آئیں کچھ روایات بدلیں


یہ اکیسویں صدی ہے اور دنیا اب پرانی قبائلی روایات سے بہت آگے جا چکی ہے۔ ہر طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے چرچے ہیں۔ ہر کوئی جدیدیت میں کھویا ہوا ہے اور ہونا بھی بھی ہے کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ انسان نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تو وہ اس جستجو میں مضطرب ہے کہ اس سے بہتر یا بہترین مل جائے۔ اور انسان جو ہے ہی حریص و لالچی، تو وہ ہر چیز میں اور اور اس سے بہترین کی تلاش میں ہے۔ انسانی ترقی کسی دور میں بھی رکھی نہیں ہے اور وقت بہ وقت نت نئے ایجادات اور دریافتیں ہو رہے ہیں۔ انسان نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک عالمگیر عمرانی معاہدہ طے کیا ہے تا کہ اس کو اپنے بنیادی انسانی حقوق مل سکیں۔ لوگوں نے جدید ریاستوں میں اپنے بنیادی حقوق وضع کیے اور اپنے دساتیر میں ریاستوں سے اس کی ضمانت مانگی۔

دور جدید میں، جہاں سائنس عروج پر ہے، پتہ نہیں بیس پچیس سال بعد کیا ہو گا، تقریباً تمام ممالک تعلیم اور تحقیق میں ایک دوسرے کو مات دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ آئے روز غیر معمولی ایجادات اور دریافتیں ہو رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کو زندگی کے تمام سہولیات گھر کے دہلیز پر ہی فراہم کرتے ہے۔ بھوک لگی ہے تو سمارٹ فون کھولو اور آپ کی پسندیدہ خوراک حاضر! بیمار ہو تو اپنا سمارٹ فون کھولوں اور ڈاکٹر حاضر! الغرض تمام سہولیات صرف ایک کلک کی دوری پر ہیں۔

بنیادی تعلیم سے لے کر نوکری تک ریاست آپ کی ذمہ داری لیتی ہے اور اگر بالفرض ایک عرصے تک آپ کو نوکری نہیں ملتی تو آپ کو اپنے ضروریات پوری کرنے کے لئے بیروزگاری کا الاؤنس دیا جاتا ہے۔ ان ممالک کی ترقی دراصل اپنے شہریوں کو ریاست کی طرف سے دی گئی سہولیات اور بنیادی حقوق فراہم کرنے کے بنیاد پر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہاں کے باشندے اپنی ریاستوں اور حکومتوں کے زیادہ وفادار ہے۔ وہاں پر ٹیکسوں کی ادائیگی کا شرح ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ وہاں پر قانون کی حکمرانی کے چرچے ہیں۔ ان کو ریاستوں کے غلط فیصلوں کے خلاف آواز اٹھانے کا حق دیا گیا ہے۔ وہ اپنے ریاستوں سے سوال کر سکتے ہیں اور اپنے ٹیکسوں کا حساب لے سکتے ہیں۔

اب میں مملکت خدا داد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف آتا ہو جو بائیس کروڑ سے زیادہ لوگوں پر مشتمل ہے۔ وقت وقت کی بات ہے! کبھی یہ ملک بھی ایک زرعی ملک تھا۔ برصغیر ( پاک و ہند ) کے وقت اس کو  ”سونے کی چڑیا“ کہا جاتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کر لیا تھا۔ مملکت خدا داد خدا پاک کے دیے گئے بیش بہا نعمتوں سے مالامال ہے مگر پھر بھی 1947 میں الگ ہونے اور آزادی کا دعویٰ کرنے کے باوجود ابھی تک ہم راہ راست پر نہیں آ سکیں، جس کی کئی ایک وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔

ویسے ہم دنیا کی ہر ایک لسٹ میں نمبر ون ہونے کی خیالی دعوے کرتے چلے آرہے ہیں لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ہم ترقی یافتہ دنیا سے کہیں زیادہ دور جا رہے ہیں۔ 1956 اور 1962 کے آئین (جو دونوں ہمارے ایک مقدس ادارے نے رد کر دیے تھے ) کی راکھ کو اکٹھا کر کے 1973 میں تیسری بار ایک دستور وجود میں آیا جو انتہائی دقت و دشواریوں سے گزرنے کے بعد اب تک مملکت خداداد میں رائج ہے لیکن 47 سال میں ریاست اس پر من و عن عمل کرانے میں ناکام رہی۔

لوگ سویلین سپریمیسی کے لیے ترس رہے ہیں۔ کروڑوں پختون و بلوچ اور اقلیتیں آئین پر صحیح عمل کرانے کے لئے رو رہے ہیں مگر مجال ہے کہ ریاست ٹس سے مس ہو جائے۔ جو کروڑوں کی تعداد میں لوگ آئین کی بالادستی کے لیے بول رہے ہیں، ان کو خاموش کرانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آئینی حقوق مانگنا ریاست کی طرف سے جرم مانا جاتا ہے جس کی سزا یا تو موت پر ختم ہوتا ہے یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے اور عدالت و کچہریوں کے چکر کاٹنے پر تمام ہوتا ہے۔

ہماری پسماندگی اور زوال کی یوں تو ہزاروں وجوہات بیان ہو سکتی ہیں لیکن ان سب کی تہہ تک اگر کوئی پہنچ جائے تو بات اس ایک ہی جگہ پر رکتی ہے اور وہ ہے  ”آئین پر عمل نہ کرنا“ ۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہم ایک ترقی یافتہ ملک بن جائیں تو کچھ روایات کو بدلنا ہوگا، کچھ غلطیوں کا ازالہ کرنا ہو گا۔ آج کے بعد غداری کی اسناد بانٹنا بند کرنا ہوگا اور جن کو غدار ٹھہرایا گیا تھا، ان کی ارواح سے معافی مانگ کر محب وطن قرار دینا ہوگا۔ مذہبی لیبل اور ٹیگ لگانا بند کرنا ہو گا۔ سوال کو ملکی سالمیت پر حملہ تصور نہیں کرنا ہوگا۔ آئین پاکستان اور انسانی حقوق کے عالمگیر معاہدے کے تحت ہر شخص کو اپنی زندگی اپنے طرز سے گزارنے کا حق دینا ہوگا۔ اظہار رائے کو گستاخی کا نام نہیں دینا ہو گا۔ سب سے بڑھ کر سویلین سپریمیسی کو پروان چڑھانا ہو گا اور عوام کے ووٹ کی قدر کرنا ہوگا۔ اگر ایسا ہو سکا تو ہماری ترقی کرنا ناگزیر ہے ورنہ زوال تو ویسے بھی جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).