنے کی 100000 میگاواٹ کی استعداد ہے۔ جن میں سے تصدیق شدہ سائٹس 60000 میگاواٹ کی ہیں۔ مگر پاکستان میں موجودہ نصب فعال منصوبے مجموعی طور پر محض 10132 میگاواٹ کے ہیں۔

پاکستان نہ صرف پانی کو ذخیرہ کر کے توانائی پیدا کر سکتا ہے، بلکہ پانی کی قلت کو کم کرنے کے ساتھ زرعی رقبوں کو بحال و سیراب بھی کر سکتا ہے۔ پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30 فیصد ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں امریکہ کی دریائے کولو راڈو پر 497 فیصد، مصر کی دریائے نیل پر 281 فیصد اور بھارت کی ستلج۔ بیاس بیسن پر 35 فیصد ہے۔ پاکستان کو آئندہ برس ماحولیاتی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانا چاہیے۔

”معروف سائنسی جریدے“ نیچر ”کے مطابق دنیا بھر کے دریاؤں کو پانی فراہم کرنے والے گلیشئرز کا جائزہ لیا گیا۔ جن کی تحقیق کے مطابق دریائے سندھ سب سے زیادہ خطرے میں ہے“ ۔ ”نیشنل جغرافی میں شائع ایک اندازے کے مطابق 2050 میں دریائے سندھ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشئرز کے پگھلنے کی وجہ سے پانی کا بہاؤ اپنے عروج پر ہوگا“ ۔ موسمی تغیرات کو بھانپتے ہوئے پاکستان کو پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا تا کہ آئندہ موسمی تبدیلیوں کے سبب پیش آنے والے سیلابی ریلوں سے نہ صرف مقامی آبادی کو محفوظ بنایا جا سکے بلکہ اسے ذخیرہ کر کے زرعی رقبوں کی بحالی اور بجلی کی پیداوار کے لئے استعمال کیا جا سکے۔

بات چیلنجز کی ہو تو، پن بجلی کے منصوبوں کو حائل سب سے بڑی رکاوٹ معاشی کمزوری ہے۔ ملک پہلے ہی معاشی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ایسے حالات میں بڑے ڈیمز تعمیر کرنا اور ان کی تحقیق پر خرچ کرنا حکومت کے لئے کٹھن ترین کام ہے۔

سیاسی سطح پر بہت کم توجہ اور ہلکی پھلکی ترجیح بھی ان منصوبوں کو پس پشت دھکیل دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ڈیموں کے متعدد بار ریاستی سطح پر اعلان و افتتاح کے باوجود تعمیری کام شروع نہیں ہوسکا۔

یہ ایک طویل مدتی کام ہے۔ جس کے اثرات بھی طویل مدت بعد آتے ہیں اور سرمایہ کاری کا منافع بھی طویل مدت بعد ملتا ہے۔ اسی لئے اس کی طرف رجحان کم ہو سکتا ہے۔ طویل مدت تحقیقات کا دورانیہ اور طویل مدت تعمیر کا دورانیہ بھی اس کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔

متوقع سائٹس سے دور دراز انفراسٹرکچر کا قیام یا خستہ حال انفراسٹرکچر، تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی، الیکٹرو مکینیکل سازو سامان کی مقامی سطح پر عدم دستیابی، تجربہ کار مقامی تعمیراتی کمپنیوں کا فقدان، منصوبوں پر عمل درآمد میں نجی سرمایہ کار کمپنیوں کا کم رجحان اور دیگر کئی تکنیکی و غیر تکنیکی وجوہات بھی پن بجلی کے منصوبوں کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔

سیکیورٹی کے مسائل، جیسے پاکستان جغرافیائی طور پر بہت سے اندرونی و بیرونی دشمنوں سے گھرا ہوا ہے اور بہت سے پراجیکٹس پاک۔ بھارت بارڈر کے قریبی علاقوں کی وجہ سے بھی پس پشت جا سکتے ہیں۔

دیگر متبادل توانائی کے ذرائع بھی اس کی راہ میں حائل آ سکتے ہیں۔ جیسا کے بہت سے سرمایہ کاروں نے فرنس آئل پر چلنے والے پاور پلانٹس لگا رکھے ہیں۔ جو کم وقت اور کم قیمت میں سرمایہ کار کو منافع دیتے ہیں۔

ڈیم کے کچھ منفی اثرات جن کو ماضی میں چیلنجز کو طور پر لیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ زمین کا کٹاؤ، تلچھٹ، مختلف سپیشز کا خاتمہ، موسمی تغیرات (بارشوں کی زیادتی) ، پانی میں کھار کا بڑھنا، مختلف قسم کی بیماریوں کا پھیلاؤ اور زمین کی گردش میں تبدیلی (ناسا کی تحقیق کے مطابق چین کے تھری گارجز ڈیم کی بدولت زمین کی گردش 0.06 مائیکرو سیکنڈز سست ہو گئی ہے ) وغیرہ۔

ڈیم کی جگہ سے آبادی کی ہجرت کے مسائل بھی علاقائی و سیاسی سطح پر حائل ہو سکتے ہیں۔

نوٹ: تحریر میں معلومات واپڈا، وکی پیڈیا، اے ای ڈی بی، انڈیپینڈنٹ پاور پرڈیسور ایسوسی ایشن، انٹرنیشنل ہائیڈروپاور ایسوسی ایشن اور دیگر سے لی گئی ہیں، تحریر میں موجود کچھ حساب ذاتی طور پر کیا گیا ہے۔

ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، پیشے کے اعتبار سے مکینیکل انجینئر ہیں اور گزشتہ سال (2019) میں توانائی کے شعبے میں آگاہی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).