تحریک انصاف کی کارکردگی: نواز شریف سے نواز شریف تک


پاکستان جیسے ملک میں جہاں دہائیوں کے دوران معاشی و سیاسی مسائل حل کرنے کی بجائے انہیں بڑھانے پر صلاحیتیں صرف کی گئی ہوں، کسی بھی نئی حکومت کے لئے دو سال کی مدت میں کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھانا ممکن نہیں ہوسکتا۔ تاہم ایسی حکومت جو تحریک انصاف کی طرح بلند بانگ دعوؤں اور ’22‘ سال کی تیاری یا جد و جہد کے بعد برسر اقتدار آئی ہو، دو برس کے دوران حالت کی تبدیلی کا کوئی واضح نقشہ ضرور پیش کرسکتی تھی۔ عمران خان کی قیادت میں قائم حکومت البتہ کرپشن ختم کرنے کے دعوے کے علاوہ قومی احیا کا کوئی ٹھوس منصوبہ پیش نہیں کرسکی۔ یہی اس حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔

دو برس میں کوئی عمران خان یا تحریک انصاف سے معجزوں کی توقع نہیں کررہا تھا لیکن لگتا ہے عمران خان یہ خواب دیکھتے ہوئے ہی برسر اقتدار آئے تھے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ان کے قدم رنجہ فرماتے ہی، الہ دین کا کوئی چراغ ان کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ اسے رگڑ کر عوام سے کئے ہوئے سارے وعدے پورے کردیں گے۔ بدقسمتی سے خوابوں کی دنیا کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن بطور وزیر اعظم عمران خان کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ تصوراتی دنیا کو حقیقی صورت حال سے علیحدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ وہ روحانیت کی تعلیم کے لئے یونیورسٹی بنا کر ملک میں ایسی ریاست بنانے کا خواب دیکھتے ہیں جس میں رومانوی داستانوں کی طرح لوگ خوان بھر کر خیرات دینے کے لئے پھرتے ہوں گے لیکن لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ حکومت کے احساس پروگرام کے تحت کوئی بھی خیراتی پروگرام شروع ہو، لینے والوں کی یوں قطاریں لگتی ہیں کہ نظم قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔

عمران خان کی تصوراتی دنیا سے قطع نظر پاکستان میں کسی متوازن الرائے شخص کو تحریک انصاف کی حکومت سے کسی فوری تبدیلی کی امید نہیں تھی البتہ یہ توقع کی جارہی تھی کہ ماضی کی غلطیوں سے گریز کیا جائے گا اور ملک میں خوشگوار سیاسی ماحول پیدا ہوگا۔ اداروں کو ان کی حدود میں کام کرنے کی روایت استوار کرنے کا آغاز ہو گا۔ سیاسی اختلاف کی بنیاد پر طعن و تشنیع اور انتقامی کارروائیوں کا خاتمہ ہوگا اور قانون واقعی سب کے لئے یکساں قرار پائے گا۔ اگر کوئی طاقت ور صرف اپنی سماجی، سیاسی یا معاشی پوزیشن کی وجہ سے رعایت کا مستحق نہیں ہوگا تو کسی کمزور اور لاچار کو محض اس لئے عدالتوں کے دھکے نہیں کھانے پڑیں گے کیوں کہ اس کے پاس وکیل کی فیس ادا کرنے کے لئے دولت کی فراوانی نہیں ہے۔

عمران خان ایک فرد ہیں۔ وہ کسی خاندان یا کسی ایک خاص سماجی گروہ یا طبقہ کی نمائیندگی نہیں کرتے۔ ان کے بچے بھی برطانیہ میں تعلیم پاتے ہیں۔ وہیں کے شہری ہیں اور وہ کبھی پاکستان آکر سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔ اس پس منظر کی وجہ سے عمران خان سے یہ توقع ضرور کی جارہی تھی کہ وہ واقعی ملکی سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوں گے۔ ماضی میں جو خرابیاں لیڈر کی خاندانی یا گروہی ضرورتوں یا مجبوریوں کی وجہ سے پیدا ہوتی تھیں، عمران خان ملک کو ان سے نجات دلا سکیں گے۔ عمران خان اس توقع پر پورے نہیں اتر سکے۔ کیوں کہ وہ خوابوں کی دنیا ہی نہیں، اپنی ذات کے حصار کو بھی توڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

پھر بھی یقین کرنا چاہئے کہ عمران خان کے لئے امور حکومت بالکل نیا تجربہ تھا۔ وزیر اعظم بننے کے لئے انہیں متعدد سمجھوتے کرنے پڑے تھے۔ آخری وقت میں اعتماد کا ووٹ دینے والے سیاسی گروہوں اور افراد کی اپنی ضرورتیں تھیں جنہیں پورا کرنا بہر حال عمران خان کی مجبوری بن چکی تھی۔ حکومت میں دو سال کی مدت کوئی خاص وقت نہیں ہوتا۔ خاص طور سے اگر اقتدار سنبھالنے والے ناتجربہ کار اور نوآموز ہوں۔ عمران خان کو ماضی کے تجربے یا ان کے کسی معاشی منشور کی وجہ سے ووٹ نہیں ملا تھا۔ انہیں ان کی ’دیانت‘ اور شخصیت کے سحر کی وجہ سے عوام کے ایک بڑے طبقے کی حمایت حاصل ہوئی تھی۔ تحریک انصاف کی حمایت کرنے والا یہ طبقہ ان سے فوری نتائج کی توقع بھی نہیں کرتا۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ معاشرتی اصلاح کے کام کا آغاز ہو سکے۔

ملک میں جمہوریت، پارلیمنٹ کی بالادستی، صوبائی خود مختاری، عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور آزادی رائے کو یقینی بنانے کی خواہش رکھنے والے بھی عمران خان سے دو سال کے عرصہ میں ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ بس یہ امید کی جا رہی تھی کہ عمران خان کی قیادت میں بننے والی حکومت کا طریقہ مختلف ہوگا۔ یہ پارٹی ملک میں تیسری سیاسی قوت کے طور اپنی جگہ ہی نہیں بنائے گی بلکہ انداز سیاست میں نئے مزاج اور رویہ کا آغاز بھی ہوگا۔ اس طرح بہتری کی طرف پیش قدمی ہوسکے گی۔ اس کے برعکس عمران خان اور ان کی حکومت نے دو سال میں یہ تاثر قوی کیا ہے کہ وہ اپنے سوا باقی سب کا حق سلب کرنا چاہتے ہیں۔ وہ عوام کو طاقت ور بنانے کی بجائے خود مطلق العنان حکمرانی کی خواہش رکھتے ہیں اور حکومتی اختیار کو یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ تاثر کسی بھی حکومت کے لئے بھاری ثابت ہوسکتا ہے۔

پاکستان تمام تر برائیوں کے باوجود آمرانہ مزاج کی تائید کرنے والا معاشرہ نہیں ہے۔ یہاں مکمل اختیار کے ساتھ ملک پر قبضہ کرنے والے فوجی حکمران بھی ایک عشرہ سے زیادہ اقتدار پر قابض نہیں رہ سکے۔ عرب ملکوں میں متعدد لیڈر طاقت کے زور پر کئی کئی دہائیوں تک برسر اقتدار رہے ہیں۔ پاکستان میں یکے بعد دیگرے فوجی آمر عوامی غیظ و غضب کا سامنا کر چکے ہیں۔ عمران خان تو پھر ووٹوں سے منتخب ہوکر اقتدار تک پہنچے ہیں۔ انہیں اس پوزیشن پر لانے میں ضرور عسکری حلقوں کی اعانت حاصل رہی ہے لیکن وہ براہ راست نہ فوج کے نمائندہ ہیں اور نہ ہی بطور عسکری کمانڈر کوئی مسلح گروہ ان کی پشت پر ہے۔ ایسے شخص کی طرف سے مطلق العنانیت اور بلا روک ٹوک اختیار کی خواہش و کوشش پوری ہونے کا امکان موجود نہیں ہے۔ یہ خواہش عمران خان کی سب سے بڑی کمزوری اور ناکامی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت دو سال مکمل ہونے کے بعد اپنی کاکردگی کے حوالے سے قصیدہ گوئی کا سلسلہ شروع نہ کرتی تو کوئی اس سنگ میل کو عبور کرنے پر کسی خاص رد عمل کا اظہار بھی نہ کرتا۔ اپوزیشن کے بیان پہلے بھی سامنے آتے رہتے ہیں، ایک آدھ نئی پریس کانفرنس سے حکومت کی پوزیشن متاثر ہونے کا امکان نہیں تھا۔ اسی طرح چند منفی تبصروں یا ٹی وی پروگراموں سے بھی کسی خاص بحث کا آغاز نہیں ہوسکتا تھا۔ حکومت تندہی سے ان منصوبوں پر کام جاری رکھ سکتی تھی جو اس نے خود اپنے بقول ملک میں تبدیلی لانے اور عوام کی تقدیر بدلنے کے لئے شروع کئے ہیں۔ لیکن گزشتہ دو ہفتے کے دوران وزیروں کے بیانات، محبان کے تبصروں اور وزیر اعظم کے انٹرویو سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی خود یہ محسوس کر رہی ہے کہ اس کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے۔ اس کمزوری کو تسلیم کرتے ہوئے بہتری کا منصوبہ بنانے کی بجائے اپوزیشن کو رگیدنے، الزامات کا نیا طوفان برپا کرنے اور این آر او نہ دینے اعادہ کرنا ضروری سمجھا گیا۔ یہ حکومت کا اعتراف شکست ہے۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے نواز شریف کو مفرور مجرم قرار دے کر برطانیہ سے واپس لانے کا طول طویل منصوبہ پیش کیا ہے، وزیر اطلاعات شبلی فراز نے نیب ترمیمی مسودہ میں اپوزیشن کی تجویز کردہ تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس حکومتی دعویٰ کی ’دستاویز‘ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے کہ اپوزیشن ’این آر او ‘ چاہتی ہے اور وزیر شہری ہوا بازی غلام سرور خان نے ملک لوٹنے والوں کو پھانسی دینے کی تجویز دے کر حکومت کا سیاسی ایجنڈا واضح کردیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کارکردگی کے نام پر حکومت کا سب سے بڑا نکتہ نواز شریف کو برطانیہ سے واپس لاکر انہیں کوٹ لکھپت جیل بھیجنا ہے۔ یعنی عمران خان کی سیاست و حکومت نواز شریف سے شروع ہو کر نواز شریف پر ہی گھوم رہی ہے اور وہ نواز شریف کو ’ولن‘ کے طور پر پیش کرکے خود کو ’ہیرو‘ ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ کوئی عمران خان کو یہ نہیں بتاتا کہ اس سعی لاحاصل میں تحریک انصاف درحقیقت یہ بھیانک سچائی سامنے لارہی ہے کہ وہ اقتدار میں ہونے کے باوجود کچھ کرنے میں کامیاب نہیں ہے اور اسے بدستور عوام کو منہ دکھانے کے لئے کسی نواز شریف یا کسی نعرے کی ضرورت ہے۔

حکومت کے دو سال مکمل کرنے کے بعد بھی جس حکمران کو نعروں پر ہی اعتبار ہو اور جو اپوزیشن لیڈروں کی کردار کشی کو ہی اپنی سب سے بڑی سیاسی کامیابی سمجھتا ہو، اسے خود تنہائی میں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ابھی تو حکمرانی کی نصف مدت بھی پوری نہیں ہوئی۔ یہ حکومت باقی تین سال کیسے گزارے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali