کراچی بارشیں: شہری ’اربن فلڈنگ‘ سے بچنے کے لیے کیا کریں؟


پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں منگل کو ہونے والی طوفانی بارش کے نتیجے میں شہر کے متعدد علاقے زیرِ آب آ گئے ہیں۔

کراچی اور صوبہ سندھ کے دیگر شہروں میں بارش کا سلسلہ منگل کی صبح شروع ہوا اور کئی گھنٹے تک جاری رہا جس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبے بھر میں ’رین ایمرجنسی‘ نافذ کر دی ہے۔

کراچی میں مون سون بارشوں کا تازہ ترین سلسلہ 24 اگست سے شروع ہوا ہے اور محکمہ موسمیات کراچی کے ڈائریکٹر سردار سرفراز کے مطابق یہ 27 اگست تک جاری رہ سکتا ہے اور اس دوران اربن فلڈنگ کی بھی وارننگ جاری کی گئی ہے۔

اگر سندھ کے دیگر علاقوں کی بات کی جائے تو محکمہ موسمیات کے مطابق منگل کو حیدر آباد میں 134 ملی میٹر، میرپور خاص میں 172 ملی میٹر، چھور میں 122 ملی میٹر، ٹھٹہ میں 82 ملی میٹر،بدین میں 110 اور مٹھی میں 147 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے۔

محکمۂ موسمیات کے مطابق منگل کو کراچی میں سب سے زیادہ بارش پی اے ايف فيصل بيس کے علاقے میں ہوئی جہاں 118 ملی ميٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ شہر میں اس بارش کے نتیجے میں اگست کے مہینے میں ایک مقام پر مہینے میں سب سے زیادہ بارش کا نیا ریکارڈ بھی قائم ہوا ہے۔

محکمۂ موسمیات کے اعدادوشمار کے مطابق کراچی میں ماہِ رواں کے دوران اب تک 345 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے جو اب تک شہر میں اگست کے مہینے میں ہونے والی سب سے زیادہ بارش ہے۔ اس سے پہلے اگست کے مہینے میں سب سے زیادہ بارش اگست 1984 میں ہوئی تھی جب فیصل بیس پر 298.4 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔

طوفانی بارش سے کراچی ’زیرِ آب‘

بارش کی وجہ سے کراچی شہر کے بیشتر رہائشی اور کاروباری علاقوں میں پانی کھڑا ہو گیا جبکہ نشیبی علاقے کئی کئی فٹ پانی میں ڈوب گئے۔

شہر کے زیادہ متاثرہ علاقوں میں گلشنِ حدید، سرجانی ٹاؤن، ملیر ندی سے ملحقہ علاقے، کورنگی، لانڈھی، ڈیفنس، منظور کالونی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، اورنگی ٹاوَن، آئی آئی چندریگر روڈ، صدر، کھارادر، نارتھ کراچی، ناگن چورنگی، گلبرگ، بفرزون ،عزیز آباد اور لیاقت آباد شامل ہیں۔

ان کے علاوہ ڈیفنس سوسائٹی، گزری، کیماڑی، سعدی ٹاؤن، قائد آباد اور گلستان جوہر کے علاقے بھی متاثر ہوئے ہیں۔

YouTube پوسٹ نظرانداز کریں, 1

ویڈیو کیپشن,تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

YouTube پوسٹ کا اختتام, 1

گلستان جوہر میں منور چورنگی کے قریبی علاقے میں منگل کو بارش کے بعد مٹی کا تودہ گرنے سے متعدد گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بھی تباہ ہوئی ہیں تاہم اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے منگل کی رات جاری کیے گئے بیان کے مطابق شدید بارش کے بعد کراچی کے مختلف حصے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جبکہ کیرتھر کے سلسلہ ہائے کوہ میں بھی تیز بارشوں کے نتیجے میں لاٹھ اور تھاڈو ڈیم میں بھی پانی بھر گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق لاٹھ ڈیم میں پانی بھرنے کے باعث ناردرن بائی پاس پر پانی آ گیا اور ملیر ندی میں میں سیلابی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔

منگل کی شب ملیر ندی کے نواحی علاقوں رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ندی میں طغیانی کے بعد پانی ندی سے نکل کر آبادیوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ قائد آباد کے ایک رہائشی شوکت ربانی کا کہنا تھا کہ ’ملیر ندی کا بپھرا ہوا پانی علاقوں میں داخل ہو چکا ہے۔ اس وقت میں خود اور کئی لوگ چھتوں پر کھڑے ہیں۔ فوج کے اہلکار لوگوں کی مدد کر رہے ہیں مگر امداد کے منتظر لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔

ایک اور متاثرہ شخص ڈاکٹر یاسین دستی کا کہنا تھا کہ ’ثمر گوٹھ ملیر کے علاقے میں بھی ملیر ندی کا ہماری آبادی تک پہنچ چکا ہے۔ گھروں میں پانی داخل ہوچکا ہے۔ باہر نکلنے کا راستہ بھی موجود نہیں ہے۔ عملاًہم گھروں میں محصور ہو چکے ہیں۔ اس وقت ہمارے پانی، بجلی، گیس کوئی سہولت نہیں ہے کئی گھروں میں عورتیں، بچے، بزرگ بھوکے اور پیاسے ہیں اور امداد کے منتظر ہیں۔‘

 

پاکستانی فوج کے مطابق طوفانی بارش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوج اور سندھ رینجرز کے 70 سے زیادہ اہلکار امدادی کارروائیوں کے لیے شہری انتظامیہ کی مدد کر رہے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فوج کی ٹیم قائد آباد کے علاقے میں محصور افراد کو وہاں سے نکالنے کی کوششیں کر رہی ہے جبکہ آرمی انجینیئرز نے 200 میٹر طویل اور چار فٹ اونچا بند بھی تعمیر کیا ہے تاکہ موٹروے ایم نائن پر پانی نہ جائے۔

کے الیکٹرک کے گرڈ سٹیشنوں کی حفاظت کے لیے بھی فوجی جوان تعینات کر دیے گئے ہیں۔

سندھ میں ’رین ایمرجنسی‘ نافذ

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے شدید بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے صوبے میں ’رین ایمرجنسی‘ نافذ کردی ہے۔

صوبائی حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے رین ایمرجنسی کی اطلاع ٹوئٹر پر دی۔ اس سے قبل وزیراعلیٰ سندھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کل شام سے مستقل بارش ہو رہی ہے اور اتنی بارش میں شہر میں کافی حالات خراب ہیں۔‘

صوبائی وزیرِ بلدیات سعید غنی کا کہنا ہے کہ بدھ کی صبح تک شہر کی اہم شاہراہوں پر موجود پانی کی نکاسی کر دی جائے گی تاہم رہائشی اور نشیبی علاقوں سے پانی نکلنے میں وقت لگے گا۔ جیو نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 100 ملی میٹر سے زیادہ بارش کہیں بھی ہو پانی جمع ہوتا ہے۔

اس انٹرویو کے کچھ دیر بعد سعید غنی نے کراچی کی مرکزی سڑک شاہراہ فیصل کی ایک ویڈیو ٹوئٹر پر شیئر کی جس میں انھوں نے دن بھر سامنے آنے والی ویڈیوز اور تصاویر کے مقابلے میں رواں شاہراہ دکھائی۔ سعید غنی نے اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے صرف یہ لکھا ’میٹروپول ہوٹل شاہراہ فیصل رات دس بجکر 35 منٹ پر‘۔

گلستان جوہر میں لینڈ سلائیڈ

’ابھی پچھلی بارش کا پانی نکلا نہیں کہ دوبارہ بارش آ گئی‘

خیال رہے کہ کراچی کے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں پر ابھی تک 21 اگست کو ہونے والی بارشوں کا پانی ہی نہیں نکل پایا ہے اور بارش کے تازہ سپیل نے شہریوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

سرجانی ٹاون کراچی کے رہائشی بابو ارشاد نے صحافی زبیر خان کو بتایا کہ 21 اگست کو ہونے والی بارشوں کا پانی ابھی بھی کھڑا ہے اور ان کے گھر کا تقریباً سارا سامان اور فرنیچر تباہ ہوچکا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ بال بچوں کے ہمراہ گھر کی چھت پر دن رات گزارنے پر مجبور ہیں اور گھر رہائش کے قابل ہی نہیں رہا ہے۔

بابو ارشاد کا کہنا تھا کہ سرجانی ٹاؤن کے علاقوں میں چھ چھ فٹ پانی تھا جو اب تو کم ہوگیا ہے مگر ابھی تک پانی، بجلی اور گیس بحال نہیں ہوئی ہے۔ علاقے کے کئی گھر اس وقت رہائش کے قابل نہیں رہے ہیں۔

’21 اگست کی رات میرے بال بچوں اور علاقے کے کئی خاندانوں نے بھوکی گزاری تھی۔ صبح کے وقت ایدھی، الخدمت اور چھپیا کے رضاکاروں نے کھانے پینے کا کچھ سامان فراہم کیا تھا۔ گیس نہ ہونے کی وجہ سے ابھی بھی ہم اور علاقے کے کئی خاندان گھریلو زندگی دوبارہ نہیں شروع کر پائے ہیں۔‘

محکمہ موسمیات کراچی کے مطابق 21 اگست کی بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتحال ’اربن فلڈنگ‘ تھی جبکہ پیر سے بدھ کے دوران ہونے والی بارشوں میں بھی اربن فلڈنگ کا خدشہ موجود ہے۔

کراچی، بارش، اربن فلڈنگ

صحافی محمد زبیر خان نے بتایا کہ صوبہ سندھ کی حکومت کے مطابق ان بارشوں سے کراچی کے کئی علاقے جن میں تیسر ٹاؤن، لیاری ایکسپریس وے ریسیٹلمنٹ سوسائٹی، روزی گوٹھ، خدا کی بستی، عرض محمد گوٹھ اور ان علاقوں سے ملحق کئی علاقے اربن فلڈنگ کا شکار رہے تھے جہاں پر ابھی بھی زندگی مکمل طور پر بحال نہیں ہوئی ہے۔

محکمہ موسمیات کراچی کے ڈائریکٹر سردار سرفراز کے مطابق یہ صورتحال شدید بارشوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کراچی میں اگست کے ماہ میں 30 سال کے دوران اوسط بارش 61 ملی میٹر تھی جبکہ اس سال اگست میں بارشوں کے گذشتہ تین سلسلوں کے دوران 61 ملی میٹر سے زائد بارشیں ہوچکی ہیں۔

سردار سرفراز کے مطابق کراچی میں بارشوں کا چوتھا سلسلہ 24 اگست کی شام سے شروع ہوچکا ہے اور یہ تین چار روز جاری رہنے کا امکان ہے۔

’ہمیں خدشہ ہے کہ بارشوں کا یہ سلسلہ گذشتہ تین بارشوں کے سلسلہ سے زیادہ شدید ہوسکتا ہے، جس وجہ سے اربن فلڈنگ جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔‘ ان کے مطابق اس میں شاید پورا کراچی ہی متاثر ہو مگر نشیبی علاقے اولڈ سٹی ایریاز، صدر وغیرہ کے علاقوں کے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہے۔

اربن فلڈنگ کیا ہے اور شہر اس کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ 21 اگست کو سرجانی ٹاؤن اور اردگرد کے علاقوں میں تو 106 ملی میٹر بارش ہوئی، مگر کراچی کے کچھ علاقے ایسے تھے جہاں پر 32 ملی میٹر تک بارش ہوئی ہے اور وہاں پر بھی صورتحال سنگین ہوگئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں کچھ علاقوں میں آدھے گھنٹے کے دوران 50 ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔ ان کے مطابق کم وقت میں زیادہ بارش ہونے سے بھی حالات گھمبیر ہوجاتے ہیں۔‘

اربن فلڈنگ کی بنیادی وجہ پانی کو نکاسی کے لیے راستہ نہ ملنا اور کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے نہ لگانا ہے۔ ابھی تک بارشوں کے گذشتہ تین سلسلوں کا پانی بھی پوری طرح نکلا نہیں ہے اور اس وجہ سے بھی اس چوتھے سلسلے سے اربن فلڈنگ کا زیادہ خدشہ ہے۔

کراچی، بارش، اربن فلڈنگ

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم خان کے مطابق کراچی ایک ایسا شہر ہے جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے بڑھتا چلا گیا، جس میں شاید زیادہ عمل دخل تاریخی حالات اور واقعات کا ہے۔

قیام پاکستان سے پہلے اس شہر کی آبادی 12 سے 13 لاکھ تھی مگر جب برصغیر تقسیم ہوا تو یک دم ہی اس شہر میں تقریبا مزید 30 لاکھ لوگ آبسے۔ 1971 میں بنگلہ دیش قائم ہوا تو ایک بار پھر بڑی تعداد میں لوگوں نے اسی شہر کا رخ کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ کراچی پہنچ گئے، جبکہ اس کے ساتھ پورے پاکستان سے لوگ روزگار کے لیے تقریباً روزانہ ہی کراچی منتقل ہوتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف چند سال کے دوران اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی منتقلی کے بعد آبادی نے بڑھنا ہی ہے اور جن حالات میں ایک سے زائد مرتبہ جو منتقلیاں ہوئیں اس میں منصوبہ بندی ممکن ہی نہیں تھی، جس کے بعد یہ شہر کنکریٹ کا جنگل بنتا چلا گیا ہے۔

کراچی میں 500 سے زائد برساتی نالے ہیں جو بحیرہ عرب میں جا گرتے ہیں مگر معظم خان کے مطابق آبادی بڑھنے کے باعث کراچی کی ندی نالیوں پر بھی آبادیاں قائم ہوگئیں۔ ’اب نہ تو کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا مؤثر انتظام ہے نہ نکاسی آپ کی کا کوئی انتظام ہے۔ جس وجہ سے اب اگر کراچی میں معمول کی بارشیں بھی ہوں گی تو صورتحال نارمل نہیں رہے گی، مگر اب تو معمول سے زائد بارشیں ہو رہی ہیں۔‘

اس صورتحال کے باعث کراچی میں اربن فلڈنگ اور اس کے نقصانات کا خدشہ پہلے سے زیادہ ہوچکا ہے۔

معظم خان کا کہنا تھا کہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی شہر کا ماسٹر پلان دوبارہ بنایا جائے، جس میں اس شہر کی ضروریات کو مدنظر رکھا جائے۔ ’یہ ایک طویل مدتی کام ہے جبکہ فوری طور پر کرنے کا کام یہ ہے کہ تمام ندی نالوں پر سے تجاوزات ختم کی جائیں۔ یہ فوری کرنے کا کام ہے۔‘

سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب ایڈووکیٹ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ 21 اگست کی بارشوں سے ابھی بھی کچھ علاقوں میں مسائل موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بارشوں کا نیا سلسلہ 24 اگست کی شام سے شروع ہوا تھا جس کے بعد کچھ علاقوں میں پانی اکھٹا ہوا ہے۔

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ اور وہ خود اس وقت کراچی شہر کی سڑکوں پر موجود ہیں۔ ’ہماری تمام شہری انتظامیہ، واٹر بورڈ، بلدیہ اور دیگر محکمے مستعد ہیں اور بارش کے بعد پانی نکالنے کے انتظامات مکمل ہیں۔

’ان کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں کو بھی الرٹ کیا گیا ہے جبکہ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کے وفاقی اور صوبائی محکمے بھی الرٹ ہوچکے ہیں، لوگوں کو جس بھی مقام پر مدد کی ضرورت ہو، وہ اپنے علاقے کے ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں اطلاع فراہم کریں۔

کراچی، بارش، اربن فلڈنگ

شہری کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرسکتے ہیں؟

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ اربن فلڈنگ ایک حقیقت ہے اور اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ شہری احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور بلاضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

’میں شہر کا دورہ کر رہا تھا تو اس بارش کے دوران دیکھا کہ لوگ موٹر سائیکلوں پر اپنے خاندانوں کے ہمراہ سفر کر رہے ہیں، شہریوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘

حکام کے مطابق:

  • بجلی کا کرنٹ لگنے سے ہلاکتیں ہوئی ہیں اس لیے شہریوں کو بجلی کی تاروں اور کھمبوں سے بچنا چاہیے
  • گھروں میں بجلی کی ناقص وائرنگ بھی حادثات کا سبب بن سکتی ہے
  • شہریوں کو چاہیے کہ وہ گھروں پر مناسب مقدار میں کھانے پینے کا سامان محفوظ مقام پر رکھیں
  • گلی محلوں میں بارش کا پانی اکھٹا ہوتا ہے، تو اس وقت لوگ چلتے ہوئے، یا گاڑی یا موٹر سائیکل پر سواری کرتے ہوئے زیادہ ترکسی گڑھے میں گر کر حادثات کے شکار ہوتے ہیں، اس لیے بلاضرورت باہر نہ نکلیں
  • تیز بہتے ہوئے پانی میں کچرا اور ملبہ بھی آ رہا ہوتا ہے، جس میں ٹھوس اور تیز دھار اشیاء بھی ہو سکتی ہے، ان سے بھی ٹکرانا انسانی زندگی کے لیئے خطرناک ہوتا ہے
  • بارشوں کے دوران بڑے بھی باہر نکلنے میں احتیاط کریں مگر خاص طور پر بچوں اور بزرگوں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے

حالیہ بارشوں سے کن علاقوں میں کیا خطرات موجود ہیں؟

محکمہ موسمیات کے مطابق مون سون ہوائیں شدت کے ساتھ ملک میں داخل ہو رہی ہیں جو پیر سے جمعرات تک ملک کے مختلف علاقوں میں بارش کی وجہ بنے گا۔

محکمے کے مطابق پیر سے بدھ کے دوران کراچی، حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، شہید بینظیرآباد، دادو، تھرپارکر، نگرپارکر، میرپورخاص، اسلام کوٹ، عمر کوٹ، سانگھڑ، سکھر اور لاڑکانہ میں، جبکہ پیر سے منگل تک بلوچستان میں قلات، لسبیلہ، خضدار، آواران، بارکھان، ژوب، موسیٰ خیل، لورالائی، کوہلو اور سبی میں گرج چمک کے ساتھ بارش کی توقع ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق منگل سے جمعرات کے دوران اسلام آباد، پنجاب، خیبر پختونخوا، اور گلگت بلتستان میں بھی بیشتر مقامات پر تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیش گوئی ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق مندرجہ ذیل علاقوں میں حالیہ مون سون بارشوں کی وجہ سے خطرات موجود ہیں:

دن علاقہ خطرہ
پیر سے منگل کراچی، حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین اربن فلڈنگ
پیر سے منگل قلات، خضدار، لسبیلہ پہاڑی نالوں میں طغیانی
بدھ سے جمعرات پشاور، چارسدہ، مردان، ہری پور نشیبی علاقے زیر آب آ سکتے ہیں
بدھ سے جمعرات راولپنڈی، گوجرانوالہ، جہلم، سیالکوٹ، حافظ آباد، سرگودھا، لاہور، فیصل آباد نشیبی علاقے زیر آب آ سکتے ہیں
بدھ سے جمعرات کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا بالائی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ

محکمہ موسمیات کے مطابق اس وقت پاکستان کے تمام بڑے دریاؤں میں نچلے درجے کے سیلاب کی صورتحال ہے، جو کہ خطرے سے باہر ہے تاہم ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے پہاڑوں اور ندی نالوں میں درمیانے درجے کے طغیانی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق 26 سے 28 اگست دریائے کابل، جہلم، چناب اور راوی کے بالائی علاقوں میں بارشوں سے دریاؤں کا بہاؤ تیز ہوسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp